خدارا ہمیں سفاک مسیحاؤں سے بچائیں!
جناب عالی! تقریبا ڈیڑھ دہائی سے آپ بہار کی کرسیِ اقتدار پہ براجمان ہیں،بجلی، سڑک، تعلیم،امن وامان، لا اینڈ آرڈر کے شعبوں میں آپ نے بے مثال خدمات وکارنامے انجام دیے ہیں ،جن پر آپ داد وتحسین کے یقیناًمستحق ہیں۔شراب بندی کا جرأتمندانہ اقدام بھی آپ کی طرف سے اگرچہ ہوا تھا؛ لیکن یہ صرف کاغذی خاکہ ہی رہا ،اب تک اس میں رنگ نہیں بھرا جاسکا۔آپ نے صحت کے شعبے میں بھی خطیر وسائل مہیا کرائے، یہ کوشش بھی سراہے جانے کے قابل ہے۔
ہم نے سنا اور پڑھا ہے کہ آپ بدعنوانی، رشوت ستانی،لوٹ کھسوٹ، مالی بے ضابطگی اور غیر شفاف مالی لین دین کے سخت دشمن ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس بابت تشفی بخش اور قابل اطمینان وضاحت سامنے نہ آسکنے کی وجہ سے آپ نے اپنے حلیف اور مضبوط اتحادی سے ہاتھ چھڑالیا،یعنی حکومتی اتحاد سے علیحدہ ہوکر اسمبلی تحلیل کردینا آپ کو برداشت ہے؛ لیکن مالی بے ضابطگی اور لوٹ کھسوٹ پہ سمجھوتا کرنا آپ جیسے ”نظریاتی” بلکہ ”نظریہ ساز” لیڈر کو گوارا نہیں!
لیکن حد درجہ باعث افسوس ہے کہ آپ نے اپنے دور حکومت میں دارالحکومت پٹنہ سمیت بہار کے بڑے بڑے شہروں میں قائم نجی ہسپتالوں، رجسٹرڈ ڈاکٹروں اور پرائیویٹ نرسنگ ہوم میں علاج معالجے کے نام پہ مریضوں کے ساتھ ہونے والے لوٹ کھسوٹ پر خاطر خواہ توجہ دینے یا موثر کار کردگی کی کبھی زحمت نہ کی۔بدعنوانی کے ان اڈوں پہ کبھی آہنی ہاتھ ڈالنے کی آپ کی طرف سے محسوس کوشش نہ کی گئی۔
محترم وزیر اعلی صاحب! ڈاکٹر کو معاشرے میں قوم کا ”مسیحا ” کہا جاتا ہے،یہی وہ شخصیت ہے ،جو موت کے منہ میں پھنسے مریضوں کی زندگی لوٹاتی اور موت کی دہلیز پر بیٹھے پریشان حال اور بے کسوں کے جسم نیم مردہ میں رمق وآبِ حیات ڈالتی ہے،ڈاکٹر قوم کے سب سے بڑے محسن وخیر خواہ ہوتے ہیں،دکھی انسانیت کی خیر خواہی کا جذبہ اگر شامل حال ہو، تو ان کا پیشہ عبادت بن جاتا ہے۔
لیکن افسوس یہ ہے کہ آج ریاست کے ہر بڑے شہر‘ مثلا پٹنہ،دربھنگہ،بیگوسرائے،کٹیہار،پورنیہ وغیرہ میں پرائیویٹ کلینکس اورپرائیویٹ اسپتال قائم ہیں اوریہ اسپتال غریبوں کودونوں ہاتھوں سے کاٹ رہے ہیں،مسیحا کہلائے جانے والے لوگ ہی مریضوں کی رگوں سے رہی سہی زندگی بھی کھینچنے میں لگے ہیں!
نجی ہسپتالوں اور رجسٹرڈ ڈاکٹروں کی علاج فیس بہت زیادہ ہے، صوبے بھر میں ڈاکٹر اپنی من مانی فیس 500؍ تا ایک ہزار وصول کرتے ہیں۔ پندرہ دن بعد پھر نئی فیس وصول کی جاتی ہے۔
معمولی معمولی بیماری پہ نصف درجن چیک اپ لکھ کر اپنے مخصوص تشخیصی لیبارٹری پر جانے کو کہا جاتا ہے،جن سے مخصوص مقدار میں کمیشن کی وصولی ہوتی ہے۔اکثر پرائیویٹ نرسنگ ہوم والے اپنے ہی یہاں سارا جانچ کرانے کو لازم قراردیتے ہیں،اس میں زیادہ سے زیادہ روپیہ مریضوں سے لئے جاتے ہیں۔ کم فیس کے پیش نظر اگر مریض کسی دوسرے ڈائگناسٹک سینٹر سے چیک اپ کروالے، تو سخت پھٹکار سننے کے علاوہ تمام چیکپ مسترد کرکے از سر نو چیک اپ کروا یا جاتا ہے۔ بعض ”مسیحا ” معائنے کے بعد نسخہ تھماتے ہوئے ہدایت کرتے ہیں کہ فلاں فارمیسی سے ہی دوا خریدی جائے، بصورت دیگر کوئی جعلی دوا بھی دے سکتا ہے اور وہ آپ کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ سن کر کوئی بھی اس ڈاکٹر کو انتہائی ذمہ دار اور اپنا خیرخواہ ہی سمجھے گا؛ لیکن ایسا نہیں ہے، ایسے ڈاکٹر کی ہدایت پر عمل کرنے والا مریض دراصل مقامی اور غیر رجسٹرڈ کمپنی کی غیر معیاری دوا خرید کر اس نام نہاد مسیحا کی جیب بھاری کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔
عزت مآب وزیر اعلی صاحب!
