Home تجزیہ ذرا خود سے پوچھیے!

ذرا خود سے پوچھیے!

by قندیل

از: مولانامحمد برہان الدین قاسمی
ترجمہ:حفظ الرحمن قاسمی
ہم جنس پرستی کی حمایت میں عدالت عظمی کے فیصلے پر گذشتہ چند دنوں سے ہم مختلف زاویوں سے سوشل میڈیا پرتبادلہ خیال کر رہے ہیں۔ میرے خیال سے پروفیسر فیضان مصطفی ہندوستانی مسلمانوں کے واحدماہر قانون ہیں جو بطور مسلم دانشور ملک کے لئے اپنی بساط کے مطابق سنجیدہ مباحثوں میں حصہ لیتے رہےہیں۔ ہم ان کی قابلیت کی قدر کرتے ہیں اور دعاگوہیں کہ ان جیسے مزید ماہرین پیدا ہوں۔ گذشتہ برسوں میں این ڈی ٹی وی پررویش کمار کے ساتھ ان کے کچھ مباحث انتہائی موثر اور اطمینان بخش رہے ہیں۔ تاہم یہ بات بھی ظاہر ہے کہ ہرمعاملے میں کسی فرد سے کلی طور پرمتفق یا غیر متفق ہونا ضروری نہیں ہے ۔
ہم جنس پرستی ہندوستان میں نہ صرف یہ کہ ایک بڑا سماجی مسئلہ ہےبلکہ دنیا کے تمام بڑے مذاہب کے نزدیک یہ ایک مذہبی مسئلہ بھی ہے۔ حالیہ دنوں میں بھارت کی عدالت عظمی اور 2009میں دہلی ہائی کورٹ نے ہم جنس پرستی کی حمایت میں فرد اورضمیرکی آزادی کو بنیاد بنا کر فیصلہ صادرکیا،کیونکہ یہ بنیادی حقوق کا حصہ ہے جو نہ صرف یہ کہ آئین ہند میں موجود ہے بلکہ عالمی پیمانے پر بھی قابل قبول ہے، چنانچہ دستور ہند کی فوجداری دفعہ 377 کی بے معنی ہو جاتے ہے۔ میں نےاپنے 2009 کےاپنے ایک مضمون بعنوان “Rational Approach Towards Same-Sex Union” میں اس مسئلے پر تفصیلی گفتگو کی ہے جو ایسٹرن کریسینٹ میگزین میں کور اسٹوری کے طورپراوردیگربہت سی جگہوں پر شائع ہوا ہے۔
مجھے ذاتی طور پر اس وقت عدالت عظمی کے اس فیصلے کو ایک خالص مسلم تنظیم کی جانب سےچیلنج کرنے یانہ کرنے کے معاملے پر بحث کرنے میں زیادہ فائدہ نظر نہیں آتا۔بلکہ ہمارے اپنے گھر کےحالات کو درست کرنےکے لئے ہمیں اپنے بچوں کی بہترین مذہبی اور تہذیبی تربیت کی ضرورت ہے ،اس پر توجہ مرکوز ہو تو بہتر ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کو فی الحال جس مسئلہ پرسنجیدگی سے غور کرنےکی ضرورت ہے وہ تعدد ازدواج کے تعلق سے عدالت عظمی میں جاری مقدمہ ہے۔ تاہم میں قارئین کی توجہ مستقبل کے کچھ نکات کی طرف مبذول کرانا چاہوں گا۔
بھارت کی حالیہ صورتحال سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آر ایس ایس 1925 میں اپنے قیام سے لے کر آج تک ان 93 برسوں میں کس طرح کام کرتی آرہی ہے اور بھارت کے حوالے سے اس کے عزائم کیا ہیں۔قطع نظراس سے کہ بی جے پی 2019 میں واپس حکومت میں آتی ہے یانہیں سیکولر اقدار کے حامل ایک جمہوری ملک کے طور پر ہندوستان کے لئے اور بحیثیت ہندوستانی شہری تمام اقلیتوں کے لئے آئندہ 15-20 سال بہت ہی نازک ہونے والے ہیں۔ صرف سیاست داں ہی نہیں بلکہ اکثریتی فرقے کے بیشتر افراد کے ذہن میں فرقہ واریت کا زہر گھول دیا گیا ہے۔
کیا اس وقت ہم اپنے اکابرین کے ذریعے قائم کردہ علی گڑھ،جامعہ ملیہ اسلامیہ،اور جامعہ ہمدرد وغیرہ جیسے مسلم دانشگاہوں سے فیض یافتہ مسلم دانشوروں سے کچھ سوالات کر سکتے ہیں؟
1۔ سر سید احمد نے اپنے جس تعلیمی مشن کا خواب سجایا تھا اس کامرکزی نقطہ”ایک ہاتھ میں سائنس اور دوسرے ہاتھ میں قرآن” تھا۔ تو علی گڑھ کے فضلاء کے لئےاب قرآن کہاں ہے ؟
2۔ جب مسلم پرسنل لاء کے متعلق مسائل کی بات آتی ہے تومدارس کے فارغ علماء ہی مباحثے میں کیوں جائیں؟
