تازہ ترین، سلسلہ 96
فضیل احمد ناصری
صحرا نہ رہے گا، یہ گلستاں نہ رہے گا
دنیا میں اگر صاحبِ ایماں نہ رہے گا
حالات کا طوفان رکا ہے، نہ رکے گا
مسلم ہی اگر حاملِ قراں نہ رہے گا
بیزارئ مذہب نے اگر ساتھ نہ چھوڑا
دنیا میں کہیں عیش کا ساماں نہ رہے گا
بن جائے طبیعت تری، یوسف کی طبیعت
تاریک ترے واسطے کنعاں نہ رہے گا
اٹھّے نہ اگر خوابِ گراں سے یہ مسلماں
اسلام کا پرچم بھی نمایاں نہ رہے گا
مسند بھی تمہاری ہے ہمارے ہی کرم سے
عالَم نہ رہے گا، جو مسلماں نہ رہے گا
اے دوستو! اس آتشِ نفرت کو بجھاؤ
ورنہ یہ محبت کا دبستاں نہ رہے گا
وابستۂ اســــــــلام جو ہو جائے زمانہ
عالم کا کوئی فرد پریشاں نہ رہے گا
کردار کشی یوں ہی ادیبوں کی اگر ہو
محفل میں سخن فہم و سخن داں نہ رہےگا
اس شمع کو یارو کبھی بجھنے نہیں دینا
دل ورنہ تمہارا بھی فروزاں نہ رہے گا
عالم کا کوئ فردپریشاں نہ رہے گا
previous post
1 comment
Bahut khoob