Home خاص کالم برادرانِ وطن کو دین کی دعوت وقت کی اہم ضرورت

برادرانِ وطن کو دین کی دعوت وقت کی اہم ضرورت

by قندیل

مولانا ندیم الواجدی
ان دنوں وطنِ عزیز کی صورت حال قطعی طور پر مسلم مخالف ہے، ایک طرف تو ہجومی تشدد کے واقعات نے ملک بھر میں خوف ودہشت کا ماحول پیدا کردیا ہے اور سپریم کورٹ کی سخت ہدایات کے باوجود ان واقعات کا سلسلہ تھمنے میں نہیں آرہا ہے، دوسری طرف حکومت کے بعض وزراء، ممبران پارلیمنٹ اور ممبران اسمبلی کُھلے بندوں ایسے بیانات دیتے پھر رہے ہیں جن سے لگتا ہے کہ یہ ملک صرف ہندؤں کا ہے اور انہی کو یہاں رہنے کا حق حاصل ہے، مسلمانوں کے تئیں صوبائی اور مرکزی حکومتوں کا رویّہ بھی مایوس کن ہے، موب لنچنگ کے کسی بھی ایک واقعے میں پولیس کا رول غیر جانب دارانہ اور منصفانہ نظر نہیں آتا، اس مجموعی صورت حال نے اکثریتی طبقے کے ذہن و فکر کو متأثر کرنا شروع کردیا ہے، اس طبقے سے تعلق رکھنے والے بعض لوگ کُھل کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگل رہے ہیں، حال ہی میں اترپردیش کے نجیب آباد سے تعلق رکھنے والی ایک ہندو خاتون کی ویڈیو وائرل ہوئی ہے، اس ویڈیو میں یہ خاتون کسی ایسی محفل میں جہاں عام لوگوں کے ساتھ ساتھ سادھو سنت بھی موجود ہیں بڑے جوشیلے انداز میں تقریر کرتی ہوئی نظر آرہی ہے، نو دس منٹ کی اس تقریر میں خاتون نے اسلام کے کلمۂ توحید، اللہ کی وحدانیت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت سے لے کر نماز، روزہ، حج، قرآن، عربی زبان، مدارس اور مساجد تک سب کو اپنے زہریلے خیالات کا نشانہ بنایا ہے، اس خاتون کی زہر آلود تقریر پر سامعین گوش برآواز نظر آرہے ہیں، وقفے وقفے سے تالیاں بجاکر خاتون مقرر کا حوصلہ بھی بڑھایا جارہا ہے، سادھو سنتوں کے چہرے خوشی سے کِھلے پڑ رہے ہیں، تقریر کے اختتام پر ایک سادھوی اسے گلے لگاتی ہے، اور سادھوؤں کی دی ہوئی ایک مالا بھی اس کے گلے میں ڈالتی ہے جس پر مقرر خاتون جھک کر اور ہاتھ جوڑ کر شکریہ بھی ادا کرتی ہے، صاف نظر آرہا ہے کہ تقریر کرنے والی تقریر کرکے انتہائی خوش ہے اور یہ سمجھ رہی ہے کہ اس نے کوئی بڑا معرکہ سر کیا ہے، سننے والے بھی اس بدبختانہ تقریر کو سن کر یہ سمجھ رہے ہیں کہ انھوں نے کوئی پنہ کا کام کیا ہے، پوری تقریر مسلمانوں کے جذبات بھڑکانے والی اور ان کے احساسات کو ٹھیس پہنچانے والی ہے، اگر ملک میں قانون کی حکمرانی ہو اور انصاف کا بول بالا ہو تو اس طرح کی تقریریں کرنے والوں اور ان تقریروں پر سردُھننے والوں کو سلاخوں کے پیچھے جگہ ملے، یہ ویڈیو اب تک لاکھوں لوگ دیکھ چکے ہیں، ابھی تک بھی کسی سرکاری ایجنسی نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا ہے اور نہ کہیں کوئی ایف آئی آر درج ہوئی ہے، اگراشتعال انگیزی کا یہ واقعہ مسلمانوں کی کسی محفل میں پیش آتا اور یہ تقریر کسی مسلمان نے کی ہوتی تو اب تک وہ آزاد نہ گھوم رہا ہوتا، قانون اور انصاف کے یہ دو پیمانے ملک کی سمتِ سفر واضح کرنے کے لئے کافی ہیں۔
