Home افسانہ صدیقی(افسانہ)

صدیقی(افسانہ)

by قندیل

عبدالمنان صمدی،علی گڑھ

تین مرتبہ بیل (Bell)اور دو مرتبہ دروازے پر دستک دینے پر بھی جب اندر سے کوئی جواب نہیں آیا، تو زویا نے دروازے کو ہلکا سا پش(push)کیا ،جس کی وجہ سے دروازہ کھل گیا۔وہ لاکڈ(Locked) نہیں تھا بس ایسے ہی بھڑاہوا تھا، کمرے میں قدم رکھنے سے قبل زویا نے اندر جھانکنا بہتر سمجھا؛تاکہ اندر کا جائزہ لے سکے، جب اس نے اندر جھانکا ،تو اسے دور کرسی پر بیٹھا ایک شخص نظر آیا ،جو اپنی ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر اور کھڑکی کی طرف رخ کیے ہوئے کسی اور دنیا میں گم تھا، زویا ہمت کرکے کمرے میں داخل ہوئی، اس کو امید تھی کہ اس کے قدموں کی آہٹ سے وہ شخص ،جو کھڑکی کی طرف رخ کئے ہوئے بیٹھا ہے ، اس کی طرف ضرور متوجہ ہوگا،زویا قدم آگے بڑھاتے ہوئے کمرے کا جائزہ لینے لگی، کمرہ کیا تھا، ایک کتب خانہ تھا، چاروں طرف کتابوں سے بھری الماریاں اور سامنے کی دیوار پر گھڑی کے ٹھیک نیچے شیشے کے فریم میں شیخ سعدی کا مشہور نعتیہ مصرع معلق تھا:
’’آنچہ خوباں ہمہ دارند، تو تنہا داری‘‘
اور کچھ رسائل و اخبارات بے ترتیب میز پررکھے ہوئے تھے۔
وہ کمرے کا جائزہ لیتے ہوئے اس شخص کے بالکل قریب آکر کھڑی ہوگئی۔
السلامُ علیکم!۔۔۔ السلام علیکم!۔۔۔سر السلام علیکم!۔
زویا نے دروازے پر دستک کی طرح تین مرتبہ پاس جا کر سلام کیا؛ لیکن جناب کے کان پر جوں تک نہ رینگی،جب اس نے دیکھا کہ جناب اس کی آواز سے ہی نہیں؛ بلکہ دنیا سے بھی بے خبر ہیں اور ایک بت کی مانند بیٹھے ہوئے ہیں، تو اس نے ایک قدم آگے بڑھ کر اس شخص کوجھنجھوڑا، نجابت صاحب کو زویا کی یہ حرکت بڑی ناگوار گزری ؛لیکن انہوں نے اس سے کچھ نہ کہا اور اپنے غصے پر قابو کرتے ہوئے بلند آواز میں کہا۔
’’Who are you?‘‘
نجابت صاحب نے غصے پر بھلے ہی قابو پالیا ہو؛ لیکن آواز میں سختی اور لہجے میں تلخی اب تک باقی تھی ،جس کی وجہ سے زویا کا گھبرانا لازمی تھا، اس نے گھبراتے ہوئے کہا۔
’’آئی ایم زویا‘‘( I am Zoya)
نجابت صاحب کی ایک عجیب سے عادت تھی کہ جب وہ غصے میں ہوتے ،تو انگریزی زبان کا استعمال کرنے لگتے ،ایک بار کسی دوست نے اس بارے میں پوچھا ،تو جناب نے بڑا دلچسپ جواب دیا، کہنے لگے: ’’دراصل غصے میں اردو زبان کا تلفظ بگڑجاتا ہے؛اس لیے ایسا کرتا ہوں‘‘۔
زویا نے ہمت کرکے کہا کہ: ’’میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر ہوں‘‘۔
’’کس زبان میں ریسرچ کر رہی ہو؟‘‘
ان کے لہجے میں سختی اور تلخی اب تک برقرار تھی۔
’’فارسی‘‘
’’موضوع؟‘‘
’’خیام کی حیات و خدمات‘‘۔
’’یہاں کیسے آنا ہوا؟‘‘۔
’’میں نے یونیورسٹی میں آپ کے بارے میں بہت سنا اور پڑھا ہے، آپ کی شخصیت نے مجھے بہت متاثر کیا ہے، آپ نے جو مقالہ مولانا روم کی مثنوی پر تحریر کیا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے‘‘۔
’’علی گڑھ سے تہران یہ بتانے اور میرے قصیدے پڑھنے آئی ہو؟‘‘
نہیں!
