Home مباحثہ بھلی لگے نہ لگے سن تو لو مری فریاد

بھلی لگے نہ لگے سن تو لو مری فریاد

by قندیل

معوذ سید
ایک مایۂ ناز درسگاہ میں ایک متنازع تصویر ہنگامے کا موضوع بن جاتی ہے، میں آپ سے تبادلۂ خیال کرتے ہوئے عرض کرتا ہوں کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں محمد علی جناح کی تصویر آزادی سے قبل سے لگی ہوئی ہے، مگر اس پر پہلا اعتراض ۲۰۱۸ میں ہوتا ہے جو ایک ہنگامے میں بدل جاتا ہے۔ اس ہنگامے کا راست مقصد یہ ہے؛ کہ عین انتخابات سے قبل پورے ملک کے لاشعور میں یہ بات نقش کر دی جائے کہ مسلمانوں کی ایسی عظیم الشان مایۂ ناز درسگاہ میں محمد علی جناح کی تصویر لگی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان جناح سے ہمدردی رکھتے ہیں، یہاں تک آپ مجھ سے اتفاق جتاتے ہیں!
پھر میں عرض کرتا ہوں کہ اولین فرصت میں انتخابی شطرنج کے اس مہرے کا توڑ پیش کیا جائے، سب سے پہلے ڈنکے کی چوٹ پر یہ اعلان کیا جائے کہ جناح سیاسی طور پر ہمارے مسترد کردہ لیڈر ہیں، ہم ان کی تصویر کو لیکر ذرہ برابر بهی جذباتی نہیں ہیں، جناح کی تصویر ہٹ جائے کہ اس پر کالک پوت دی جائے، ہماری بلا سے!
تو آپ،جو ابھی چند لمحوں قبل میری اِس بات سے صدفیصد متفق تھے کہ یہ ہنگامہ محض ایک طویل المیعاد انتخابی چال ہے، میرے اِس فی الفور سیاسی ردِّ عمل پر چراغ پا ہو جاتے ہیں، اور تنتنا کر سوالات کی پے در پے توپیں داغتے ہیں؛ "کیا تقسیم کے ذمے دار محض جناح ہیں؟ کیا کل کو علامہ اقبال اور حضرت تهانوی کا نام بهی بهارت کی کتابوں سے مٹا دیا جائے گا؟ کیا تمہیں علی گڑھ کے جیالوں کے زخم نہیں نظر آتے؟ کیا تمہیں ہندو یوا واہنی کی غنڈہ گردی نہیں نظر آتی؟ تم ضرورت سے زیادہ دیش بهکت بن رہے ہو؟ ارے کہیں تم جمعیتی تو نہیں ہو؟ آاااخ تهو!”
اللہ اکبر کبیرا…میں ہونّق رہ جاتا ہوں کہ آخر آپ یک بیک شعلہ فشاں کیوں ہو گئے؟! ابهی ابهی تو آپ میرے ساتھ ملک کی انتخابی سیاست کے نازک پہلوؤں پر بڑی سنجیدگی سے تبادلۂ خیال فرما رہے تھے!
مگر پهر سنبهالا لے کر میں عرض کرتا ہوں "حضور!آپ خود ہی غور فرمائیں، خود سنَگھیوں کی نظرِ انتخاب حضرت قائدِ اعظم پر ہی کیوں پڑی! اگر بقول آپ کے اقبال اور جناح کی سیاسی حیثیت ایک سمّان ہے، تو سَنگھیوں نے جناح کے بجائے اقبال ہی کو کیوں نشانہ نہیں بنایا؟ جناح کی تو محض تصویر آویزاں ملی ہے، اقبال کے تو دیوان کے دیوان نکل آتے اور گهر گهر سے نکل آتے، آخر سَنگھیوں نے یہ آسان آپشن چھوڑ کر مشکل آپشن کیوں اختیار کیا؟ اس سوال کے جواب میں ہی آپ کے مخمصوں کا حل مضمر ہے سرکار! جناح ایک آئیکون بن چکے ہیں، جناح ایک علامت بن چکے ہیں، جناح قائدِ اعظم کے لقب سے ملقّب ہو چکے ہیں، جناح پڑوس کے بابائے قوم بن چکے ہیں، جب سیاسی بساط پر کوئی چال چلی جائے گی تو مہرہ جناح ہی بنیں گے…اقبال نہیں، کیونکہ اقبال جیسے نظریہ ساز مفکر اس برصغیر میں دانشوروں کی میز کا موضوع تو بن سکتے ہیں، سیاسی فائدے کا عنوان کبهی نہیں بن سکتے، اقبال جناح کی طرح سیاسی آئکون کبهی رہے ہی نہیں، اور یہاں تو سارا کھیل ہی سیاسی بساط پر جاری ہے!
اور حضور! آپ شاید اس بدگمانی کا شکار ہیں کہ مجھے علیگ جیالوں کے زخم اور سنگهی غنڈوں کا آتنک نظر نہیں آتا، تو عرض کر دوں کہ یہ نظارہ تو سارے ملک کو نظر آ ہی رہا ہے، میں تو آپ کو وہ نظارہ دکها رہا ہوں جو میرے لوگوں کو آسانی سے نظر نہیں آتا یا شاید وہ دیکھنا ہی نہیں چاہتے! میں تو سلام پیش کرتا ہوں علی گڑھ کے نوجوانوں کو جو سنگھ نواز وی سی کے ہوتے ہوئے بهی سنگھ کی منصوبہ بند یلغار کے آگے چٹان بن کر کهڑے ہو گئے، میں تو کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ یوا واہنی کی بے روزگاری کے دن بہت جلد آ رہے ہیں، علیگڑھ کے ایک ایک جیالے کو لگنے والی خراش میرے تن پر لگی ہے، علی گڑھ کے ہر ہر نوجوان کو لگنے والا زخم میرا زخم ہے، مگر میرے بهائی! اگر میں اس ہنگامے کی تہہ میں دبے نظریاتی اور انتخابی زلزلے کو بهانپ کر اس کے ازالے کی اپنی سی کوشش کر رہا ہوں، تو میری سن تو لیجیے! سیاسی کهیل اتنی جذباتیت کے ساتھ مت کھیلیے کہ آپ خود مقابل کا مہرہ بن جائیں اور خود آپ کو پتہ تک نہ چلے! چمنستانِ سرسید پر سنگھ نواز وی سی بٹھا دیے جانے کے بعد بھی اگر آپ کی ہوشمندی نے آپ کی ماقبل آزادی والی جذباتیت کو لگام نہ دی، تو نصیبِ دشمناں کہیں کل کو اس چمن کے اقلیتی کردار پر راست زد نہ پڑ جائے! یہ چمن، جسے آزادی کے بعد ابوالکلام آزاد نے صیاد و غارت گر کی دستبرد سے محفوظ رکها، کہیں خدانخواستہ آپ کے لہو کی گرمی اسے کسی باغباں نما صیاد کے مکر کا شکار نہ بنا دے، اسٹوڈنٹس کے جذبات کو بھنا کر اس ملک میں پہلے بھی سیاست کا گندہ کھیل کھیلا جا چکا ہے، جس طرح کمیونسٹ کنہیا کو سنگھ کے مقابل کهڑا کر کے سنگھ نے اپنی ہندتوا شبیہ بہتر کر لی ہے، کہیں کسی مسلم کنہیا کے جذبات کا بهی سیاسی استعمال نہ کر لیا جائے!
بھلی لگے نہ لگے سن تو لو مری فریاد…!

You may also like

Leave a Comment