Home مباحثہ زہریلی صحافت سے ہوشیاررہیں!

زہریلی صحافت سے ہوشیاررہیں!

by قندیل

اسامہ طیب
صحافی کو کبھی بھی مرغ، ریچھ یا بندر لڑانے والا مداری نہیں ہونا چاہیے، جیسا کہ ممبئی اردو نیوز اور ملت ٹائمز کے چند مخصوص کالم نگار ہیں، بلکہ میں کہوں گا کہ یہ لوگ جلتی پر تیل چھڑکنے والے جملہ باز ہیں، میں اپنے ان الفاظ کے لئے قطعی معذرت خواہ نہیں ہوں۔
سلمان صاحب کے معاملہ میں ان خود ساختہ صحافیوں نے جس طرح رپورٹنگ کی اور کالم لکھے اس سے صاف طور پر یہ محسوس ہوا کہ یہ وہ مکھیاں ہیں،جو زخموں کی تلاش میں رہتی ہیں تاکہ انہیں چاٹ سکیں، سب جانتے ہیں کہ سلمان صاحب کے تین طلاق کے موقف کو ملت ٹائمز نے کس طرح سنسنی خیز بنا کر پیش کیا تھا! اسی طرح بابری مسجد کے موقف کے تعلق سے سلمان صاحب کو ننگ ملت اور ننگ دیں ثابت کرنے کی جی توڑ کوششیں ملت ٹائمز اور ممبئی اردو نیوز والوں نے کیں، لیکن کیا مجال کہ اسدالدین اویسی سے اس کی ہذیان گوئی پر ایک سوال بھی کیا ہو، میں نہ سلمان حسینی کا مخالف ہوں نہ اسدالدین اویسی کا، سلمان حسینی کے مزاج کی سیمابی اور اسدالدین اویسی کی ہذیان گوئی کو کبھی بھی دل نے قبول نہ کیا، لیکن کیا سلمان حسینی کے سوالات پر سنجیدگی سے ان خود ساختہ صحافیوں نے قلم اٹھایا؟ کیا اسدالدین اویسی کی ہرزہ سرائی پر ان کی مکمل خاموشی یکطرفہ اور بے ایمان صحافت کی غماز نہیں ہے؟۔ آپ خود اپنے علم و شعور کی میزان سے یہ فیصلہ کیجیے کہ "موہن ندوی اور سلمان بھاگوت” جیسے زہریلے اور نفرت آمیز عنوان کے ساتھ ممبئی اردو نیوز کا شائع کردہ ایک مضمون کسی حقیقت کو اجاگر کرنے کے لئے تھا یا اپنے اندر کی بدبودار نفرت کو باہر انڈیل کر باہر کے ماحول کو متعفن کرنے کی کوشش تھی؟ شاہ اردن سے ملاقات کی وجہ سے یہ ملت ٹائمز کا نوآموز صحافی محمود مدنی پر تو انگلیاں اٹھا سکتا ہے لیکن شامی مسلمانوں کے قاتل حسن روحانی سے ملاقات پر اسدالدین اویسی کی نکیل نہیں کس سکتا؟
ایسا لگتا ہے یہ صحافی نہیں ہیں بلکہ متعصب لوگوں کا کوئی سیاسی گروہ ہے، جس کا کام علما پر بےجا انگشت نمائی کرنا ہے، صحافت کے مقدس پلیٹ فارم سے بدگمانی کا فروغ اور ذاتی پرخاش نکالنا ہے، آخر ان میں اور ملک کی مین اسٹریم میڈیا میں کیا فرق رہ گیا؟ جس طرح ملکی میڈیا جذبۂ انتقام و تعصب سے لبریز ہوکر ہمیشہ یکطرفہ نظریات و خیالات اپنے ناظرین پر تھوپنے کی کوشش کرتا ہے ،کیا یہی کام "ملت ٹائمز” اور "ممبئی اردو نیوز” والوں نے نہیں کیا اور کررہے ہیں؟
میں آپ سب سے درخواست کروں گا کہ قلم کی حرمت پامال کرنے والے ان نو آموز صحافیوں کو ان کے حدود یاد دلائیں، اور ان کو متنبہ کریں کہ یکطرفہ اور جانبدارانہ صحافت کرکے اردو اور اردو صحافت کے لئے کلنک نہ بنیں، ورنہ عقلی طور پر نابالغ یہ صحافی امت کے سارے علماکی دستار نوچ ڈالیں گے اور اسے بھی آزادئی اظہارِ رائے کا نام دے دیں گے۔

You may also like

Leave a Comment