(مولانا) سراج اکرم ہاشمی (افریقہ)
آج کل روزانہ ایسی تحریریں نظر سے گزرتی رہتی ہیں جن میں زعمائے قوم ،علمائے امت اور قائدین کرام کومختلف مشورے دیےجاتے ہیں، یا انھیں(احتساب کے نام پر) کوسا جاتا ہے،کوئی مہتمم دارالعلوم دیوبند سے کہتا ہے کہ "مدارس کے تعلیمی نظام اور دورانیہ کومعاصر تعلیمی دورانیےسے ہم آہنگ کیا جائے”، کوئی”صدر بورڈ”سے مخاطب ہےکہ "اشتعال انگیز ریلیوں اور کانفرنسوں کے بجائے ہم احتساب،حکمت عملی،مصلحت پسندی،انصاف پسندی اورتدبر سے کام لیں”، کوئی بےچارہ جمیعت وجماعت پر اپنا بخار اتار رہا ہے اور بعض شتر بے مہار،آزاد رو،لسّان اورکوتاہ اندیش تو یہاں تک لکھ رہے ہیں کہ "یہی ہندوستانی علما ہیں جن کے اندر کشادہ دلی نہیں ہے،دینی تقاضوں کا فہم نہیں ہے،دور بینی نہیں ہےاور جنھیں مستقبل کے خطرات کا احساس تک نہیں ہے”ـ
معلوم نہیں ہماری قوم دخل در معقولات کی عادی کیوں ہو گئی ہے؟انھیں اپنے قائدین کو نیچا دکھانے،ان پر کیچڑ اچھالنےاور بے جا(مفت کا) مشورہ دینے میں اتنا مزہ کیوں آتا ہے؟جب کہ بے مانگے مشورہ علامات قیامت اور قائدین کی جائز امور میں عدم اطاعت،عصیان ونافرمانی اور گناہ کبیرہ ہے،ان کی ہتک عزتی اور توہین تو کسی صورت میں رواہی نہیں ۔
حضرت مولاناسید محمدرابع حسنی ندوی دامت برکاتہم نے بالکل صحیح لکھا ہے کہ:
"ہمارے موجودہ عہد کاایک بڑافتنہ ملت اسلامیہ کاانتشاراوربے مقصدیت ہے، دوسرافتنہ ہرکس وناکس کاشوق قیادت ہے، ہماری ملت اسلامیہ میں یہ شوق مرض کی حیثیت اختیارکرگیا ہے، قیادت کے خواہش مند خواہ قیادت کی معمولی صفات وخصوصیات سے بھی عاری یوں؛ لیکن اس کام کوپورے شوق وجوش سے اپناتے ہیں، اس کی وجہ سہ امت قیادتوں میں الجھ کررہ گئی ہے، اوراس میدان شوق میں ہمارے نوجوان بھی اپنے ذوق کے بقدر حصہ لیتے رہتے ہیں، جومیدان زندگی میں نئے نئے داخل ہوئے ہوتے ہیں اوران کے پاس تجربات کے معاملے میں جوش کاسرمایہ زیادہ ہوتاہے،نتیجہ یہ ہوتاہے کہ ہوش کے موقع پر بھی جوش سے مسئلہ حل کرنے کارویہ اختیارکرتے ہیں، یہ بات خطرے کی خاص علامت بن گئی ہے "ـ (ماہنامہ ارمغان، جولائی 2017)
اگر ہم لوگ قائدین کرام سے اپنی منوانے کے بجائے ان کی ماننا شروع کردیں تو:
یہ لوگ بدل سکتے ہیں تاریخ کا دھارا
جمعیت ہو یا جماعت،بورڈ ہو یا دیوبند، ہر جگہ ایسے افراد
موجود ہیں جن کی علمی رفعت وعظمت،سیاسی بصیرت اورملک وملت کی خدمت ومحبت ہم ناقدین سے کہیں زیادہ ہے،اگر ہم لوگ اپنے دائرۂ کار اور شعبے میں محصور رہیں،اسی شعبے کے فرائض کو پہچانیں اور حقوق کو نظرانداز کریں،تو اس طرح کے حالات ہرگز پیش نہیں آئیں گے،بحیثیت عوام ہمارا کام اپنے قائدین کی اطاعت وفرماں برداری ہےنہ کہ ان کی خردہ گیری وعیب جوئی اور مفت کا مشورہ، سچ فرمایاہے حضرت تھانوی رح نے: "ہرآدمی مقتدابنناچاہتاہے تومقتدی کہاں سے آئیں گے "ـ
مجھے اس موقع پر ایک مدرس کی بات یاد آتی جو وہ ہمیشہ اپنے طلبا سے کہا کرتے ہیں کہ "بھائی! ہم دونوں انسان ہیں،دونوں طرف غلطیوں کے امکانات ہیں،حسن معاشرت اور ترقی کا راز یہ ہےکہ ہم میں سے ہر ایک دوسرے کی خامیوں کو نظرانداز کرے اور اس کی خوبیوں پرنظر رکھے،تمھارے ذہن ودماغ میں یہ بات ہونی چاہیے کہ ہمیں آپ سے بہتر استاد نہیں مل سکتا، اور ہمارا تصور یہ ہو کہ ہمیں تم سے اچھے طلبا نہیں مل سکتے؛ کیوں کہ فرمان نبوی(صلی اللہ علیہ وسلم) ہے:”ہر آنے والا کل، گزرے ہوے کل سے برا ہوگا "ـ اگر کبھی خدانخواستہ واقعی مجھ سے کوئی چوک، بلکہ ظلم بھی ہوجائے تو بھی خدارا میرے خلاف بدزبانی نہ کرنا کہ اس میں تمھاراہی فائدہ مضمر ہے،کل قیامت میں جس طرح میری چوک کا حساب ہوگا، تمھاری زبان درازی اور عدم اطاعت پربھی گرفت ہوگی،اگر اس شعر کو اپنی زندگی کا اصول بنالوگے تو تمھیں کبھی کوئی شکایت نہ ہوگی:
وہ جفا کرتے رہے اورہم وفا کرتے رہے
اپنا اپنا فرض تھادونوں اداکرتے رہے