ہماری ریاست میں کروڑوں روپے سے بنائے گئے متعدد سرکاری ہسپتال قائم ہیں ،جن پر اربوں روپے کے سرکاری وسائل صحت کے فنڈ میں خرچ ہورہے ہیں؛ لیکن سرکاری ہسپتالوں میں بروقت ڈاکٹروں کی غیر حاضری وعدم دستیابی، بنیادی سہولیات عملی فقدان ،نیز جلد سے جلد علاج کے حصول کی خاطر مریض نجی ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں، موقع سے سے فائدہ اٹھاکر علاج وصحت کی جلد فراہمی کے نام پر پرائیویٹ ڈاکٹرز غریبوں اور محتاجوں کا خون چوسنے میں لگ جاتے ہیں۔
محنت مزدوری کرنے والا غریب طبقہ آج ان سفاک وقصاب مسیحاؤں کی چکی میں پس رہا ہے،شعبۂ اطفال اور شعبۂ زچگی میں ”طریقۂ واردات ” کچھ زیادہ ہی افسوسناک ہے۔آپ نے بہار کے متعدد فرسودہ نظاموں میں اہم تبدیلیاں لائیں؛لیکن علاج معالجہ کے نام پر قائم اس قصائی خانہ کے نظام کی تبدیلی کی بھی فکر فرمائیے! سیاسی بدعنوانیوں سے درجہا خطرناک یہ طبی بدعنوانیاں ہیں،جن کے ظلم وسفاکی کا تختۂ مشق بیچارے غریب عوام بنتے ہیں،اس بدعنوانی کوبھی دور کرناآپ کا کام ہے!
اس سلسلے میں مجھے آنجناب سے درج ذیل فوری اقدامات کی گزارش ہے:
1۔ حکومتی سطح پر قانون سازی کرکے ایسا ضابطۂ اخلاق وضع کیا جائے ،جس کے تحت ڈاکٹروں کو نہ صرف مقررہ فیس لینے کا پابند کیا جائے؛ بلکہ انہیں سستی اور کارگر دوائیں تجویز کرنے کا بھی کہا جائے۔
2 ۔غریب اور متوسط طبقے کو ڈاکٹروں کی چیرہ دستیوں سے نجات دلانے کے لئے چیک اپ،آپریشن فیس اور نرسنگ ہوم چارج کی زیادہ سے زیادہ حد مقرر کی جائے،ضرورت سے زائد تشخیص پر پابندی لگائی جائے،کسی مخصوص مرکزِ تشخیص سے رجوع کے التزام کو ختم کیا جائے۔
3۔ہر ضلع میں مریضوں کی شکایات اور مسیحاؤں کی سفاکی کے ازالے کیلئے فری ہیلپ لائن یا مرکز قائم کیا جائے اوروصول شدہ شکایات کا سختی سے نپٹارہ ہو۔
4۔طبی اخلاقیات کی خلاف ورزی کرنے والوں سے بلا رو رعایت سختی سے نمٹا جائے اور مناسب جرمانہ بھی عائد کیا جائے۔
5۔ڈاکٹر کی چیرہ دستیوں سے تحفظ کے لئے غریب طبقہ میں طبی انشورنس کارڈ کے نظام کو کارگر طریقے سے متعارف ؛بلکہ نافذ کیا جائے!
6۔ضلعی سطح پر جعلی اور غیر معیاری دواؤں کی جانچ پڑتال کی کمیٹی قائم ہو اور غیر معیاری دواؤں کی فروخت پر پابندی عائد ہو۔
7۔صحت وعلاج کے نام پہ یومیہ قتل عام کو بند کروائیں۔
8۔نجی ہسپتالوں میں کرپشن کی گرم بازاری ختم فرماکر سستے علاج کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔
وزیر اعلی صاحب!
اقتدار آنی جانی چیز ہے،یہاں کسی عہدہ ومنصب کو دوام نہیں،دوام وبقا ہے تو صرف انقلاب،تبدل وتغیر کو،حالات ہمیشہ آپ کے موافق نہیں رہیں گے، ابھی آپ کے پاس وقت بھی ہے، قوت بھی اور اقتدار بھی۔غریبوں اور محتاجوں کے لئے ایسا کچھ تاریخی اقدام وفیصلہ کرکے جائیے کہ آپ بہار کے غریب لوگوں کے دلوں پہ ہمیشہ حکمرانی کرتے رہیں،دلوں کا حکمراں ہی اصل بادشاہ ہے۔آپ کے ماضی کے جرأتمندانہ اقدامات کی وجہ سے مجھے یہ چند سطریں آپ کی خدمت میں لکھنے کی ہمت ہوئی۔
آخر میں یہ واضح کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ گرد وپیش کے غریب،مفلوک الحال،دبے، کچلے اور ڈاکٹروں کے ستم زدہ پریشان حال لوگوں کی عمومی حالت زار دیکھ کر میرا ضبط ٹوٹ گیا اور قوت برداشت جواب دے گئی، تب یہ قلبی تاثرات لفظوں میں ڈھل گئے،جنہیں سماجی، اخلاقی ودینی فریضہ سمجھتے ہوئے آپ کے گوش گزار کردینا ضروری سمجھا۔
مجھے امید ہے کہ آپ دکھی انسانیت کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی جانب خصوصی توجہ مبذول کرتے ہوئے ان مسائل کا فوری موثر عملی حل فراہم کریں گے۔
فقط!
خیر اندیش
شکیل منصور القاسمی
بیگوسرائے /بہار
بہار کے وزیر اعلی مسٹر نتیش کمارکے نام کھلا خط
previous post