Home تجزیہ علم کی قدرومنزلت اور موجودہ ٹیوشن سسٹم

علم کی قدرومنزلت اور موجودہ ٹیوشن سسٹم

by قندیل

محمد طارق اعظم
علم دولتِ بے بہا ہے، انمول شی ہے،یہ ایسی دولت ہے، جو اپنے طالب کو رفعتِ ثریا عطا کرتی ہے، قومیں اسی کی بہ دولت عروج سے ہمکنار ہوتی ہیں،فرد کی تعمیرِشخصیت میں علم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، عزت، وقار، سربلندی اور افتخار اسی علم میں پنہاں ہیں، اس دولتِ بے بہا کی قدر و قیمت بیحد اور بے حساب ہے؛ اس لیے اس کے حصول کے آداب ہیں اور اصول ہیں، اس علم سے حقیقی طور پر بہرہ ور اور نفع اندوز وہی ہوتے ہیں ،جو اس کے حصول میں آداب اور اصول کا پاس و لحاظ کرتے ہیں، تاریخ میں جتنے بھی نیک نام اور نامور گذرے ہیں، ان میں یہ قدر مشترک طور پر ملے گی کہ انہوں نے علم کو آداب اور اصول کی رعایت کرتے ہوئے حاصل کیا تھا،حصولِ علم کا سب سے اہم اور بنیادی اصول اور ادب یہ ہے کہ علم، صاحبِ علم (استاذ) اور آلۂ علم (کتاب، قلم، مدرسہ اور اسکول وغیرہ) کا خوب ادب اور احترام کرے اور ان سے عقیدت اور محبت رکھے، ادب کا علم سے گہرا تعلق اور ربط ہے، ادب علم کے لیے روح کی مانند ہے، گویا علمِ بے ادب جسمِ بے روح کی مانند ہے، یہ کہاوت اپنی جگہ بالکل برحق ہے:
’’با ادب با نصیب ،بے ادب بے نصیب‘‘
اسی ادب میں سے یہ ہے کہ طالب علم استاذ کے در پر حاضر ہو کر علم حاصل کرے اور زانوئے تلمذ تہ کرے، اسی ادب کے پیش نظر علمائے اسلاف نے حصول علم کے لیے در در کی خاک چھانی، دور دراز کے سفر کیے اور مشقتیں برداشت کیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما جو کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں او ر صحابۂ کرام بھی ان کا بڑا اکرام فرماتے تھے، اس کے باوجود حصولِ علم میں ان کے ادب کا یہ عالم تھا کہ اپنے استاذ محترم کے دروازے پر دستک دینا بھی گوارا نہیں کرتے تھے کہ مبادا ان کو گراں معلوم ہو۔ خود انہی کی زبانی پڑھیں، وہ اپنے شوقِ علم کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’جب کسی صحابی رضی اللہ عنہ کے متعلق مجھے معلوم ہوتا کہ ان کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی کوئی حدیث ہے ،تو میں قیلولہ کے وقت دوپہر میں ان کے دروازے پر پہنچ جاتا اور اپنی چادر کو سرہانے رکھ کر ان کے گھر کی چوکھٹ پر لیٹ جاتا۔ اس وقت دوپہر کی تیز اور گرم ہوائیں بہت سا گردو غبار اڑا کر میرے اوپر ڈال دیتیں؛ حالانکہ اگر میں ان کے گھر داخل ہونے کی اجازت مانگتا ،تو مجھے اجازت مل جاتی؛ لیکن میں ایسا اس لیے کرتا تھا کہ ان کی طبیعت مجھ سے خوش ہو جائے، جب وہ صحابی گھر سے نکلتے اور مجھے اس حال میں دیکھتے تو کہتے؛ ابن عمِ رسول! آپ نے کیوں یہ زحمت گوارا کی، آپ نے میرے یہاں اطلاع بھجوا دی ہوتی، میں خود حاضر ہو جاتا؛ لیکن میں جواب دیتا، میں آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کا زیادہ حق دار ہوں؛ کیونکہ حصولِ علم کے لیے صاحبِ علم کے پاس جایا جاتا ہے۔ صاحبِ علم خود طالبِ علم کے پاس نہیں جایا کرتے، پھر میں ان سے حدیث پوچھتا۔(۱)