’’پھر علی گڑھ سے تہران کیسے آنا ہوا؟اپنا پورا نام بتائیں‘‘۔
’’میرا نام زویا صدیقی ہے‘‘۔
نجابت صاحب نے مسکراتے ہوئے مزاحیہ انداز میں زویا کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’صدیقی وہ بھی تہران میں‘‘؟
جی!
’’صدیقی صاحبہ!لگتا ہے کہ معجزات کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے‘‘۔
شاید!
جھجکتے ہوئے زویا نے جواب دیا۔
’’تہران آنے کی وجہ؟کوئی سمینار ہے کیا؟‘‘
’’نہیں!میری خالہ رہتی ہیں یہاں‘‘۔
’’کہاں، تہران میں؟‘‘
’’نہیں، اصفہان میں‘‘۔
’’اچھا!پھر تہران کیسے آنا ہوا؟‘‘
’’آپ سے ملاقات کرنے کے لیے‘‘۔
’’کوئی اور وجہ نہیں یہاں آنے کی؟‘‘
نہیں!
’’واقعی مجھ سے ملنے آئی ہو؟‘‘
جی!
’’کیا چاہتی ہو مجھ سے؟‘‘
اتنی گفتگو کرنے کے بعد نجابت صاحب کے لہجے میں نرمی آگئی۔
’’میں آپ سے محبت کرتی ہوں‘‘
زویا نے بے خوف اپنے جذبات کا اظہار کردیا۔
’’محبت؟‘‘
زویا کی بات سن کر نجابت صاحب نے ایک زوردار قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔
’’لگتا ہے تہران کی آب و ہوا آپ کو راس نہیں آرہی ہے، میرا مشورہ ہے کہ آپ ہندوستان لوٹ جائیں‘‘۔
’’سر میں واقعی آپ سے محبت کرتی ہوں‘‘۔
یہ کہتے ہوئے زویا نے ایک فائل نجابت صاحب کے سامنے میز پر رکھ دی،اس میں ان کی وہ تخلیقات موجود تھیں، جو ہندوستان اور بیرونی ممالک کے رسائل اور اخبارات میں شائع ہوئی تھیں اور کچھ جوانی کی تصاویر بھی تھیں ،جو نجابت صاحب کی تخلیق کے ساتھ چھاپی گئی تھیں ،نجابت صاحب نے جب فائل دیکھی ، تو ان کی تمام یادیں تازہ ہوگئیں، زویا نے پل بھر کے لیے نجابت صاحب کی ساری زندگی کا نقشہ اور اثاثہ ان کی میز پر رکھ دیا، وہ کچھ دیر کے لیے ماضی میں لوٹ گئے۔
کمرے میں یکایک سناٹا چھا گیا ،چاروں طرف سکوت کی صدائیں گونجنے لگیں،زویا بھی ہاتھ باندھے خاموش کھڑی رہی۔
’’یادِ ماضی عذاب ہے یارب‘‘
نجابت صاحب نے فائل بند کرتے ہوئے اختر انصاری کا یہ مصرع پڑھااور زویا کی طرف دیکھ کر مسکرائے۔
اور اس کو بیٹھنے کے لیے کہا۔
