Home نقدوتبصرہ ستربڑے لوگوں کاذکرِجمیل

ستربڑے لوگوں کاذکرِجمیل

by قندیل

مشاہیر اکابرومعاصرین
مجموعۂ مضامین:مولانامفتی ظفیرالدین مفتاحی
ترتیب:مولانا احمد سجاد قاسمی
تبصرہ :نایاب حسن قاسمی
ماضی قریب کے باتوفیق اہلِ قلم علمامیں مولانا مفتی ظفیرالدین مفتاحی (1926-2011)کانام اہمیت کا حامل ہے۔مفتی صاحب کی چھ دہائیوںکو محیط عملی زندگی میں کافی تنوع تھا،انھوں نے ابتدادرس وتدریس سے کی اور ایک طویل عرصے تک اس عمل سے وابستہ رہے،مگر اس کے ساتھ ہی انھوں نے دیگر اہم علمی مشاغل سے بھی اپنا مضبوط تعلق رکھا۔خاص طورپربرصغیر کی عظیم دانش گاہ دارالعلوم دیوبندمیں ان کی خدمات کے نقوش نہایت تابناک و تواناہیں،وہاں انھوں نے نہ صرف تدریسی خدمات انجام دیں؛بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دارالعلوم کے کتب خانے کی ترتیب وتہذیب،دارالعلوم کے اولین مفتی ،حضرت مفتی عزیز الرحمن عثمانی کے فتاوی کی تحقیق و تدوین اور ایک طویل عرصے تک تخصص فی الفقہ کے طلبہ کی تدریس اور فتاویٰ نویسی کے امور ان سے متعلق رہے،کم و بیش سترہ سال تک انھوں نے ماہنامہ دارالعلوم کی اداریہ نویسی کی خدمت بھی انجام دی۔اس طرح مفتی صاحب کی عملی زندگی نہایت مفید و بافیض رہی۔
ان کی ایک اور خصوصیت یہ تھی کہ وہ ایک محقق مصنف تھے اور زبردست قوتِ تحریر کے مالک تھے،اس راہ پر انھوں نے حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب،مفتی عتیق الرحمن عثمانی،پروفیسرمولانا سعید احمد اکبرآبادی،علامہ سید سلیمان ندوی،مولانا مناظر احسن گیلانی اور اپنے خاص استاذ ابوالمآثر مولانا حبیب الرحمن اعظمی کی رہنمائی میں چلنا شروع کیا تھا،سو ان کے قلم میں نہ صرف علم ریزی،نکتہ وری،جزرسی اور تحقیق و تدقیق کا وصف پایاجاتا تھا؛بلکہ اس کے ساتھ ساتھ فکر کا نور اور ذہن و دل کی پاکیزگی بھی ان کے ہم رکاب رہی،انھوں نے وقت کے سلگتے موضوعات پر سیکڑوں مقالات و مضامین لکھے،جو ہندوبیرونِ ہند کے رسائل و مجلات میں شائع ہوتے رہے،ان کے علاوہ مختلف اہم موضوعات پر انھوں نے مستقل کتابیں بھی لکھیں اورمولانا مناظر احسن گیلانی و علامہ سید سلیمان ندوی جیسے عباقرۂ وقت نے ان کی تحسین و تشجیع فرمائی۔ان کے ذوقِ تحقیق و تصنیف کو مہمیز کرنے میں ندوۃ المصنفین کے بانی مفتی عتیق الرحمن عثمانی جیسے مفکرِ وقت کا خاص دخل رہا،جنھوں نے اُس وقت مفتی صاحب کے مضامین ’’برہان‘‘جیسے معیاری رسالے میں شائع کیے،جب وہ تازہ تازہ میدانِ عمل میں وارد ہوئے تھے؛بلکہ ندوۃ المصنفین جیسے اس وقت کے مشہورطباعتی ادارے سے انھوں نے ہی ان کی پہلی باضابطہ تصنیف کی اشاعت کا نظم کیاتھا۔