حضرت امام مالک رحمہ اللہ اسی ادبِ علم کے پیش نظر بادشاہ اور شہزادوں تک کو خاطر میں نہ لاتے تھے،عباسی خلیفہ مہدی نے اپنے دوبیٹوں موسی اور ہارون کو حکم دیا کہ امام مالک سے موطا کی سماعت کریں، شہزادوں نے امام کو بلا بھیجا، امام صاحب نے فرمایا:’’علم بیش قیمت شئے ہے، اس کے پاس خود شائقین آتے ہیں‘‘۔ مہدی کی اجازت سے دونوں شہزادے خود مجلسِ درس میں حاضر ہوئے، شہزادوں کے اتالیق نے کہا، پڑھ کر سنائیے، امامِ ذوالہمام نے ارشاد فرمایا کہ ہمارے علما کا دستور یہ ہے کہ طلبا پڑھیں شیوخ سنیں، مہدی کو خبر دی گئی، مہدی نے کہا کہ ان علما کی اقتدا کرو اور تم خود پڑھو؛ چنانچہ شہزادوں نے خود پڑھا اور امام نے سماعت کی۔ (۲)
اسی طرح جب خلیفہ ہارون رشید سریر آرائے خلافت ہوااور اپنے دو بیٹوں امین اور مامون کو لے کر حج کے لیے آیا ،تو ہارون رشید نے امام مالک کو موطا کے املا کے لیے دربارِ خلافت میں طلب کیا، امام صاحب نے بہ دستور انکار کیا اور موطا کے بغیر تشریف لائے،ہارون رشید نے شکایت کی، امام ذوالہمام نے اس موقع پر یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا:’’ہارون رشید! علم تیرے گھر سے نکلا ہے، خواہ اس کو ذلیل کر خواہ اس کو عزت دے۔‘‘ ہارون رشید متاثر ہوا، محمد الامین اور عبداللہ المامون دونوں شہزادوں کو لے کر مجلسِ درس میں حاضر ہوا، وہاں طلبا کا ہجوم تھا، ہارون رشید نے کہا اس بھیڑ کو الگ کر دیجیے، امام نے فرمایا:’’شخصی فائدے کے لیے عام افادہ کا خون نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ ہارون رشید مسند پر بیٹھ گیا، امام نے فرمایا ’’امیرالمومنین تواضع پسندیدہ ہے۔‘‘ہارون رشید مسند سے نیچے اتر گیا۔
دوسری منزل قراء ت و سماعت کی تھی، ہارون نے کہا آپ قراء ت کیجیے، امام نے فرمایا ’’خلافِ عادت ہے۔‘‘ یہ کہہ کر معن بن عیسی کو اشارہ کیا، جو مستعد طالب علم تھے اور آگے چل کر بڑے بڑے محدثین کے استاذ ہوئے، انہوں نے قراء ت شروع کی، ہارون نے مع شہزادوں کے سماعت کی۔ (۳)
حضرت علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ نے بہت ہی خوبصورت پیرایے میں اس واقعے کو نظم کیا ہے، خاص اس واقعے کے تعلق سے نظم کے ان اشعار کو ملاحظہ کریں:
آرزو تھی یہ خلیفہ کو مدینہ آ کر
جائیں محروم نہ اس در سے مرے لختِ جگر
پہنچا یہ حکم خلافت سے کہ اے ابنِ انس!