اس کی فائل نے نجابت صاحب کے زخم تازہ کردیے؛ لیکن اسے دیکھ کر انہیں خوشی ضرور ہوئی، کسی نے ٹھیک کہا ہے کہ’’ماضی کیسا بھی رہا ہو، کریدنے پر مزہ ہی دیتا ہے‘‘۔
’’ارے پیٹر (Peter)دوگلاس پانی لاؤ بھئی‘‘۔
نجابت صاحب نے خادم کو آواز دیتے ہوئے کہا۔
کچھ دیر کے بعد خادم پانی لے کر آیا۔
’’ارے پیٹر! چائے اور ناشتہ کا بھی انتظام کرو، ورنہ محترمہ علی گڑھ جاکر کہیں گی کہ نجابت صاحب نے چائے تک کے لیے نہیں پوچھا‘‘۔
نجابت صاحب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ فارسی میں پروفیسر کے عہدے پر رہ چکے تھے؛ لیکن طالب علمی کے زمانے میں ایک سمینار شیخ سعدی کی حیات و خدمات پر شعبہ فارسی میں ہوا تھا ،جس میں تہران یونیورسٹی سے ایک پروفیسر احمد نژاد تشریف لائے تھے، نجابت صاحب اس وقت ایم اے سال آخر کے طالبِ علم تھے،انہوں نے پروفیسر نژاد کی شان میں ایک قصیدہ تصنیف کیااور اسے لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوئے ،جسے سن کر پروفیسر بہت خوش ہوئے اور انہوں نے ان کو تہران آنے کی دعوت دی اور سارے اخراجات اٹھانے کا وعدہ کیا، نجابت صاحب کچھ دنوں بعد تہران چلے گئے ،واپسی کرتے وقت نجابت صاحب نے یہ عہد کیا تھا کہ اگر موقع ملے گا، تو زندگی کے آخری ایام تہران میں ہی گزاروں گا؛ اس لیے رٹائرڈ ہونے کے بعد وہ مستقل تہران میں رہنے لگے۔
خادم کو چائے ناشتے کا حکم دینے کے بعد نجاوت صاحب زویا سے مخاطب ہوئے۔
’’جی! محترمہ فرمائیں،یہ خاکسار آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہے؟‘‘۔
زویانے ذرا رکتے ہوئے کہا:
’’سر میں آپ سے محبت کرتی ہوں‘‘۔
’’محبت کرنے کا دعوی بھی اور سر کرکے مخاطب بھی کرتی ہو؟اتنا ادب!پہلے تو آپ کویہ معلوم ہونا چاہیے کہ محبت میں ادب گناہ کبیرہ کی حیثیت رکھتا ہے اور تمام علمائے عشاق کا اس پر اجماع ہے،خیر کوئی بات نہیں،پہلے عشق میں اس طرح کی خطائیں معاف ہوتی ہیں‘‘۔
’’پہلا عشق؟‘‘زویا نے حیرت سے پوچھا
’’جی پہلا عشق‘‘۔
’’لیکن عشق ایک ہی بار ہوتا ہے بار بار نہیں‘‘۔
’’خیر جانے دیں ان باتوں کو‘‘۔
’’پہلے آپ میرے کچھ سوالات کا جواب دیں، اس کے بعد فیصلہ لینا بہتر ہوگا‘‘۔
جی!
