Home قومی خبریں بابری مسجد ملکیت تنازعہ،فریق اول جمعیۃ علماء ہند کمر بستہ

بابری مسجد ملکیت تنازعہ،فریق اول جمعیۃ علماء ہند کمر بستہ

by قندیل

سینئر وکلاء ڈاکٹر راجیو دھون، ڈاکٹر راجو رام چندرن کی خدمات حاصل کی گئیں:ارشدمدنی

نئی دہلی ، ۶؍ فروری(قندیل نیوز)
بابری مسجدکی ملکیت کے مقدمہ میں 8فروری سے سپریم کورٹ میں روزانہ سماعت ہوگی،جس میں فریق اول یعنی جمعیۃ علماء علماء ہند کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں مضبوط دلائل پیش کرنے کیلئے وکلاء کی ٹیم پوری طرح مستعد ہوگئی ہے۔ کل سے شروع ہونے والی مقدمہ جاتی کارروائی کے دوران جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے مقرر کردہ سینئر وکلاء ڈاکٹر راجیو دھون اور ڈاکٹر راجو رام چندرن عدالت میں اپناموقف رکھیں گے۔یہ اطلاع آج جمعیۃ علماء کی قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار احمد اعظمی نے ذرائع ابلاغ کو دی ہے۔
بابری مسجدکی اراضی کو الہ آباد ہائی کورٹ کے ذریعہ تین حصوں میں تقسیم کرنے کے فیصلہ کے خلاف دائر اپیل میں قانونی محاذ پرجاری لڑائی اب اِس لحاظ سے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے کہ عدالت عظمیٰ یومیہ بنیاد پر اس مقدمہ کی سماعت کرے گی۔چنانچہ صدرِ جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشدمدنی کی ہدایت پر جمعیۃ علماء ہند نے اس ضمن میں قانونی تیاری مکمل کرلی ہے۔
چیف جسٹس دیپک مشراء کی سربراہی والی سہ رکنی بنچ جس میں جسٹس عبدالنظیراور جسٹس بھوشن شامل ہیں، کے روبرو کل سے معاملے کی سماعت ہوگی جس کی تیاری کو حتمی شکل دینے میں ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول سینئر وکلاء سے مسلسل رابطہ میں ہیں تاکہ مقدمہ کی سماعت کے وقت جمعیۃعلماء ہند عدالت کے سامنے اپنے مضبوط دلائل پیش کرسکے۔عدالت کے حکم کے مطابق ہندی،اردو،فارسی،سنسکرت ودیگر زبانوں میں موجود دستاویزات کے ترجمے بھی تکمیل کے مراحل میں ہیں ۔
ذہن نشیں رہے کہ بابری مسجد کی ملکیت کے مقدمہ میں سپریم کورٹ آف انڈیا میں زیر سماعت پٹیشن نمبر 10866-10867/2010 پر بحث میں جمعیۃ علماء کی جانب سے سینئر وکیل ڈاکٹر راجو دھون، ڈاکٹر راجو رام چندرن بحث کریں گے جبکہ ان کی معاونت کیلئے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ طاہر، ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ جارج، ایڈوکیٹ تانیا شری، ایڈوکیٹ اکرتی چوبے ، ایڈوکیٹ قراۃ العین، ایڈوکیٹ مجاہد احمد و دیگربھی موجود ہوں گے ۔
خیال رہے کہ۲۳؍ دسمبر ۱۹۴۹ء کی شب میں بابری مسجدکے اندر رام للا کے مبینہ ظہور کے بعد حکومت اتر پردیش نے بابری مسجد کو دفعہ ۱۴۵؍ کے تحت اپنے قبضہ میں کرلیا تھا جس کے خلاف اس وقت جمعیۃ علماء اتر پردیش کے نائب صدر مولانا سید نصیرالدین فیض آبادی اور جنرل سیکریٹری مولانا محمد قاسم شاہجاں پوری نے فیض آباد کی عدالت سے رجوع کیا تھا جس کافیصلہ ۳۰؍ ستمبر ۲۰۱۰ء؍ کو الہ آباد ہائی کورٹ کے ذریعہ ملکیت کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے کردیا گیا تھا ۔اسی فیصلے کے خلاف جمعیۃ علماء نے سپریم کورٹ میں عرضداشت داخل کی تھی جس پر جمعرات سے سماعت عمل میں آئے گی ۔
یاد رہے کہ اس معاملے میں جمعیۃ علماء ہند اول دن سے فریق ہے اور بابری مسجد کی شہادت کے بعد دائر مقدمہ میں جمعیۃ علماء اتر پردیش کے نائب صدر مولانا سید نصیرالدین فیض آبادی اور جنرل سیکریٹری مولانا محمد قاسم شاہجاں پوری نچلی عدالت میں فریق بنے تھے۔ان کے انتقال کے بعد حافظ محمد صدیق (جنرل سیکریٹری جمعیۃ علماء اترپردیش) فریق بنے ۔ دوران سماعت ان کی رحلت کے بعدپھر صدر جمعیۃ علماء اتر پردیش مولانا اشہد رشیدی فریق بنے ۔فی الوقت جواپیل عدالت عظمی میں زیر سماعت،اس میں بھی موصوف بطور فریق شامل ہیں ۔
بتادیں کہ جمعیۃ علماء ہند نے صدرجمعیۃعلماء مولانا سیدارشد مدنی کی ہدایت پر ۳۰؍ ستمبر ۲۰۱۰ء؍ کے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کو جس میں ا س نے ملکیت کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ دیا تھا کہ خلاف سب سے پہلے سپریم کورٹ سے رجوع کیاتھا ۔

You may also like

Leave a Comment