جو لوگ اعلیٰ ذہنی و علمی صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں اور علم و قلم کے میدان میں کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں،ان کے لیے ابتدائی مراحل میں ایسے بڑے لوگوں کی حوصلہ افزائی سنگ میل کاکام کرتی ہے ، پھر وہ ساری عمر پیچھے مڑکر نہیں دیکھتے،مفتی صاحب کے حق میں ندوۃ المصنفین مشعلِ راہ ثابت ہوا، وہیں سے ان کے حوصلوں کو قوتِ پرواز ملی اور بعد میں ان کے قلم سے پچاس سے زائد کتابیں اور سیکڑوں مقالات منظر عام پر آئے۔
فی الوقت میرے پیشِ نگاہ ستر شخصیات پرلکھے گئے ان کے مضامین کا مجموعہ ہے،جسے ان کے فرزند محترم مولانا احمد سجاد قاسمی نے مرتب کیاہے۔کتاب کانام’’مشاہیر اکابر و معاصرین‘‘ہے۔کتاب کے دوحصے ہیں ،پہلے حصے کاپہلا مضمون بانیانِ دارالعلوم کے مرشدحاجی امداداللہ مہاجرمکیؒکی زندگی اور خدمات کے مختلف گوشوں پرمشتمل ہے اور قدرے مبسوط ہے،تیس صفحات کے اس مضمون میں نہ صرف حاجی صاحب کی زندگی کے اہم نقوش کو اجاگر کیاگیا ہے؛بلکہ ان کی علمی و تصنیفی خدمات کابھی تعارف کروایاگیاہے ۔دوسرا مضمون حضرت شیخ الہندکی علمی زندگی کی تصویر کشی کرتا ہے،اس میں مفتی صاحب نے تحقیقی انداز میں شیخ الہند کی علمی قدرو قیمت کو اجاگر کیاہے۔تیسرے مضمون میں بانی امارت شرعیہ ابوالمحاسن مولانا محمد سجاد بہاریؒ کی مفکرانہ شان ،سیاسی بصیرت مندی اور ملی دردمندی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔چوتھامضمون دارالعلوم کے پہلے مفتی ،مفتی عزیز الرحمن عثمانی کے حالاتِ زندگی پر مشتمل ہے، کل35صفحات پر مشتمل ہے اوراس میں مفتی صاحب نے پیدایش سے لے کر وفات تک کے ان کے حالات کا احاطہ کیا ہے اور مفتی عزیز الرحمن عثمانی کی زندگی کاایک جامع مرقع پیش کردیا ہے۔ چھٹامضمون شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی کے کمالات کو بیان کرتا ہے،یہ مضمون اس اعتبار سے دلچسپ ہے کہ مفتی صاحب نے سنی سنائی باتوں کو دُہرانے کی بجاے اپنے مشاہدات و تجربات کی روشنی میں مولانا مدنی کے علمی و عملی کمالات کا تجزیہ وتذکرہ کیاہے۔مولانا مناظر احسن گیلانی مفتی صاحب کے خاص ممدوحین میں سے تھے؛چنانچہ ان کی حیات و خدمات پر مفتی صاحب کی ایک مستقل کتاب بھی ہے،اِس کتاب کاساتواں مضمون انہی پر ہے،عنوان ہے’’علامہ گیلانیؒ‘‘۔اس میںمفتی صاحب نے اجمالی طورپر مولانا کے علمی و فکری کمالات،اخلاقی امتیازات اور مختلف خوبیوں کا اپنے مشاہدات کی روشنی میں جائزہ لیاہے۔