زویا نے اس اعتماد کے ساتھ ’’جی‘‘ کہا،گویا کہ وہ عشق کی منزل پانے کے لیے ہر طرح کے سوالات ا ور حالات کا سامنا کرنے کو تیار ہو۔
نجابت صاحب نے ذرا تلخ انداز میں کہا:
’’کیا آپ نے مجھے آج سے پہلے کہیں دیکھا ہے؟‘‘
’’نہیں‘‘۔
’’کیا مجھ سے کبھی خطوط کے ذریعے رابطہ کرنے کی کوشش کی ہے؟‘‘
’’نہیں۔۔۔ہاں ایک دو بار سوچاضرور‘‘۔
’’اچھا ایک بات بتاؤ؟‘‘۔
’’جی پوچھیے‘‘
’’کیا رات میں سوتے وقت تمہارے تکیے کے نیچے میری تصویر رہتی ہے؟‘‘۔
’’نہیں‘‘۔
’’تصویر تو نہیں، تخلیق ضرور رہتی ہے‘‘۔
’’اچھا!زویا تم نے ماہر نفسیات ولیم آسٹیکل کا نام سنا ہے؟‘‘۔
’’جی سنا ہے‘‘
’’ولیم آسٹیکل کے مطابق’’عورت کے لاشعور میں ایک آئیڈیل مرد بستا ہے، عورت ادھر متوجہ ہوتی ہے، جہاں اس کا آئیڈیل نظر آتا ہے، اکثر شاعر، ادیب اور مشہور شخصیات کو عورتیں اپنا آئیڈیل تصور کرتی ہیں اور اَن دیکھے عشق میں ملوث ہوجاتی ہیں،جیسا کہ تم‘‘۔
’’لیکن سر! ولیم آسٹیکل کی بات قابل تقلید ہوسکتی ہے، مگر قابل حجت نہیں‘‘۔
’’لیکن تم جس عمر میں ہو ،تمہارے لیے تقلید ہی حجت کا درجہ رکھتی ہے‘‘۔
’’میں کچھ سمجھی نہیں‘‘
’’زویا میری اور تمہاری زندگی کے تقاضے بہت مختلف ہیں،میں ایک ستّرسال کا بوڑھا آدمی ہوں، میر ی زندگی کے تقاضے الگ ہیں تمہاری زندگی کے الگ،تم ایک چوبیس سالہ خوبصورت دوشیزہ ہو، تم مجھ سے کتنا بھی عشق کرنے کا دعویٰ کرو؛ لیکن وہ کہلائے گا تو عشق مجازی ہی اورعشق مجازی میں جتنے تقاضے روح کے ہوتے ہیں اس سے کہیں زیادہ جسم کے ہوتے ہیں، داسی یا مجنوں بن کر تڑپا جا سکتا ہے جیا نہیں‘‘۔
’’سر چائے‘‘
پیٹر نے کمرے میں داخل ہوتے کہا۔
’’ہاں۔۔لے آؤ۔۔۔یہاں رکھ دو‘‘۔
پیٹر چائے رکھ کر چلا گیا۔
’’چلیے محترمہ چائے بنائیے۔۔یہ ایک بوڑھے شخص سے عشق کرنے کی سزا ہے‘‘۔
نجابت صاحب کی اس بات پر زویا مسکرادی۔
’’سر چینی کتنے چمچ؟‘‘
’’میرے لیے ایک ہی رکھیے گا‘‘۔
اِدھر زویا چائے بنانے لگی، اُدھر نجابت صاحب ایک بار پھر کھڑکی کی طرف دیکھنے لگے۔
’’سر چائے!۔۔کہاں کھوگئے تھے آپ؟‘‘۔
’’زویا وہ گھلتی ہوئی برف دیکھ رہی ہو، جو کچھ دیر پہلے تک پہاڑ پر جمی ہوئی تھی؛ لیکن وہ اب سورج کی تپش سے گھلنے لگی ہے‘‘۔
جی!
