Home تجزیہ جھارکھنڈ گٹھ بندھن ۔ ایک ماڈل

جھارکھنڈ گٹھ بندھن ۔ ایک ماڈل

by قندیل


مسعود جاوید
بعض پولیٹیکل سائنس کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی ملک میں ایک تندرست جمہوری نظام کے لئے مضبوط اپوزیشن ضروری ہے۔ہمارے روز مرہ کے مشاہدے بھی اس نظریے کودرست ثابت کرتے ہیں، مضبوط اپوزیشن کی غیر موجودگی مقتدرہ پارٹی اور حکومت کو آمریت dictatorshipاور مطلق العنانیت کی طرف لے جاتی ہے ؛اس لئے کہ جمہوری نظام میں کیفیت qualityنہیں کمیت quantityکی بنیاد پر حکومت بنتی ہے اور ان کی آرا کو مد نظر رکھتے ہوئے قانون بنتے ہیں اور حکومت کی پالیسیاں طے کی جاتی ہیں،تاہم اپوزیشن کا کردار چیک اور کنٹرول کرنے کا ہوتا ہے، مگر یہاں بھی اگر مضبوط اپوزیشن نہ ہو، تو ووٹنگ میں اکثریت پر فیصلہ ہوجاتاہے اور اپوزیشن کی آواز دب جاتی ہے۔
ہندوستان میں امریکہ کی دو پارٹی نظامِ انتخاب اور ڈائریکٹ صدارتی نظامِ حکومت کے برعکس متعدد پارٹی نظامِ انتخاب ہے ؛اس لئے متعدد چھوٹی بڑی پارٹیاں انتخاب لڑتی ہیں اور ایسے میں نتیجہ اگر کسی ایک پارٹی کو بہت زیادہ اکثریت absolute majorityحاصل ہوتی ہے، تو اپوزیشن ظاہر ہے کمزور ہوتی ہے،اسی کمزوری کے ازالہ اور طاقتور اپوزیشن بننے کے لیے نظریاتی طور ہم خیال جماعتیں آپس میں سیٹ شیئرنگ کی بنیاد پر گٹھ بندھن، آپسی اتحاد یا الائنس کرتی ہیں۔
پچھلے انتخابات میں ایک پارٹی کو واضح اکثریت ملی اور اپوزیشن کی کسی پارٹی کو اتنی سیٹیں بھی نہ ملیں کہ پارلیمنٹ میں مرکزی اپوزیشن پارٹی کا مقام حاصل کر سکے۔ 2019 میں مضبوط اپوزیشن نہیں؛ بلکہ پائدار حکومت بنانے کے لیے ہم خیال پارٹیوں کا گٹھ بندھن لازمی ہے،یہ دور الائنس کا ہے؛ اس لئے کہ یہ دور مقامی پارٹیوں کا ہے،ان مقامی پارٹیوں نے اپنی اپنی ریاستوں میں زمینی کام کرکے اپنا وجود منوایا ہے، دوسری بات یہ ہے کہ ریاستی پارٹیوں کی ذات برادری، اعلیٰ ادنیٰ طبقات اور اکثریت و اقلیت کے موضوع پر اپنی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں ،جو الیکشن میں باقی دیگر تمام مسائل پر حاوی ہوتی ہیں؛ اس لئے مقامی پارٹیوں کو نظر انداز کرکے حکومت کی تشکیل دینے یا مضبوط اپوزیشن بننے کے لئے مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں کی جا سکتی،پچھلے کئی انتخابات میں کانگریس نے اپنی تاریخ اور ماضی کی کارکردگی اور اکثریتی حکومت کے زعم میں مقامی پارٹیوں کو قابل اعتنا نہیں سمجھا ،تو دوسری جانب بعض اپوزیشن پارٹیاں 1992 کے بعد سے جانکنی کے عالم والی کانگریس پارٹی کو اہمیت دینے کو تیار نہیں تھیں،بہار میں گٹھ بندھن کے لئے گفت وشنید میں لالو پرساد یادو نے صرف چار سیٹ آفر کیا، جو حقیقتِ حال کچھ بھی رہی ہو، کانگریس کے لیے اہانت آمیز پیشکش تھی۔