3۔ جن کے دونوں ہاتھوں میں قرآن اور سائنس کاہتھیار ہے وہ کیوں نہ آگے بڑھ کر قرآن اور سائنس کی مدد سے قوم و ملک کی رہنمائی کریں؟ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بانیین کے مقاصد کوبھی ذہن میں رکھنا چاہیے۔
4۔ مسلم دانشوروں نے مسلمانوں کے عائلی مسائل کو کوڈیفائی کرنے کے لئے اب تک کیاکیا ہے اور شریعت اپلیکیشن ایکٹ 1937 کے حوالے سے ان کے نزدیک مستقبل کامنصوبہ کیا ہے؟
5۔ یہ حقیقت واضح ہے کہ تعلیم مسلمانوں کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ شمالی ہندمیں مسلمانوں کی ترقی اور قوم کی فلاح کے لئے تعلیمی میدان میں ان دانشگاہوں کے فارغین کےکیا اور کتنی خدمات ہیں ؟
6۔ اگر مدارس کومین اسٹریم میں لانے کی ضرورت ہے، جوکچھ مخصوص حالات میں درست بھی ہے، لیکن اپنی آئندہ نسل کو کالج اور یونیورسٹیوں کے ماحول میں ایک با عمل مسلمان بنانے اور اپنے مذہب کادفاع کرنے کا اہل بنانے کے لئے ہم نے کیاکیا ہے؟
7۔ جب دہشت گردی کے غلط الزام میں تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کوقید کیا جاتا ہے تو جمعیۃ علما ء جو کہ ایک خالص مذہبی تنظیم ہے، ہی کیوں سامنے آکر ان کا دفاع کرے؟ ان معروف مسلم دانشگاہوں کے فضلاء کی ملکی پیمانے پر ایک قانونی تنظیم کیوں نہیں ہے جو قانونی امداد فراہم کر کے اپنی قوم کے بے گناہ افراد کی مدد کر سکے؟
8۔ میری معلومات کے مطابق جنوبی ہند کی کئی مسلم تنظیمیں ایسی ہیں جو یوپی، بہار اور بھارت کے شمالی حصوںمیں اسکول کی تعلیم کے فروغ کے لئے کام کر ہی ہیں۔ ایسا کیوں؟ شمالی ہند کے مسلم دانشور کہاں ہیں؟
9۔ بھارت کے مسلمانوں کو سیاست، انتظامیہ، عدلیہ،پولس اور مسلح افواج، میڈیا، تجارت اورکھیل میں مناسب نمائندگی کی ضرورت ہے۔ کیا مستقبل میں ایک باعمل مسلمان کی حیثیت سے بھارت میں عزت کے ساتھ زندگی گذارنے کے لئے ان تمام چیزوں کے حوالے سے ہمارے دانشوروں کے پاس کوئی لائحہ عمل ہے؟ اب تک ہمارے عصری تعلیم یافتہ حضرات کی جانب سے کوئی میڈیا ہاوس اور کثیرملکی کارپوریٹ ہاوس کیوں قائم نہیں کیا گیا؟
10۔ مذہب اور علم کے درمیان پیدا شدہ خلاء کومعقول اندازمیں پر کرنے کے لئے کیا ہمارے دانشور جماعت کی جانب سے اب تک کوئی ماڈل پیش کیا گیا ہے؟اگر نہیں، توکیوں؟ پھر ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں سائنس ہونے کا کیامطلب ہے؟ اگر ہاں،توکہاں؟
ان سوالات پرغور کرتے وقت فی الحال علماء،مدارس اور اماموں کو دور رکھا جائے،کیوں کہ ہم بیشتر اوقات ان مسائل کے حل کے لئے ان ہی کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔ آئیے کچھ دیر کے لئے ہم مدارس کی نمائندگی کرنے والے 4فیصد لوگوں کو دور رکھیں اور بقیہ 96 فیصد لوگوں کے بارے میں بات کریں۔ آئیے کچھ دیر کے لئےسکے کے دوسرے رخ کے بارے میں بھی بات کریں۔ ہم علماء،مدارس اور مساجد قوم کی کچھ خدمت انجام دے رہے ہیں یانہیں اس پر پھرکبھی بات کرلیں گے۔ یہ سوالات صرف معقول احتساب کے لئے اٹھائے گئے ہیں۔ آئیے ہم خود سے سوال کریں اور اپنے لئے ان کا جواب تلاش کریں۔
مضمونگار مولانا محمد برہان الدین قاسمی مرکزالمعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر، ممبئی کے ڈائریکٹر اور ایسٹرن کریسنٹ انگریزی میگزین کے ایڈیٹر ہیں

You may also like

Leave a Comment