’’وہ پہاڑ نظر آرہا ہے، جو برف کے گھلنے سے نمودار ہوا ہے‘‘۔
’’جی سر! لیکن آپ کہنا کیا چاہتے ہیں‘‘۔
’’میں کہنا نہیں آپ کو کچھ دکھانا اور سمجھانا چاہتا ہوں‘‘۔
’’لیکن کیا؟‘‘
یہی کہ میری زندگی اس گھلتی ہوئی برف کی مانند ہے، جو سورج کی تپش سے گھلتی جارہی ہے اور بہت جلد گھل کر ختم ہوجائے گی اور تمہاری زندگی اس تناور پہاڑ کی طرح ہے ،جس پر نہ برفیلی بارش کا اثر ہوتا ہے اور نہ سورج کی تپش کا اور ویسے بھی تم مجھ سے نہیں اپنے آئیڈیل سے محبت کرتی ہو اور تمہارا آئیڈیل میں نہیں میری تخلیق ہے۔

You may also like

1 comment

Er mohd adil 26 جولائی, 2018 - 10:43

انجینئر محمد عادل
اس عالمِ آب و گل میںبے شمار مخلوقات کاوجود پایا جاتا ہے۔سائنس کے مطابق کرۂ ارض پر انسان کی خلقت سے پہلے بھی لا تعداد مخلوقات
پائی جاتی تھیں۔یہ نظامِ قدرت ہے کہ کچھ مخلوقات انسان کے وجود کے بعد معدوم ہو گئیں اور کچھ اس کے ساتھ ساتھ ہی اس روئے زمین پر اپنی اپنی زندگی کی کائنات میں سانس لے رہی ہیں۔با الفاظِ دیگر یہ کہ صرف انسان ہی اس عالم وجودکا حصہ نہیں بلکہ اس کی دلکشی و دلفریبی اور جاذبیت کا باعث دیگر مخلوقات بھی ہیں۔اور ان دیگر مخلوقات میںحشرات الارض بھی ہیں ۔
حشرات الارض کو یوں تو حقیر مخلوق سمجھا جاتا ہے اور ان کو پیروں تلے پامال بھی کیا جاتا ہے لیکن یہ بھی حق ہے کہ یہ حشرات الارض انسان کی زندگی میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔سائنسدانوں کے مطابق کوئی ایسی مخلوق نہیں جس سے انسان کو فیض حاصل نہ ہوتا ہو۔ تحقیق سے ثابت ہوا کہ یہ حقیر اور ادنیٰ سمجھے جانے والے حشرات الارض بھی انسانی وجود کو بر قرار رکھنے میں مددگار ہوتے ہیں۔
حشرات الارض میںکچھ ایسے ہیں جو بہت چھوٹے ہیںجن کوہم اپنی آنکھوں سے نہیںدیکھ سکتے ہیں ۔جن کا مشاہدہ کرنے کے لئے ہم کو خوردبین کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ان میںکچھ ایسی مخلوقات بھی ہیںجوہمارے آس پاس رینگتی ہوئی نظر آتی ہیں۔جب کے کچھ ایسی ہیں کہ جن کے یہاں’’پر‘‘(Wings) پائے جاتے اور یہ اُڑنے کی بھی صلاحیت رکھتی ہیں۔سائنس دانوں نے جہاں ان کی طویل فہرست تیار کی ہے وہیں ہمارے اردو ادب کے شاعروں نے بھی ان کا ذکر اپنے کلام میںجا بہ جا کیا ہے۔اس مختصر سے مضمون میںاردو غزل کے ایسے اشعار پیش کئے گئے ہیں جن میںحشرات الارض کا ذکر ملتا ہے۔لیکن اس انداز سے کہ جہاں وہ اپنے وجود اپنی عادات و خصائل کا مظاہرہ کرتے ہیں وہیں استعارے اور علامتوں کی بھی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