ان کے علاوہ مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی،حکیم الاسلام قاری محمد طیب،امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی،مولانا حبیب الرحمن اعظمی،مولانا علی میاں ندوی،مولانا عبداللطیف نعمانی،امیر شریعت مولانا عبدالرحمن،مفکر ملت مفتی عتیق الرحمن عثمانی،مولانا ازہر شاہ قیصر،مولانا منظور نعمانی،مولانا محمد عثمان(نواسہ شیخ الہند)اورمولانا ارشاد احمد پر مضامین شاملِ کتاب ہیں،ان تمام مضامین کی خوبی یہ ہے کہ انھیں مفتی صاحب نے متعلقہ شخصیات میںسے زیادہ ترسے اپنے تعلقات ،مطالعات ،مشاہدات اور افادہ و استفادہ کی روشنی میں لکھاہے۔انھیں ان میں سے بیشتر بڑے لوگوں کی صحبت میں رہنے ،انھیںقریب سے دیکھنے،برتنے اورسمجھنے کاموقع ملا،ان میں سے زیادہ تر مفتی صاحب کے بھی بڑے تھے،جبکہ چند معاصرین کی صف کے اہل علم تھے۔
کتاب کے دوسرے حصے کو’’نقوشِ کارواں‘‘کا عنوان دیاگیاہے اوراس حصے میںاکیاون شخصیات پر شامل مضامین پہلے کے بالمقابل مختصر ہیں،اس حصے میں زیر تذکرہ شخصیات میں علما، دانشوران،سیاسی لیڈران اور قومی و ملی قائدین سبھی شامل ہیں۔مثال کے طورپراگر ایک طرف مولانا بدرعالم میرٹھی،علامہ ابراہیم بلیاوی،مولانا حمیدالدین،مولانا محموداحمد نانوتوی،مولانا عبدالصمد رحمانی،مولانا عامر عثمانی،مولانا فخرالدین مرادآبادی،مفتی شفیع عثمانی،مولانا یوسف بنوری،مولانا عبدالماجد دریابادی،مولانا محمد ادریس کاندھلوی،مولانا محمد میاںدیوبندی،مولاناامتیاز علی عرشی رامپوری،مولانا مصطفی حسن علوی اور دیگر علماکا تذکرہ ہے،تو دوسری طرف صدرجمہوریہ ڈاکٹر ذاکر حسین،مصری حکمراں جمال عبدالناصر،قدآور سیاست داں ڈاکٹر سید محمود،سعودی سربراہِ مملکت شاہ فیصل،بشیراحمد ایڈووکیٹ اور بنگلہ دیش کے جنرل محمد ضیاء الحق جیسے سیاسی رہنماؤں پربھی شذرات لکھے گئے ہیں۔
مفتی صاحب کو جن لوگوں نے دیکھااورپڑھاہے،وہ جانتے ہوںگے کہ ان کے اسلوب میں ایک مخصوص قسم کی سادگی ہے،جو دراصل ان کی شخصیت کاپرتَوہے۔مفتی صاحب اپنی پرسنل زندگی میں بھی نہایت سادہ تھے،ان کا رہن سہن،روِش وپوشش اوراطوارواخلاق میں بے پناہ سادگی وبے تکلفی تھی۔وہ دیوبند میں اونچے درجے کے استاذاوربڑے مفتی تھے،مگر ان تک رسائی معمولی سے معمولی لوگوں کے لیے بھی بہت آسان تھی،ایک مخصوص نوع کی شان و شوکت اور ہماہمی جو عموماً بڑے لوگوں کا طرۂ امتیا زسمجھی جاتی ہے،اس سے وہ متوحش رہتے تھے،اسی کا عکس ان کی تحریروں پر بھی ہے،ان کی نگارشات میں بلا کی سادگی وبے ساختہ پن ہے،ایسالگتا ہے کہ وہ قلم برداشتہ لکھتے تھے اور لفظوں کی ترتیب،جملوں کی ترکیب میں انھیں کسی قسم کے تکلف وتامل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا،ایسا اس وجہ سے تھا کہ کم و بیش ساٹھ سال تک وہ مسلسل لکھتے رہے،تدریس اور دیگر مصروفیات کے باوجود ان کا قلمی سفرپوری آب و تاب کے ساتھ جاری رہا۔ سوانح نویسی میں تو ان کا قلم اور بھی رواں ہے،ان کے جملے چھوٹے چھوٹے اور عام فہم ہوتے ہیں،لفظوں کو موقع و محل کی رعایت سے برتنے میں انھیں حیرت ناک حد تک مہارت حاصل ہے۔وہ جملوں کی آرایش و زیبایش کی کوئی شعوری کوشش نہیں کرتے،جو خیال جس طرح ان کے ذہن میں آتاہے،اسی طرح اسے صفحۂ قرطاس پر اتاردیتے ہیں،مگر اس میں ایک خاص قسم کی شیرینی ہوتی ہے،ان کی تحریروں کی سادگی میں بوداپن نہیں ہے،انھیں پڑھتے ہوئے خشکی کا احساس نہیں ہوتا،طبیعت ملول نہیں ہوتی ،ذوق پربارنہیں محسوس ہوتا،ان کا قلم ایک موجِ خوش خرام کے مانند چلتا ہے اور قاری کواپنے ساتھ بہالے جاتا ہے۔پرتکلف طرزِ تحریر کے بالمقابل سادہ نگاری ایک مشکل کام ہے کہ اس میں ذراسی بے خیالی تحریرمیں ابتذال پیدا کردیتی اور وہ بہت جلد پامال ہوجاتی ہے۔مفتی صاحب کویہ کمال حاصل تھاکہ وہ سادہ ،مگر پرکشش لکھتے تھے۔میں نے ان کی خود نوشت ’’زندگی کا علمی سفر‘‘جو دوسوسے کچھ زیادہ صفحات پر مشتمل ہے،ایک نشست میں پڑھی ہے اور اس میں مفتی صاحب کے اسلوبِ تحریر کی اسی خوبی کا دخل تھا۔یہ کتاب ان کے اس اسلوب کی بھر پور نمایندگی کرتی ہے۔دوسری بڑی خوبی اس کی یہ ہے کہ اس میں مذکورشخصیات میں سے کئیوں پر بہت سے لوگوں نے لکھاہے،مگر مفتی صاحب نے اپنی دیدوشنید اور مشاہدات و تجربات کی روشنی میں ان شخصیات کی علمی و عملی زندگی کا جائزہ لیاہے،جس کی وجہ سے ان مضامین میں انفراد و امتیاز پیدا ہوگیا ہے اورمتعلقہ شخصیات پر بہت سی ایسی معلومات حاصل ہوتی ہیں،جو ان پر لکھی گئی دوسری تحریروں اور کتابوں میں نہیں ملتیں۔
دوسرے حصے کے تمام مضامین متعلقہ شخصیات کی وفات کے فوراً بعد ماہنامہ دارالعلوم میں شائع ہوئے تھے۔پہلے حصے کے مضامین ماہنامہ دارالعلوم کے علاوہ مختلف اوقات میں دیگر علمی و تحقیقی مجلات میں شائع ہوئے تھے،مولانا احمد سجاد نے ان مضامین کو جمع کرکے ایک بڑا کام کیاہے۔اس طرح نہ صرف مفتی صاحب کا یہ قیمتی تحریری سرمایہ محفوظ ہوگیاہے؛بلکہ مطالعہ و کتب بینی سے دلچسپی رکھنے والی نئی نسل کو ایک نعمتِ غیر مترقبہ مل گئی ہے۔کتاب اپنے مواد کے اعتبار سے جس قدر وقیع تھی،اس کی اشاعت بھی ویسی ہی عمل میں آئی ہے،ٹائٹل خوب صورت اور دیدہ زیب ہے اور عمدہ و معیاری کاغذپر طبع ہوئی ہے،کل صفحات 455ہیں ، قیمت 350روپے بالکل مناسب ہے۔مرکزی پبلی کیشنز دہلی نے اسے شائع کیاہے اورکتاب دہلی،ممبئی،لکھنؤاور دیوبند کے کتب خانوں سے بہ آسانی حاصل کی جاسکتی ہے، امیزون پر آن لائن بھی دستیاب ہے۔

You may also like

Leave a Comment