Home خواتین واطفال اسلام میں حقوق نسواں کا تحفظ وبقاء

اسلام میں حقوق نسواں کا تحفظ وبقاء

by قندیل


ظل الرحمن قاسمی سہرساوی
اسلام خواتین کو کیا حقوق دیتا ہے اس پر بات کرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ جو خواتین کے حقوق کے غم میں دن رات دبلے ہو رہے ہیں خود ان کے یہاں عورت کے حقوق کیا ہیں؟ وہاں مرد وعورت کے درمیان آزاد جنسی تعلقات کی وجہ سے جسے ان کے یہاں فطری کہا جاتا ہے (کیوں کہ جانور بھی نکاح کی پابندی سے آزاد ہیں، اور یہ خود کو بندری یعنی بندر کی اولاد کہتے ہیں) اس کے نتیجے میں آپس کی محبت ختم ہوئی ، ذمہ داری ختم ہوئی خاندان کا نظام ٹوٹ گیا ، اور اب یہ معاشرہ اس پر پچھتا رہا ہے ، عورت کے معاشی استقلال کی وجہ سے طلاق میں اضافہ ہوا ، بچہ پیدا کرنا ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے۔
وہاں اب بوڑھوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، بچہ پانچ میں سے ایک حرام پیدا ہو رہا ہے جس کے والد کا علم نہیں ہوتا ، ایسے بچوں کی حکومت پر ورش کرتی ہے۔ امریکہ میں د س میں چھ یا سات خواتیں ایسی ہیں جو طلاق لے لیتی ہیں اور دوسری شادی کر لیتی ہیں، بہت سی یہ درد سر پالتی ہی نہیں ہیں، اس سے خود غرضی جنم لیتی ہے، اکیلے پن کا احساس پیدا ہوتا ہے، جو نفسیاتی بیماریوں کو نجم دے رہا ہے ، وہاں اگر عورت ، شوہرساس ، سسر کے لیے کھانا پکائے، صفائی کرے تو اسے قید سمجھا جاتا ہے ذلت کا کام کہا جاتاہے، اور یہ ہی کام (بلکہ اس سے بھی زیادہ ذلیل کام) اگر عورت غیرمردوں کے لیے کرے تو آزادی کہا جاتا ہے۔ مثلا مساج سٹر ، ہوٹل ، ماڈل گرل، سیلز گرل ، وغیرہ وغیرہ۔
اسلام نے عورت کو گھر سے باہر کام کرنے کی اجازت دی ہے، وہ ہر شعبہ زندگی میں کام کر سکتی ہے ، وہ شعبہ خیر کا ہو ، فضول نہ ہو اس میں اپنی عزت ووقار نہ کھونا پڑے،مناسب پردے میں رہ کر وہ کام کر سکتی ہے ، اسلام میں عورتیں جنگوں میں شرکت کر تی رہی ہیں، نرسنگ کا کام ، پانی پلانے کا کام کرتی رہی ہیں۔ انہوں نے جنگوں کی کمانڈ بھی کی اور اساتذہ کے فرائض بھی سر انجام دیے۔
اسلام میں عورت کو کمانے کی ،گھر کو چلانے کے لیے معاشی تگ ودو ، بچوں کو پالنے حتی کہ اپنی ذات کے لیے بھی روٹی ، کپڑا مکان جیسی بنیادی ضروریات کے لیے جد وجہد نہیں کرنی پڑتی یہ سب مرد کے ذمہ ہے دوسری بات یہ ہے کہ عورت کی جو ملکیت ہے اس میں مرد کا کوئی حق نہیں ہے، جو عورت کمائے وہ اسے اپنے مرضی سے استعمال کر سکتی ہے ، لیکن مرد کی کمائی میں عورت کا حق ہے، اسلام کے مطابق مرد وعورت کو ایک دوسرے کا لباس کہا گیا ہے، نکاح کر کے میاں ، بیوی ایک دوسرے سے آسودگی حاصل کر سکتے ہیں ،مغرب کی طرح انہیں ٓزادی کی گنجائش نہیں ہے ، میاں بیوی ایک یونٹ ہیں، اسلام میں گھر کی معاشی ضروریات کی ذمہ د اری مرد پر ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ عورتوں کو بھی ایسے ہی حقو ق ہیں، جیسے ان پر مردوں کے ہیں ۔(سورہ بقرۃ ۲۲۸) مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے مدد گار ہیں اچھے کام کرنے کو کہتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ہیں (سورہ توبہ ۷۱) نیز اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ میں تم میں سے کسی کام کرنے والے کے کام کو خواہ وہ مرد ہو یا عورت ہرگز ضائع نہیں کرتا (سورۃ آل عمران ۱۹۵)
اس سے بڑھ کر عورت کا اور کیا حق ہو کہ اللہ نے جنت عورتوں (ماؤں ) کے قدموں کے نیچے رکھی ، بیوی کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلانے کا ثواب رکھا ، مرد کی کمائی میں عورت کا حصہ رکھا اور عورت کی کمائی کی صرف وہ مالک ہے۔
اسلام نے تو عورت کو ایسے حقوق دیئے ہیں اب اگر ان پر مسلمان عمل نہ کریں تو اسلام کا تو کوئی قصور نہیں ہے ، یہ ایک فرق ہے جس کی وجہ سے غیر مسلم مسلمانوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، اسلام نے عورتوں کو مردوں کے مساوی نہیں بلکہ مردوں سے زیادہ حقوق دیے ہیں۔ اور ان موم بتی مافیا ، دیسی لبرل خواتین وحضرات جن حقوق کی بات کرتے ہیں اصل میں وہ ان کی تذلیل ہے، اسلام میں مرد وعورت ایک انسان ہونے کے ناطے برابر ہیں، لیکن ا ب ان کے واجبات کی ادائیگی اور حقوق وفرائض الگ الگ ہیں۔
الغرض اسلام نے اسے وہ سب کچھ دیا جس کی وہ حقدار تھی یہ الگ بات ہے کہ ہماری خام خیالی میں وہ عورتوں پر ظلم ہو ،مگر حقیقت کسی کے خیال سے نہیں بدل سکتی ۔ البتہ اسلام اسے صرف انہی باتوں سے روکتا ہے جن سے ان کی نسائیت پر حرف آتا ہے۔ اور جو اس کے شایان شان نہیں اور اس کی فطرت کے خلاف ہیں۔

You may also like

Leave a Comment