ویڈیو وائرل ہونے کے ساتھ ہی اس کے جواب کا سلسلہ بھی شروع ہوا، جو ابھی تک جاری ہے، مسلمانوں کے ساتھ ساتھ بعض غیر مسلم بھائیوں نے بھی اس بہن کی خبر لی ہے، یہ جوابی ویڈیوز یوٹیوب پر آچکی ہیں اور لاکھوں لوگ ان کو دیکھ چکے ہیں، اطمینان کی بات یہ ہے کہ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے بھی یہ ویڈیو دیکھی اور اس کا جواب بھی دیا، اس کے ساتھ ہی مقرر خاتون کو اسلام کی دعوت بھی دی، اس واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ سوشل میڈیا پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جاری سرگرمیوں سے ہمارے بڑے علماء اچھی طرح واقف ہیں اور ان کا نوٹس بھی لے رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کی جوابی ویڈیوز سے ہم ملک کے ماحول کو بدل سکتے ہیں؟ یہ ایک وقتی چیز تو ہوسکتی ہے، ہمیں اس کی افادیت سے بھی انکار نہیں، مگر ضرورت ہے کہ اس کا کوئی پائیدار حل سوچا جائے، ہم تو یہ سمجھتے ہیں ہماری خاموشی بلکہ احتیاط پسندی اور دوسروں کی پیش قدمی نے بہت سے برادران وطن کے دل دماغ میں اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے منفی خیالات پیدا کردئے ہیں، ضرورت ہے کہ ان خیالات کے ازالے کی مستقل تدبیر کی جائے، اور یہ تدبیر اس کے علاوہ کوئی دوسری نہیں ہوسکتی کہ غیر مسلموں میں دین کی دعوت کا وہ سلسلہ شروع کیا جائے جو ہماری ضرورت بھی ہے اور جس کے ہم شرعی طور پر مکلف بھی ہیں اور جسے ہم بدقسمتی سے بھلا کر بیٹھ گئے ہیں۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسلام ہی پسندیدہ دین ہے، اس کے علاوہ کوئی دین اس کے یہاں مقبول نہیں ہے اور نہ قیامت تک کوئی دین قابل قبول ہوسکتا ہے، انسانیت کی فلاح اور نجات اسی دین کی اتباع میں مضمر ہے، تمام انبیاء ورُسل اسی دین کی تبلیغ کے لئے تشریف لائے، خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اسی دین کے ساتھ مبعوث کیا گیا، آپ سے فرمایا گیا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! آپ کہہ دیجئے کہ یہ میرا راستہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں (یوسف: ۱۰۸) قرآن کریم کی متعدد آیات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت دین کا حکم دیا گیا ہے، اور صراحۃً دیا گیا ہے، ان آیات میں اگرچہ خطاب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے مگر درحقیقت اس کے مخاطب تمام اہل ایمان ہیں، بعثت سے وفات تک کے حالات زندگی پر نظر ڈالی جائے تو ان سے بھی یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں اہل ایمان کی زندگی میں دین کو رچانے بسانے کی کوشش کی ہے وہیں یہ کوشش بھی کی ہے کہ جو لوگ ابھی تک حلقہ بہ گوش اسلام نہیں ہوسکے ہیں ان تک بھی دین کی دعوت پہنچائی جائے اور ان کو بھی دین کی طرف لایا جائے، صحابۂ کرامؓ نے بھی یہ سلسلہ جاری رکھا، اگر دعوت دین کا سفر جاری نہ رہتا تو اسلام جزیرۂ نمائے عرب کی حدود میں سمٹ کر رہ جاتا، آج تمام بر اعظموں کے ہر ملک میں اسلام کے ماننے والے موجود ہیں اس کی وجہ دعوت کی محنت ہے، اس ملک میں بھی جب تک دعوت کا سلسلہ باقی رہا صورت حال مسلمانوں کے حق میں رہی، موجودہ تشویش ناک صورت حال پر ہم اسی محنت کے ذریعے قابو پاسکتے ہیں۔
اس وقت ملک میں لاکھوں مدارس اور مکاتب کام کررہے ہیں، تبلیغی جماعت کا نیٹ ورک بھی انتہائی وسیع ہے اور ملک کی زیادہ تر مسجدیں اس کے دست تصرف میں ہیں، مگر یہ تمام محنت صرف مسلمانوں کو مسلمان بنانے کے لئے ہورہی ہے ،بلکہ مدرسوں میں تو ایک محنت اور بھی چل رہی ہے اور وہ ہے مختلف مسلکوں میں منقسم مسلمانوں کو اپنے اپنے مسلک پر ثابت قدم رکھنے کی محنت اور دوسرے مسلکوں کے خلاف نظریاتی جنگ لڑنے کی محنت، اس کے لئے مدارس میں مناظروں کے شعبے بھی قائم ہیں، جن میں دوسروں کے مسلکوں پر حملہ آور ہونے کی تعلیم دی جاتی ہے، ایک دوسرے کے خلاف کتابیں لکھنے کا جو سلسلہ دوسو سال پہلے شروع ہوا تھا وہ ابھی تک جاری ہے اور دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے، میں نہیں سمجھتا کہ ان مناظرانہ کتابوں یا تقریروں سے کسی مسلک کے لوگوں کو ان کے مسلک سے منحرف کرنے میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے، اس کے برعکس اگر ہم اتنی محنت دین کی دعوت کو عام کرنے کے لئے کرتے اور غیر مسلم بھائیوں کو دامن اسلام میں لانے کے لئے کرتے تو آج ملک کی صورت حال میں نمایاں تبدیلی محسوس ہوتی، اب بھی وقت ہے کہ ہمارے علماء، ذمہ داران مدارس، اور ہماری جماعتیں اس ضرورت کا احساس وادراک کریں کہ اگر اس ملک میں آبرومندانہ طریقے پر رہنا ہے تو داعی بن کر رہنا ہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے مدرسوں میں غیر مسلموں میں دین کی دعوت کے شعبے قائم کئے جائیں، اور ان شعبوں میں ایسے افراد تیار کئے جائیں جن کا کام ہی غیر مسلموں میں دین کی تبلیغ اور اشاعت کرنا ہو، جہاں تک میرا خیال ہے دعوت دین ہر مسلمان کا فرض اوّلین ہے بلکہ اس کے عقیدے کا پہلا تقاضا ہی یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کو بھی اس عقیدے کے دائرے میں لانے کی کوشش کرے جس پر وہ کار بند ہے، جب عام مسلمان سے اسلام یہ چاہتا ہے تو ان لوگوں سے اس کا مطالبہ کتنا سخت ہوگا جو رات دن قرآن وحدیث کی تعلیم وتشریح میں لگے رہتے ہیں اور جن کی نظروں سے ہر وقت آیات دعوت، احادیث دعوت اور واقعات دعوت گزرتے رہتے ہیں، کیا یہ تمام آیات، احادیث اور واقعات صرف نظریاتی ہیں، کیا صرف پڑھنے اور بار بار پڑھنے اور پڑھ کر بھلادینے کے لئے ہیں، کیا یہ ضروری نہیں ہے کہ ان پر عمل بھی کیا جائے ، ہماری مجرمانہ غفلت اور صدیوں پر محیط خاموشی سے برادرانِ وطن ہم سے بہت دور چلے گئے ہیں، اس ملک میں بلاشبہ کچھ کوششیں ہورہی ہیں مگرو ہ انفرادی نوعیت کی ہیں اور ان کا دائرہ عمل بھی محدود ہے اس لئے ان کوششوں کے اثرات بھی بہت زیادہ محدود ہیں، ضرورت ہے کہ ہمارے مدرسوں سے نکلنے والا ہر طالب علم عالم ہونے کے ساتھ ساتھ داعی بھی ہو، کتاب وسنت میں دعوت کا پورا طریقۂ کار موجود ہے بس اس کو عملی طور پر زندہ کرنے کی اور اسے اپنے نصاب کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہم دعوت دین کی اہمیت کے منکر نہیں ہیں، آج بھی اگر کسی عالم دین سے سوال کیا جائے کہ دین کی دعوت دینا کیسا عمل ہے وہ برجستہ جواب دے گا کہ یہ ایک انتہائی مبارک عمل ہے، دینی فریضہ ہے، نبی کی سنت ہے وغیرہ وغیرہ لیکن جب اس سے یہ پوچھا جائے گا کہ اس نے خود اس دینی فریضہ کو کس حد تک ادا کرنے کی کوشش کی ہے تو وہ بغلیں جھانکنے پر مجبور ہوگا، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے بدلے ہوئے ہندوستان میں اس فریضے کی ضرورت کا احساس ہی نہیں کیا، کئی سو سال سے طاری اس جمود کو توڑنے کے لئے ہمارے علماء دین کو کیا کرنا ہے یہ سوال ایک وسیع مشاورت کا متقاضی ہے، جو ظاہر ہے بڑے اور ذمہ دار مدارس اور جماعتوں ہی کے کرنے کا کام ہے، ایک زمانے سے ہمارے بعض مدارس میں بعض فرقوں کے خلاف کام کی تربیت دینے کے لئے کیمپ لگائے جاتے ہیں، ان فرقوں کے خلاف محاضرات کا اہتمام بھی ہوتا ہے، ہم نے کبھی نہیں سنا کہ غیر مسلموں میں دعوتِ دین کی عملی تربیت کے لئے بھی کوئی کیمپ لگایا گیا ہو، یا دعوت دین کے منہج اور طریقے کار پر بھی کبھی کوئی محاضرہ پیش کیا گیا ہو، دعو ت دین سے اس غفلت یا چشم پوشی کو کیا نام دیا جائے؟
[email protected]

You may also like

Leave a Comment