آپ اپنے گھر کی در ودیوار پر رینگنے والی چھپکلی سے ضرور آشنا ہوں گے ۔یہ وہ کیڑاہے جو کہیں نہ کہیںموجود ہی رہتا ہے۔اس کی مختلف اقسام پائی جاتی ہیںسائنسدانوں کے مطابق یہ مخلوق انسان کے وجود میں آنے سے پہلے بھی اس دنیا میںموجود تھی۔ان کا یہ خیال ہے کہ ڈایناسور(Dinosaur) کاتعلق بھی اس کے خاندان سے تھا۔یہ انڈے دیتی ہے۔جس سے دوسری چھپکلیاں پیدا ہوتی ہیں۔کیوں کہ شاعر اپنے ماحول کا عکاس ہوتا ہے جو کچھ اپنے آس پاس دیکھتا ہے اس کے ترجمانی اپنے کلام میں کرتا ہے پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ اس کے کلام میں اس مخلوق کا ذکر نہ ہوتا۔مثلاً یہ اشعار دیکھیں:
کھا گیا کیڑے مکوڑے اک غبار
چھپکلی کھولے ہوئے منھ رہ گئی
(وفاؔ نقوی)
زندگی کا لطف لینا ہے اگر
ڈھونڈلو اک چھپکلی برسات میں
(ڈاکٹر رضی ؔ امرہووی)
سب مکیں گھر کے ہمارے جاچکے
چھپکلی اک رہ گئی دیوار پر
(ڈاکٹر ہلالؔ نقوی)
ایک پتنگا دیکھ کر دیوار پر
چھپکلی کے جسم میں جنبش ہوئی
(نادمؔ بلخی)
چھپکلی کے علاوہ ہمارے گھر میں پائی جانے والی دوسری مخلوق مچھر کی ہے۔اس کاذکر بھی ہماری اردو شاعری میں کافی دیکھنے کو ملتا ہے۔کبھی اس کو شاعری میں تلمیح کے طور پر استعمال کیا گیا کبھی طنزو مزاح کے پیرہن میںپیش کیا گیا۔یہ مخلوق بھی بہت عجیب و غریب ہے اور انسانوں کی ایک پرانی ساتھی ہے۔دیکھنے میں تو یہ ایک ادنیٰ سا کیڑا ہے لیکن ہر وقت انسان کا خون پینے پر آمادہ رہتا ہے۔اور ایسا درد دیتا ہے کہ انسان تڑپ جاتا ہے۔تو یہ کیسے ممکن ہے کہ شاعر درد اور کرب کا تو ذکر کرے اور اس کا ذہن مچھر تک نہ پہنچے۔کچھ اشعار دیکھیں:
کالا نہ سہی لال سہی تل تو بنا ہے
اچھا ہوا مچھرنے ترے گال پہ کاٹا
(ضیاء الحقؔ قاسمی)
سامنے نمرودیت کی لاش ہے
ایک مچھر کی صدا سنتا ہوں میں
(وفا ؔ نقوی)
ایک دن تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی
پھر کسی نمرود کو مچھر اُڑا لے جائے گا
(نامعلوم)
آپ لاریب سہی زودسخن
کیا میںتنقید کا مچھر بھی نہیں
(راہی فدائیؔ)
مچھروں کی جماعت کے ساتھ ہی مکھیاں بھی اپنے وجود کا لوہا منواے میں پیش پیش رہتی ہیں۔ان کا بھی انسان کی زندگی میں بڑا عمل دخل ہے۔ انسان کی بول چال،حکایات،مثالوں اورمحاوروں میںکثرت سے ان کا استعمال دیکھنے کو ملتا ہے۔مثلاً’’مکھی پرمکھی مارنا‘‘،’’دودھ کی مکھی سی نکال کر پھینک دینا‘‘،’’مکھی ناک پر بیٹھنے نہیں دینا‘‘ وغیرہ وغیرہ ۔شعراء نے بھی وقتاً فوقتاً مکھی کا ذکر اپنے کلام میں کیا ہے مثلاً:
مکڑی کہیںمکھی کو گرفتار نہ کرلے
وہ شوخ نگاہوں سے مجھے بھانپ رہے ہیں
