Home تجزیہ عام انتخابات :پرینکا گاندھی کس حد تک مؤثر ثابت ہوں گی؟

عام انتخابات :پرینکا گاندھی کس حد تک مؤثر ثابت ہوں گی؟

by قندیل

عبدالعزیز
گزشتہ روز (11فروری)لکھنؤ میں 22کیلو میٹر کے فاصلے تک پرینکا گاندھی نے روڈ شوکے دوران جس بڑے پیمانے پر سیاسی طاقت مظاہرہ کیا اورجس میں لاکھوں کی بھیڑ تھی، اس سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ اتر پردیش کی سیاست میں پرینکا گاندھی کی موجودگی سے بڑا فرق پڑے گا۔ کل کے روڈ شو میں اگر چہ راہل گاندھی اور جیوترا دِتیہ سندھیا دونوں تھے، مگر عوام و خواص پرینکا گاندھی کی ہی ایک جھلک دیکھنے کیلئے ٹوٹے پڑرہے تھے۔ ایک انگریزی روزنامہ کے نامہ نگار نے لکھا ہے کہ کہیں کہیں ہجوم میں شامل افراد کی تعداد دو لاکھ سے تجاوز کرجاتی تھی۔ کچھ لوگ جو پرینکا گاندھی کو اور ان کے انداز کو دیکھ رہے تھے، وہ کہہ رہے تھے کہ پرینکا گاندھی میں اندرا گاندھی کی جھلک اور شبیہ دکھائی دے رہی ہے، کچھ لوگ کہتے تھے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی اپنے سیاسی انداز سے اور بات چیت سے پرینکا گاندھی مات دے دیں گی۔
بلڈر اجیت کمار (60سال) نے کہاکہ پرینکا گاندھی اتر پردیش کی کانگریس میں جان ڈال دیں گی۔ ان میں اندرا گاندھی جیسی دلیری اور حوصلہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ راہل گاندھی نے کچھ ہی دن پہلے پرینکا گاندھی کو کانگریس کا جنرل سکریٹری بنایا اور اترپردیش کے مشرقی حصے کا انچارج مقرر کیا ۔ اس وقت سے لے کر قیاس آرائیاں ہورہی تھیں کہ پرینکا گاندھی کے عملی سیاست میں آنے سے کیا اتر پردیش یا ملک کے دوسرے حصے میں کوئی فرق پڑے گا؟ اتنی بات تو سب تسلیم کر رہے تھے کہ پرینکا گاندھی کی عملی سیاست سے کانگریس کے اندر اور ان کے کیڈرس میں بہت بڑا حوصلہ پیدا ہوجائے گا اور عورتیں بھی ان کی طرف متوجہ ہوجائیں گی ؛لیکن اس سے ووٹرس بھی متاثر ہوں گے یا نہیں یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔
مذکورہ تینوں بڑے لیڈر بس میں سوار تھے اور اتر پردیش کانگریس کے صدر راج ببر بھی ساتھ تھے اور کانگریس کے لوگوں کی پچاس گاڑیاں بھی روڈ شو میں شامل تھیں۔ پرینکا گاندھی اور راہل گاندھی ایئرپورٹ سے سیدھے کانگریس کے پارٹی آفس میں آئے، ہزاروں پوسٹرز، بینرز پر پرینکا گاندھی اور ان کی دادی اندرا گاندھی کی تصویریں چھپی ہوئی تھیں، ہنستے مسکراتے ہوئے ہجوم سے پرینکا گاندھی ہاتھ ہاتھ ہلا ہلاکر اپنی محبت کا اظہار کر رہی تھیں اور سلام پیش کر رہی تھیں،جبکہ ہجوم کی طرف سے نعرہ بلند ہورہا تھا کہ ’’بدلاؤ کی آندھی ہے، راہل وپرینکا گاندھی ہے‘‘۔
ہجوم میں شامل سنجے رائے نے ،جو راستے پر ایئر پورٹ سے ایک کیلو میٹر کی دوری پر دو گھنٹے تک راستے میں کھڑے ہوئے تھے، صرف پرینکا گاندھی کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے کہاکہ یہ عام رائے تھی کہ نریندر مودی کو آئندہ الیکشن میں کوئی چیلنج نہیں دے سکتا ؛لیکن پرینکا گاندھی کے ساتھ کانگریس کی دعوت پر جو لوگ آئے تھے، وہ ایک طرح سے مودی کو جواب دے رہے تھے ۔ لال باغ کے شکلا نے اخباری نامہ نگار کو بتایا کہ بھگوان رام نے، جو ایمانداری اور سچائی سکھائی ہے، اس کی بھائی بہن پیروی کریں گے اور مودی کو ہٹانے میں کامیاب ہوں گے، نریندر مودی نے نہ صرف عوام کو دھوکہ دیا ہے؛ بلکہ ہندوؤں کوبھی دھوکہ دیا ہے۔ شکلازور زور سے چیخ چیخ کر آواز لگا رہے تھے کہ مودی اور ان کی ٹیم یہ افواہ پھیلا رہی ہے کہ دونوں ہندو نہیں ہیں؛ لیکن میں ان لوگوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ یہ دونوں پنڈت جواہر لال نہرو کے پڑپوتے اور پوتی ہیں، ان کو پنڈت کے کیا معنی ہیں سمجھنا چاہئے۔