مجمعِ عام میں جا سکتے نہیں میرے پسر
اس لیے آج یہ بہتر ہے کہ املاے حدیث
آپ دیں خاص انہیں ایوانِ شہی میں آ کر
سن کے فرمانِ خلافت کو یہ ارشاد ہوا
اے خلیفہ! تیری تعمیل ضروری ہے مگر
ہے علمِ نبوی تیرے ہی گھر کی دولت
خواہ حرمت اسے دے خواہ اہانت اسے کر
سن کے ہارون نے دربارِ امامت کا جواب
بھیجا پیغام کہ خیر آپ نہ آئیں گے اگر
خود شہزادے وہاں درس میں حاضر ہوں گے
لیکن اوروں کا نہ ہو بزم میں اس وقت گذر
مالک بن انس اسے کہلا بھیجا
میرے کاشانہ میں ممکن نہیں تمیزِ بشر
درگہِ خاص نہیں درس گہِ عام یہ ہے
ہو مساواتِ بشر معنی اسلام یہ ہے
(۴)
امام دارِہجرت حضرت مالک کی جرأت اور استقامت دیکھیں کہ علم کے تقدس اور حرمت پر حرف نہ آنے دیا اور خلیفۂ وقت بھی آپ کی اطاعت پر مجبور ہوئے۔حضرت امام کا یہ عظیم اسوہ ہمارے لیے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتا ہے،اس سے یہ بھی واضح ہو تا ہے کہ علم کا اکرام و احترام صرف طالبِ علم پر ہی نہیں؛ بلکہ اساتذۂ کرام پر بھی علم کا اکرام و احترام ضروری ہے؛بلکہ اس بارے میں اساتذۂ کرام کی ذمے داری بہ نسبت طالبِ علم کے دو چند ہے؛ اس لیے کہ اساتذہ اپنے شاگردوں کے لیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اساتذہ پر لازم ہے کہ زبانی تلقین کے ساتھ اپنے کردار سے بھی علم کا اکرام و احترام طالب علموں کو سکھائیں۔
آج کے مادیت زدہ ماحول نے جہاں دیگر چیزوں کو متاثر کیا ہے، وہیں تعلیم و تعلم کے اس مقدس پیشے کو بھی متاثر کیا ہے۔ اساتذۂ علم و فن کا گھروں میں جا کر تعلیم دینا ،جو کہ مروجہ ٹیوشن کی ایک شکل ہے ،یہ بھی اسی مادیت کی دین ہے۔ اس میں دیگر مفاسد اور خرابیوں کے علاوہ جو سب سے بڑی خرابی پائی جاتی ہے، وہ علم اور صاحب علم کی اہانت ہے۔ شاید ہی کسی صاحبِ علم اور صاحبِ فکر نے اس طریقِ تعلیم و تعلم کو سراہا ہو۔ یہ اہانت صرف دینی علم ہی کی نہیں ؛بلکہ دنیاوی علوم کی بھی ہے، گو کہ دینی علوم بہ طورِ خاص قرآن و حدیث کا معاملہ حرمت اور تقدس کے اعتبار سے بڑھا ہوا ہے؛ اس لیے اس کا معاملہ ذرا سنگین اور نازک ہے۔ اس سلسلے میں ماضی قریب کے ایک بزرگ حضرت قاری صدیق احمد صاحب باندویؒ کا واقعہ بہت ہی سبق آموز اور دل گداز ہے۔ حضرت قاری صاحب جب مدرسہ اسلامیہ فتح پور میں مدرس تھے، تو ایک مرتبہ مدرسے کے ذمہ دار مولانا عبد الوحید صاحب فتح پوری آپ کے پاس تشریف لائے اور آپ کی تنخواہ کی قلت اور تنگی کے پیشِ نظر یہ خیرخواہانہ مشورہ آپ کو دیا کہ چونکہ آپ کی تنخواہ کم ہے؛لہذا اگر آپ کچھ ٹیوشن پڑھا لیں تو بہتر ہوگا، اس طرح کچھ آمدنی کی شکل ہوجائے گی، پھر کچھ گھروں کے پتے بتلائے کہ فلاں فلاں گھر میں ٹیوشن مناسب رہے گا۔ حضرت نے فرمایا کہ میں ان کے اس کہنے کی وجہ سے سکتے میں آ گیا اور ان کو میں نے اوپر سے نیچے تک دیکھا اور عرض کیا کہ مولانا آپ کیا یہ سمجھتے ہیں کہ میں پیسہ کمانے اور تنخواہ کی وجہ سے یہاں آیا ہوں، اگر پیسہ کمانا ہی مقصود ہوتا ،تو میں یہاں نہ آتا، بہت سی جگہ جہاں یہاں سے زائد تنخواہ تھی ،وہاں مجھے بلایا جا رہا تھا (مثلاً مظاہر علوم، ندوۃ العلما بلکہ سعودیہ میں مدرسہ صولتیہ وغیرہ) لیکن میں نے اس وجہ سے قبول نہیں کیا کہ علاقے میں کام کی ضرورت ہے، مجھے پیسہ کمانا مقصود ہوتا ،تو ان جگہوں کی مدرسی قبول کر کے خوب پیسہ جمع کر لیتا۔ میں تو یہاں صرف اس وجہ سے پڑا ہوں کہ فتح پور وطن سے قریب ہے، والدہ صاحبہ کا حق بھی ادا ہوتا رہے گا، نیز علاقے کے بچوں کی تعلیم یہاں آسانی سے ہوتی رہے گی، ان وجوہات سے میں نے یہاں کا انتخاب کیا ہے۔ حضرت نے فرمایا گھر جا کر ٹیوشن پڑھانے میں اہلِ علم کی اہانت اور دین کی بڑی ناقدری ہوتی ہے، کسی کو پڑھنا ہو، تو یہاں آئے ،میں بغیر پیسے لیے پڑھا دوں گا؛ لیکن کسی کے گھر میں پڑھانے نہیں جا سکتا، نہ میں خود اسے پسند کرتا ہوں اور نہ دوسرے اہلِ علم کے لیے بہتر سمجھتا ہوں۔ (۵)
جنہوں نے حضرت قاری صاحب کے شب و روز کو دیکھا ہے یا جنہوں نے حضرت قاری صاحب کے حالات کو پڑھا ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ حضرت قاری صاحب دین اور دینی علم کی اشاعت اور تبلیغ کے لیے کس قدر بے چین اور فکر مند رہتے تھے، اس بارے میں معمولی سے معمولی بات یا واقعہ کو بھی نظر انداز نہیں کرتے تھے؛ بلکہ ہر وقت یہ فکر دامن گیر رہتی تھی کہ کسی نہ کسی عنوان یا موقع سے دین کی بات دین کے نا آشناؤں اور دین سے دور افراد تک پہنچا دی جائے۔ اس واقعے کو تفصیل سے ذکر کرنے کا مقصد یہ بھی تھا کہ اس فکر و کڑھن کی کچھ جھلک بھی سامنے آ جائے ،جو حضرت قاری صاحب کے دل میں موجزن تھی۔ اس تناظر میں ٹیوشن کے تعلق سے حضرت کا ارشاد نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے، غور کرنے والے غور کریں۔ ٹیوشن پڑھنے اور پڑھوانے والوں کے ساتھ ہمارے لیے بھی اس میں نصیحت، سبق اور لمحۂ فکریہ ہے کہ تعلیم و تعلم کے تعلق سے ہم اپنے رویے کا جائزہ لیں اور نظر ثانی کریں کہ یہ طریقِ تعلیم و تعلم وہ تو نہیں ہے ،جس سے علم اور اہلِ علم کی اہانت اور تنقیص لازم آتی ہے، اگر ہے تو اس طریق اور طرز کو چھوڑ کر وہ طریق اور طرز اپنائیں ، جس سے علم اور اہلِ علم کے تقدس اور حرمت پر حرف نہ آتا ہو۔
علماے سلف کے یہ واقعات محض لذت کام و دہن کے لیے نہیں ذکر کیے گئے؛ بلکہ اس لیے ذکر کیے گئے ہیں کہ علم کی جو لوان کے دلوں میں جل رہی تھی، ہمارے دلوں میں بھی جلے۔ علم، صاحبِ علم اور آلۂ علم کا ادب و احترام اور پاس و لحاظ جو انہیں حاصل تھا ،اس کا کچھ ذرہ ہم کم ہمتوں اور کوتاہ نصیبوں کو بھی حاصل ہو، عظمت و رفعت کی جن بلندیوں پر ہمارے اسلاف فائز تھے وہ مقامِ بلند ہمیں بھی عطا ہو اور یہ مقامِ بلند بغیر ان کی اتباعِ نقشِ کفِ پا کے مل نہیں سکتا۔
باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو!
پھر پسر قابل میراثِ پدر کیوں کر ہو
مراجع
(۱) صحابۂ کرام کی تابناک زندگیاں، ڈاکٹر عبدالرحمن رافت پاشا ؒ (مترجم،اقبال احمد قاسمی)،ص:۱۶۵
(۲) حیاتِ امام مالک،علامہ سید سلیمان ندوی ؒ ، ص:۶۵
(۳) ایضاً، ص: ۷۶
(۴) ایضاً،ص:۷۰
(۵) واقعاتِ صدیق، مولانا اقبال احمد قاسمی،صٖ:۶۰

You may also like

Leave a Comment