Home تجزیہ شانہ بہ شانہ تعلیم کا تصوراور مسلمان

شانہ بہ شانہ تعلیم کا تصوراور مسلمان

by قندیل

محمد امتیاز نورانی
چیئر مین کریبس گروپ آف ہاسپٹلس
صدیوں بعدآسمان کا جو زمین سے رابطہ ہوا اور نبی آخر الزماں صلعم پر جو پہلی وحی اتری اس میں سب سے پہلے پڑھنے کا حکم دیا گیا، جس کے فوراً بعد خالق کائنات کی تخلیقات میں سے انسان کی تخلیق پر غور کرنے کا حکم ہوا، پھر قلم کے ذریعہ انسانوں کو سکھانے اور انسانوں کو ان باتوں سے آگاہ کر نے کا ذکر ہے، جن سے انسان مطلقاً ناواقف تھا۔ان سب پر مستزاد امر یہ کہ قرآن کی تقریباً ایک تہائی آیات ہیں، جن کا تعلق احکام سے ہے، باقی تقریباً دو تہائی کا تعلق نظام کائنات، زمین وآسمان ،سورج،چاند،ستارے،سیارے، پہاڑ،ہوا، پانی،سمندر،خشکی، انسان کی پیدائش،رات،دن کے علاوہ اسرار کائنات اور تخلیقات کے رموز وغیرہ کے تذکرے سے ہے ۔قرآنی تعلیم کے مطابق عبادات کے ساتھ ساتھ تخلیق کائنات میں غور و خوض بھی عباد ت گذاروں اور نیک لوگوں کا شیوہ ہونا چاہیے؛ تاکہ خالق کائنات کی کاریگری کا کھلی آنکھوں مشاہدہ ہو سکے اور اس کی ذات پر یقین ایک مشاہداتی حقیقت بن جائے جیساکہ سورہ آل عمرا ن کی آیت نمبر 191کا مفہوم ہے۔
قرآنی موضوعات اور ان کے تعلیمی و تحقیقی رجحانات کی بے پناہ وسعتوں کا اندازہ مذکورہ بالا عبارت سے بخوبی ہو جاتا ہے۔اس تعلیم وتحقیق کے دور میں تحقیق اور ریسرچ کے جتنے بھی موضوعات ہیں قرآن تقریباً ڈیڑھ ہزار سال سے انہیں موضوع بحث بنائے ہوئے ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان علوم وفنون پر ابتدائی اور بنیادی کام مسلمانوں کے ہاتھوں انجام پایا اس دعوے کی دلیل کے طور پر ہر فن کے اولین مسلم ماہرین کا ذکرتفصیل سے کیاجاتا لیکن موضوع یہاں اس کی اجازت نہیں دیتا پھر بھی مختصراًمیں یہ عرض کرتا چلوں کہ اگر اس امرکاجائزہ لے لیا جائے کہ مختلف علوم وفنون میں جن بنیادی ماخذ اور اہم کتب کا ترجمہ عربی اور فارسی زبان سے یورپی اور انگریزی زبان میں کیا گیا ہے وہ کتنی ہیں اور کون کون سی ہیں اور کس زمانے میں کیا گیا ہے تو ساری حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی۔ساتھ ہی یہ بھی عرض کرتا چلوں مغرب جسے موجودہ زمانے میں علم و فن میں اپنی برتری پر ناز ہے اس پر یہ راہیں اسلام کی آمد کے بعد کھلی ہیں ورنہ اس سے پہلے اس کے یہاں عیسائیت،کلیسا کی پڑھنے لکھنے کی پابندیوں اور تاریک دور کی مصیبتوں کا سامنا تھا۔