در اصل مقامی پارٹیوں کو یہ خدشہ لاحق رہتا ہے کہ کہیں بڑی مچھلی چھوٹی مچھلیوں کو نگل نہ لے اور یہ خدشہ کوئی موہوم نہیں ہے،29228 پارٹیوں کے گٹھ بندھن والی بی جے پی نے مہاراشٹر ،خاص طور پر ممبئی اور اس کے متصل علاقوں میں سب سے زیادہ متحرک اور خاص طبقوں میں مقبولِ عام پارٹی شیو سینا اور ایم این ایس کو تقریباً صفر کردیا،اتر پردیش میں شاید یہی خدشہ اکھلیش یادو میں لچک کے باوجود مایاوتی کو کانگریس سے اتحاد کرنے پر راضی ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے؛اسی لئے مایاوتی کا یہ عذر کہ’’ کانگریس والوں میں غرور ،اکڑ اور اہنکار کی وجہ سے اس پارٹی سے اتحاد کے حق میں نہیں ہوں‘‘ بہت معقول نظر نہیں آتا، خاص طور پر جب ہم اس غرورکا اس گیسٹ ہاؤس حادثہ سے موازنہ کرتے ہیں، جس میں مایاوتی کی جان پر حملہ اور نہایت ہی گھناؤنا سلوک کیا گیا تھا اور دسیوں سال تک اس شب خوں کا تذکرہ سنتے ہی مایاوتی کا چہرہ سرخ اور ملائم سنگھ کے خلاف شدید نفرت ٹپکتی تھی؛ اس لئے میرے خیال میں ذاتی نفرت یا کانگریس کے رویہ میں غرور سے کہیں زیادہ غالباً انہیں یہ خوف ستا رہا ہے کہ اتر پردیش میں کانگریس کے مضبوط ہونے سے کہیں بی ایس پی کا اقلیت خاص طور پر دلت ووٹ بی ایس پی اور کانگریس میں بٹ نہ جائے اور پرندے کانشی رام کے لگائے ہوئے درخت جو اب کافی مضبوط اور بڑا ہو چکا ہے، اس سے اڑ کر دوسری پارٹیوں ،خاص طور پر کانگریس کے درخت پر نہ چلے جائیں، جو با اثر بی ایس پی سے پہلے ان پرندوں کا جانا پہچانا آشیانہ ہوا کرتا تھا۔
کچھ ایسے ہی خدشات دہلی میں کانگریس اور عام آدمی پارٹی کے اتحاد میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔بہار میں شاید یہ رکاوٹ نہ بنے؛لیکن 14 سیٹوں والی ریاست جھارکھنڈ، جس کی ایک تہائی آبادی قبائلی ہے، سے جمہوری نظام سے محبت کرنے والوں کے لئے ایک امید افزا خبر ہے کہ کانگریس اور تین مقامی پارٹیوں کا اتحاد ہوا ہے، جس میں بڑی اور مقامی پارٹیوں کی اپنی اپنی مرکزی اور ریاستی حیثیت تسلیم کرتے ہوئے ایک ایسے فارمولہ پر اتفاق ہوا ہے، جس سے باہمی توانائی برقرار رہے گی،فارمولہ یہ ہے کہ لوک سبھا کی 14؍ سیٹوں میں سے 7 ؍سیٹ کانگریس، 4؍ سیٹ جھارکھنڈ مکتی مورچہ، 2 ؍سیٹ جھارکھنڈ وکاس مورچہ اور 1؍ ایک سیٹ پر راشٹریہ جنتا دل الیکشن لڑے گی ،جبکہ اسمبلی انتخابات ،جو کہ 2019 ء میں ہونے والے ہیں، میں مذکورہ بالا ریاستی جماعتوں کا شیئر زیادہ رہے گا اور کانگریس کا ان کی بہ نسبت کم،اس فارمولہ سے اس کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ راہل گاندھی کا سیاسی شعور پہلے کی بہ نسبت اب بہت پختہ ہو گیا ہے اور دوسری بات یہ بھی کہ شاید ان کے ارد گرد اولڈ گارڈس اور منافقین ٹولے کے افراد کم ہیں،گٹھ بندھن کا یہ فارمولہ زیادہ پائدار ثابت ہو سکتا ہے ؛ اس لئے کہ مرکز اور ملکی مسائل سے زیادہ تر تعلق بڑی پارٹیوں کو ہی ہوتا ہے ،جبکہ ریاستی پارٹیاں بنیادی طور پر مقامی مسائل، مقامی قیادت اختیارات اور مقامی اقتدار پر مرتکز ہوتی ہیں۔اس گٹھ بندھن سے یہ امید کی جاتی ہے کہ 2004ء کی تاریخ دہرائی جائے گی، جب گٹھ بندھن کو 13 ؍اور بی جے پی کو محض ایک سیٹ پر کامیابی حاصل ہوئی تھی۔

You may also like

Leave a Comment