ریاست کے دورے سے پہلے ایک پیغام میں پرینکا گاندھی نے کہا تھا کہ ہم عوام کے ساتھ مل کر اتر پردیش کا مستقبل سنہرا بنائیں گے اور نئی سیاست کو فروغ دیں گے۔ بہت سے لوگوں کی یہ خواہش تھی کہ پرینکا گاندھی بھی اس روڈ شو کے موقع پر کچھ اظہار خیال کریں؛ لیکن انھوں نے نہ تو کوئی بیان دیا ، نہ ہی کوئی تقریر کی، جس سے کچھ لوگوں میں مایوسی پیدا ہوئی، وہ دراصل ان سے کچھ سننا بھی چاہتے تھے، کانگریسی لیڈروں کا کہنا یہ ہے کہ راہل گاندھی نے اظہار خیال کیا، اس کی وجہ یہ تھی کہ پرینکا کے آنے سے جو تنقید ہورہی تھی کہ پرینکا کمان سنبھالیں گی اور راہل گاندھی ناکام ہوگئے ہیں؛ اس لئے بھی راہل گاندھی کی موجودگی میں پرینکا کواظہار خیال کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔
رائٹر نے 45سالہ فضیل احمد خان کے حوالے سے لکھا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ اندرا گاندھی واپس آگئی ہیں، اتر پردیش کے کسان چاہتے ہیں کہ راہل گاندھی ملک کے وزیر اعظم ہوجائیں اور پرینکا گاندھی اتر پردیش کی وزیر اعلیٰ بن جائیں۔ ایک طرف ملک بھر میں پرینکا گاندھی کا چرچا ہے، اتر پردیش کے عوام اور خاص کر کانگریس کے حامیوں میں جوش و خروش ہے، تو دوسری طرف بی جے پی کے لیڈر پرینکا گاندھی کی تنقیص کر رہے ہیں ، اتر پردیش کے بستی ضلع کے بی جے پی ایم ہریش دیویدی نے اپنے ایک ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ ’’پرینکا گاندھی جب دہلی میں رہتی ہیں ،تو جینز اور ٹاپس پہنتی ہیں اور جب دیہاتوں میں آتی ہیں ،تو ساڑی پہنتی ہیں اور ماتھے پر تلک لگائے رہتی ہیں‘‘۔
انگریزی نیوز چینل ’انڈیا ٹوڈے‘ نے اپنے ایک سروے میں بتایا ہے کہ اتر پردیش میں 27% افراد یہ تسلیم کرتے ہیں کہ پرینکا گاندھی کے عملی سیاست میں آنے سے فرق پڑے گا ،جبکہ 57% افراد کا کہنا ہے کہ کوئی فرق نہیں پڑے گا اور 13% افراد نے کوئی رائے نہیں ظاہر کی، یہ پرینکا گاندھی کے لکھنؤ آنے سے پہلے کا سروے ہے۔
میرے خیال سے جیسے جیسے پرینکا گاندھی کی سرگرمیاں بڑھیں گی، لوگوں کی رایوں میں تبدیلی آتی جائے گی، بی جے پی کی تو ایک ہی رائے ہوگی کہ کوئی فرق نہیں پڑے گا ؛لیکن بی ایس پی اور ایس پی کے لیڈروں کی رائے کچھ دنوں کے بعد بدل جائے گی اور توقع یہ ہے کہ سیاسی اتحاد کو مضبوط بنانے کیلئے اور بی جے پی کو شکست دینے کیلئے عظیم اتحا دمیں کانگریس کو بھی شامل کرنے پر مجبور ہوں گے۔ معاملہ سب سے زیادہ مسلمانوں کا ہے ؛ کیونکہ کانگریس کو مسلمان ملک گیر سطح پر یہ سمجھتے ہیں کہ بی جے پی سے کم خراب ہے ؛اس لئے ملک میں اس کی حکومت ہونی چاہئے اور وہی ملک گیر پیمانے پر بی جے پی سے مقابلہ کرسکتی ہے۔ دوسری طرف اتحاد کانگریس کے مقابلے میں کافی مضبوط اور مستحکم ہے؛ اس لئے مسلمانوں کے سامنے یہ حقیقت بھی ہوگی کہ جہاں تک اتر پردیش کا معاملہ ہے ،بی جے پی کا مقابلہ بھرپور طریقے سے اتحاد ہی کرسکتا ہے، اگر مسلمانوں میں کنفیوژن رہا اور اتحاد میں کانگریس شامل نہ رہی، تو مسلمانوں کا ووٹ بٹ جانے کا امکان ہے، اس سے بی جے پی کو فائدہ پہنچے گا؛ اس لئے کانگریس کو اتحاد سے باہر رکھنا مایا وتی اور اکھلیش کیلئے عقلمندی نہیں ہوگی، ایسے لیڈران ،جو اپوزیشن کے اتحاد کیلئے کوشاں ہیں ،ان کو اتر پردیش کی سیاست کو ہر گز نظر انداز نہیں کرنا چاہئے، تینوں پارٹیوں کے اتحاد کیلئے غیر معمولی کوشش کرنی چاہئے ؛تاکہ اتر پردیش میں بی جے پی کو کم سے کم سیٹوں پر کامیابی حاصل ہو۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068

You may also like

Leave a Comment