اسلام میں تعلیم کا جو تصور ہے وہ علم نافع اور علم غیر نافع کا ہے۔ دینی اور غیر دینی علم کے تصور کی اسلام میں کوئی حقیقت نہیں علم کے تعلق سے اللہ کے رسول صلعم کی جو دعا ہے وہ یہ کہ اے اللہ میں بے فائدہ علم سے تیری پناہ چاہتا ہوں چنانچہ ہر وہ علم جو انسانوں کے لیے مفید ہو اور اس سے انسانیت کو ترقی نصیب ہو وہ اسلام میں مفید اور مطلوب علم ہے۔اب اگر کوئی شخص کسی خاص موضوع پر کوئی خاص ڈگری لیتا ہے اور اس کے ذریعہ پیسے کما کر اپنے والدین اور بیوی بچوں کی پرورش کرتا ہے اور زکوۃ وصدقات اور عطیات کے ذریعہ سے غریبوں کی پرورش کرتا ہے تو یقینی طور پر جس علم اور فن کے ذریعہ والدین کی دیکھ بھال،بچوں اور غریبوں کی پرورش ہو وہ علم دینی علم کیوں کر نہ ہو گا۔اگر ہماری نیت درست ہو اور زندگی گذارنے کا طریقہ حضور اکرم صلعم والا ہو تو دنیا کے ہر جائز کام کو کرنا اللہ کی بندگی اور اطاعت بن جائے گا۔
اسلام کے تعلیمی تصور کی یہ وہ روح ہے جس کو لے کرآج کے عالم اسلام کو میدان میں آنا چاہیے۔ 2011کے اسلامی ملکوں کی جائزہ رپورٹوں کے مطابق مسلمانوں کی تعلیمی صورتحال ان ملکوں میں بہتر ہے جہاں وہ معاشی طور پر بہتر ہیں۔ایک سروے رپورٹ کے مطابق عالم اسلام میں سب سے بہتر تعلیمی پوزیشن آذر بائیجان کی ہے جو پوری دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے اس کے بعد کویت قزاکستان،تاجکستان وغیرہ ہیں جہاں شرح خواندگی نوے فیصدکے آس پاس ہے جب کہ ترقی پذیر ممالک میں مسلمانوں کی صوتحال اوسط درجے یا اس سے بھی کم ہے اور تعلیمی لحاظ سے سب سے بری صورتحال مالی اور افغانستان جیسے ملکوں کی ہے افغانستان میں شرح خواندگی محض پچاس فیصد کے قریب ہے۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق مسلم دنیا کے ہر سو میں سے سینتیس افراد لکھنا پڑھنا نہیں جانتے۔ہم جس شرح خواندگی کی بات کرہے ہیں اس کے اعدادو شمار کا معیار فقط یہ ہوتا ہے کہ آدمی اپنا نام پتہ لکھ سکے یا زیادہ سے زیادہ پرائمری کی تعلیم حاصل کی ہو وہ اعدادو شمار میں پڑھا لکھا شمار ہوتا ہے۔میرے خیال میں موجودہ دور میں نام پتہ لکھنے کی اب ضرورت ہی ختم ہو چکی ہے بھلا اس معیار کا پڑھا لکھا شخص اپنا یا سماج کا کس کام ہے۔ ہم مسلمانوں کو یہ بات بہت بہتر طریقے سے سمجھ لینی چاہیے کہ ساری دنیا میں ہمارے لیے حالات بہت سنجیدہ ہو چکے ہیں اس وقت سارا عالم اسلام کرو یا مرو کی حالت میں ہے خصوصاً دنیا کے مختلف خطوں میں اقلیت میں رہ رہے مسلمانوں کے لیے مسائل پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتے چلے جارہے ہیں۔اب ان کے سامنے دو راستے ہیں ایک تو یہ کہ اپنے نکمے پن کے سلسلے کو جاری رکھیں اور مختلف غیر ضروری مسائل کو ضروری بنا کر اس پر خوب دھما چوکڑی کریں دوسری صورت یہ ہے کہ ہم ان قوموں کا بغور جائزہ لیں جو آج ترقی یافتہ ہیں۔ ان کے ترقیاتی سماجی ڈھانچے کا مطالعہ کریں اور یہ دیکھیں کہ انھوں نے خود کو کیسے گرے پڑے حالت سے ایک باعزت مقام تک پہنچایا ایسا اس لیے کہ اللہ کے رسول صلعم کا یہ حکم ہے حکمت یعنی کام کی باتیں جہاں کہیں ملے وہ ایمان والے کی گمشدہ پونجی ہے جہاں کہیں بھی وہ اسے ملے وہ اس کا سب سے زیادہ حقدار ہے۔یہود و نصاری آج کی مادی دنیا میں ترقی یافتہ قوم ہیں۔ عقیدے اور اخلاقی گراوٹ کو اگر ایک طرف رکھ کران کی سماجی تعمیر کی کوششوں اور ملکی و قومی ترقی کے تئیں ان کی سنجیدہ منصوبوں پر غو کریں تو از حد مفید عمل ہو گا۔اس سے ہمیں ٹارگٹ اور طریقہ کار دونوں کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا۔