(آلِ احمد سرورؔ)
مکھی پر مکھی بٹھلاتے رہتے ہیں
بیتے لمحوں کو دہراتے رہتے ہیں
(عادل ؔمنصوری)
جانے کیا معاشرے کی حرکت ہے
شور گھر گھر ہوا ہے مکھی کا
(عادل فرازؔ)
جہاں جہاںمکھیوں کا وجود ہوتاہے وہاں وہاں مکڑیاں انھیں شکار کرنے کے لئے موجود رہتی ہے۔کیوں کہ یہ ان کو غذا کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔یہ مکانات اور گھروں میںجالا بنا کر رہتی ہیں۔یہ جالا ان کے لعاب سے بنتا ہے۔شاعروں نے اپنی غزلوں میںمکڑیوں اور ان کے جالے کو بھی بڑے دلکش انداز میں پیش کیا ہے مثال کے لئے اشعار دیکھیں:
جسم زار قیس کا پوچھا جو حال
رکھ دیا مکڑی نے جالا تان کر
(شادؔ لکھنوی)
مکڑی نے پہلے جال بنا میرے گرد پھر
مونس بنی رفیق بنی پاسباں ہوئی
(وزیر آغاؔ)
روح کو قید کئے جسم کے حالوں میں رہے
لوگ مکڑی کی طرح اپنے ہی جالوں میں رہے
(شاہد کبیرؔ)
اس کے علاوہ دوسرے رینگنے والے حشرات الارض مثلاًچیونٹی،سانپ ،بچھو، وغیرہ کاذکر بھی شاعری میں آتاہے ۔
چیونٹی کی مثال دیکھیں:
بڑے سے بڑے جانداروں میں بھی
ہے چیونٹی کے منہ کا نوالا کوئی
(غلام مرتضی راہیؔ)
دے رہی ہے اجل انہیں آواز
چیونٹیوں کے بھی پر نکلنے لگے
(مہدی ؔپرتاپ گڈھی)
سانپ بھی اردو غزلوں میں جگہ جگہ دیکھنے کو ملتا ہے ۔مثلا کبھی شاعر محبوب کی زلفوں تو کبھی اس کے چلنے کے انداز کو سانپ سے تشبیہ دیتا ہے۔ جدید غزل میں یہ ایک علامت اور استعارے کے طور پر ابھر کر سامنے آتا ہے اشعار ملا حظہ فرمائیں:
آج احساس میں اک سانپ چھپا بیٹھا ہے
پھول سے ہاتھ ملاتے ہوئے ڈر لگتا ہے
(ڈاکٹر بشیر بدرؔ)
آستینوں میں سانپ پالے تھے
دودھ خود ہی انھیں پلایا تھا
(لئیق اکبر سحابؔ)
سانپ کے ساتھ ساتھ بچھو بھی اردو شاعری میں نظر آتا ہے۔ اشعار دیکھیں:
زہر الفاظ ہوگئے میرے
ایک بچھو سے دوستی کرکے
(وفاؔ نقوی)
تمھیں نے سوچ کے بچھو لگا کے رکھے تھے
نہیں تو زخم تمھارا ہرا بھرا کیوں ہے
(عبید ؔحارث)
ناگ بیٹھے ہوئے ہیں مسند پر
ہوگئے رہنما سبھی بچھو
(ڈاکٹرہلال ؔنقوی)
الغرض ہم کہہ سکتے ہیںکہ ہماری اردو غزلوں میںحشرات الارض کی ایک دنیا آباد ہے اورہماری اردو شاعری میں مختلف اقسام کے جانوروں اور کیڑے مکوڑوں کا ذکر ملتا ہے جن کا احاطہ ایک مختصر سے مضمون میں کرنا ممکن نہیں۔ہماری کلاسیکی شاعری سے لے کر جدید اور مابعد جدید غزلوں میں اب بھی شاعر ان کو قلم بند کر رہے اور یہ سلسلہ یوں ہی رواں دواں رہے گا کیوں کہ یہ ہماری زندگی کا حصہ ہے جو ہم کو قدرت سے تحفے میں ملا ہے۔
موبائل:9358856606Email:[email protected]

Leave a Comment