عالم اسلام کی دینی و ملی خدمات میں ہمارا کردار ماضی قریب میں کلیدی رہا ہے۔مغرب کی فکری یلغار جس نے عربوں پر خاصا حدتک اپنا رنگ چڑھا لیا تھا اس کا مقابلہ کرنے اور اس کی چمک دمک کے پیچھے کی مکروہ حقیقت کا پر دہ چاک کرنے کا کام ہندوستان سے کیا گیا جس کے سرخیل سید ابو الاعلی مودودی ہیں ساتھ ہی عالم اسلام میں ایمان کی باد بہاری اور ایمانی اعمال کی آبیاری کا کام بھی اللہ نے ہندوستانیوں سے لیا اورآج مولانا محمد الیاس صاحب کی محنت دنیا کے ہر ملک،ہر صوبے ہر ضلعے اور خطے میں برگ و بار لا رہی ہے اور مسلمانوں کے ایمان و اخلاق میں اصلاح کا عمل جاری ہے۔آج حالات ہندوستانی مسلمانوں سے ایک بار پھر متقاضی ہیں کہ وہ مسلم امت میں تعلیمی اور سماجی ترقی کی ایک نئی روح پھونکیں۔ امت مسلمہ ہند کو بطور خاص تعلیم کابیڑہ اٹھانا ہو گا۔حکومتوں اور پارٹیوں کے منشور، کمیشن کے رپورٹوں میں الجھ کر رہ جانے کے بجائے وہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر فراہم تعلیمی اور سماجی ترقی کے امکانات کا جائزہ لے اور خود اپنا منشور بنائے۔ملک بھر میں ہر ضلع میں تعلیمی اورسماجی و معاشی ترقی کی فکر کرنے والوں کو منظم اور فعال بنائے اور انھیں ملک و بیرون ملک ترقی کے مواقع سے یومیہ بنیادوں پر آگاہ کرے،ہر ضلعی اکائی سے مسلم آبادی کے تفصیلی احوال بشمول تعلیمی اور سماجی ترقی سے متعلق ا مور کے طلب کرے پھر ان تقاضوں کے مداوے کے لیے ملکی سطح پر حکومتی اسکیموں اور منصوبوں اور عالمی سطح کے مواقع سے ان کو آگاہی فراہم کرے اور ہر ممکن مدد کر کے ان کے مسائل حل کرائے جائیں۔ یہ بات ہم کو یاد رکھنی چاہیے کہ ہمارا مقابلہ اصلا ًیہودیوں سے ہے۔پوری دنیا میں سماجی طور پرہمارے اصلی اور ازلی حریف یہودی ہی ہیں جس کا اشارہ قرآن کریم میں بھی موجود ہے خود ہمارے اس ملک میں ہندو مسلم منافرت کو توانائی اس وقت سے بطور خاص فراہم ہو تی رہی ہے جب سے اسرائیل سے ہمارے تعلقات کی بتدا ہوئی ہے اور اس کا سفارت خانہ ہمارے ملک میں قائم ہوا۔ ہندو مسلم منافرت تناور درخت بن کر ہمارے اور پورے ملک کے لیے سوہان روح بنا ہوا ہے۔دوسرے نمبر پر ہمارے سماجی حریف عیسائی اور دوسری قومیں ہیں۔ جن سے ہمارا مقابلہ ہے ان سب کی تعلیمی اور سماجی ترقی کی صورتحال ہم سے بدرجہا بہتر ہے۔ یہودیوں نے تعلیم پر اتنی محنت کی ہے کہ تلاش کرنے پر بھی کوئی جاہل یہودی نہیں ملے گا بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ بالعموم گریجویشن کی سطح سے اوپر ان کی تعلیم ہو تی ہے۔کچھ کم یہی صورتحال عیسائیوں کی ہے۔دنیا بھر میں ان کی مذہبی اکائیاں مذہب کے ساتھ ساتھ تعلیم اور صحت کا بھی مر کز ہوا کرتی ہیں۔عیسائی اس ملک میں اقل قلیل ہیں لیکن ان کا تعلیمی اور طبی منصوبوں کا بجٹ مسلمانوں کے کل تعلیمی بجٹ سے کہیں زیادہ ہے۔ ملک میں جین مذہب کی شرح خواندگی سب سے بہتر پچاسی فیصد کے آس پاس ہے۔ان تمام کے بعد آپ مسلمانوں کو دیکھ لیں،ہم ملک میں ہندؤں کے بعد دوسری بڑی اکثریت ہیں جبکہ دنیا میں عیسائیوں کے بعد دوسری بڑی اکثریت ہیں۔ درجنوں ہمارے ملک ہیں،گئی گذری حالت میں بھی بے شمار ہمارے پاس وسائل ہیں لیکن رونا رونے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی کام نہیں ہم میں نوحہ گروں کے الگ ٹولے ہیں جو الگ الگ راگ میں نوحہ کرتے ہیں۔ ہمارا مزاج اس قدر بگڑ گیا ہے کہ بھولے سے بھی ترقی کے کام اور تعلیم کو لوگوں میں فروغ دینے کا خیال ہمیں نہیں آتا اور جنھیں اللہ کی تو فیق سے آجاتا ہے وہ کچھ نہ کچھ کر گذرتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ترقیاتی اور تعلیمی امور کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیں ،کس نے ہمیں کیا کہہ دیا اور کس نے کیا کر دیا، اس کا ماتم ترک کر دیں یہ دیکھیں کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔ مجھے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ متعدد جذباتی امور پر لوگوں کو جوڑا جا تا ہے لیکن ترقیاتی اور تعلیمی امور کے فروغ پر نہیں جوڑا جا تا۔ ہماری مہم جوئی بس اتنی ہو تی ہے کہ ہمارے خلاف کوئی کچھ بولے گا تو ہم شور کریں گے ورنہ آرام کریں گے حالانکہ اگر ترقی کی ٹھان لیں تو ہمیں دوسروں کے شانہ بہ شانہ آنے میں محض پانچ سے دس سال لگیں گے اور یہی ہمارا ہدف اور منشور ہو نا ہونا چاہیے۔ اولاً ہم اپنے قرآن اور نبوی تعلیمات کو سینے سے لگائیں اور تعلیم و ترقی کی اپنی منزل کی جانب پروانہ وار نکل پڑیں خود بھی آگے بڑھیں اور دوسروں کی بھی رہنمائی کریں۔ اخیر میں میں ہندوستانی مسلمانوں کی قوت ارادی اور قوت عمل کی ایک مثال دیتا چلوں۔ ہو سکتا ہے کسی کو تبلیغی تحریک سے اتفاق نہ ہو لیکن ان کی زبر دست قوت ارادیت اور قوت عمل سے کون انکار کر سکتا ہے کہ بہت کم مدت میں اس تحریک نے پوری دنیا میں اپنا اثر و نفوذ پیدا کرلیا۔عالم اسلام کا ہر ملک ہرخطہ اور تقریباًہر گلی ہر محلہ میں ان کے افراد اورجڑے ہوئے لوگ موجود ہیں۔ کیا عرب اور کیا عجم ہر سو ایمانی جو ت جگانے کا سلسلہ جاری ہے۔بعینہ اگر مسلمان تعلیم و ترقی کیلئے اگر ایک بار اٹھ کھڑے ہوں تو پھر کسی کے لیے انھیں روک پانا سمندر پر باندھ باندھنے کے مترادف ہو گا۔

You may also like

Leave a Comment