Home خاص کالم یوپی کے نتائج کو گجرات میں بھنانے کی کوشش

یوپی کے نتائج کو گجرات میں بھنانے کی کوشش

by قندیل

یوپی کے نتائج کو گجرات میں بھنانے کی کوشش

 

اشرف عباس
استاد دارالعلوم دیوبند 
گجرات کا حالیہ الیکشن بی جے پی اور اس کے دونوں سپہ سالار مودی اورشاہ کے لیے وقار کا سوال ہے،بی جے پی کو یہ فکر بھی ستارہی ہے کہ جس گجرات ماڈل کی دہائی دے کراس نے دہلی کے تخت پر قبضہ کیا تھا؛وہی گجرات اس کے لیے شکست کا نقطہ آغاز نہ بن جائے،اس لیے گجرات فتح کرنے کے لیے تمام حربے آزمائے جارہے ہیں،اور پارٹی میڈیا کا استعمال کرکے غلط حقائق پیش کرنے میں بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتی ہے۔
اسی ضمن میں یوپی کے حالیہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج بھی اس طرح ہیش کیے جا رہے ہیں جیسے کہ اس نے یوپی میں بڑا تیر مارلیا ہو،اور مخالف امیدوار چاروں شانے چت ہوگئے ہوں۔حد تو یہ ہے کہ وزیر اعلی یوگی نتائج کے بعدمودی کے پاس پہنچ کر کامیابی پر مبارکباد وصول کرتے ہیں،پارٹی رہنما اسے گجرات میں بھنانے کی کوشش کرتے ہیں، اور خود وزیر اعظم بھروچ کی ریلی میں بڑے فخر سے ان نتائج کی طرف اشارہ کرتے ہیں،اور کچھ مقامی گجراتی اخبارات بھی اس کو بڑھا چڑھاکر پیش کررہے ہیں۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ چودہ مئیر کی سیٹ جیتنے کے باوجود پچھلے الیکشن کے مقابلے میں اس بار بی جے پی کے ووٹ کا تناسب گھٹ گیاہے۔اور شہروں کو چھوڑکر وہ ہرجگہ دوسرے نمبر پر کھسک گئی ہے۔
چنانچہ نگر پنچایت چیرمین کی۴۳۸سیٹوں میں سے بھاجپا صرف ۱۰۰ سیٹ جیت پائی اور اسے ۳۳۷ سیٹ پر شکست کا سامنا کرناپڑا، نگر پنچایت ممبروں کی کل ۵۴۳۴سیٹوں میں سے بھاجپا صرف ۶۶۲ سیٹ پر ہی کامیاب ہوسکی،یعنی کامیابی کا تناسب فقط ۲۲،۱۲ فی صد ہے،جب کہ ۴۷۲۸ سیٹوں پر اسے شکست کی ذلت سہنی پڑی، نگر پالیکا پریشد چیرمین کی کل ۱۹۸ نشستوں میں سے بھاجپا صرف ۶۸ نشستیں حاصل کرسکی،جب کہ ۱۲۷ نشستوں پر اسے ناکامی ہاتھ لگی، نگر پالیکا پریشد ممبر کی کل ۵۲۱۷ نشستیں تھیں جن میں سے بی جے پی صرف۹۱۴ جیت پائی، باقی۴۳۰۳ پر شکست ہی اس کا مقدر بنی۔اس طرح یہ صاف ہے کہ بی جے پی کی جیت کا فیصد ۲۵ سے بھی کم ہے۔
ََفائنانشیل ایکسپریس نے ان اعدادو شمار پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھاہے کہ کنفیوزن ختم ہوکر یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ یوپی کے بلدیاتی الیکشن میں زعفرانی پارٹی کو سب سے زیادہ سیٹیں نہیں ملی ہیں۔
اس کے علاوہ یہ بھی قابل غور ہے کہ شہری علاقوں پر پہلے سے ہی بی جے پی کا دبدبہ رہاہے، سماجوادی سرکار میں بھی اس نے میئرکی دس نشستوں پر اپنا پرچم لہرایاتھا،اس بار جب کہ ہر سطح پر بی جے پی کی ہی سرکار ہے چار نشستوں کا اس میں اضافہ ہوگیا ہے،اس کے ساتھ یہ بھی ذہن میں رہے کہ بلدیاتی انتخابات کبھی توجہ کا مرکز نہیں بنتے،مقامی لیڈران ہی ان میں پیش پیش ہوتے ہیں،چنانچہ اپوزیشن کے صف اول کے لیڈران راہل، اکھلیش یا مایاوتی نے عملا حصہ نہیں لیا، جب کہ بھاچپا نے پوری طاقت جھونک دی اور خود سی ایم یوگی نے شہر شہر گھوم کر انتخابات کا پرچار کیا،اس کے باوجود اپنی پارٹی کواتنی سیٹ نہ دلاسکے جتنی آزاد امیدواروں نے حاصل کرلی۔
بلکہ اگر گہرائی سے جائزہ لیاجائے توواضح ہوجاتا ہے کہ تینوں ٹاپ لیڈر یعنی وزیراعظم، وزیر اعلی اور نائب وزیر اعلی کے گڑھ اورحلقہ انتخاب میں بھی بی جے پی کوپچاس فیصد سیٹ بھی حاصل نہیں ہوسکی، چنانچہ وزیر اعظم مودی کے لوک سبھا حلقے وارانسی سے بھاجپا نے مئیر کی سیٹ جیت لی ، تاہم میونسپل کی ۹۰ میں سے محض ۳۰ پر اسے کامیابی ملی، وزیر اعلی کے گورکھپور سے سیتارام جیسوال مئیر منتخب ہوئے ہیں لیکن میونسپل کارپوریشن میں ۷۰ کونسلرس کی سیٹیں ہیں، جن میں ۲۸ بھاجپا کے ہیں جو صرف چالیس فیصد ہیں،یوگی کے وارڈ ۶۸ سے آزاد امیدوار نادرہ خاتون نے شاندار کامیابی حاصل کی ہے۔ ریاست کے نائب وزیراعلی اور پارٹی کے نائب صدرکیشوپرساد موریہ کے ضلع کوشامبی کی تمام چھ میونسپل پنچایت سیٹوں پر بی جے پی کو ذلت آمیز شکست کاسامنا کرنا پڑاہے۔
ان سب کے علاوہ یہ تلخ حقیقت بھی سامنے رہے کہ بھگوا پارٹی نے اچھی کارکردگی صرف مئیر کی سیٹوں پر دکھائی ہے جہاں الیکٹرونک مشین سے ووٹ ڈالے گئے ہیں، اس لیے بہت سے اپوزیشن لیڈران اس کامیابی کو بھی مشین میں کی جانے والی گڑبڑی کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں، اگر ایسا ہے تو یہ جمہوریت کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔
بہ ہر حال یوپی الیکشن کی مجموعی صورت حال ایسی نہیں ہے کہ بی جے پی اس کا پروپیگنڈہ کرکے گجرات میں کچھ حاصل کرسکے، جہاں اسے تیزی سے اپنی زمین کھسکتی نظر آرہی ہے۔
امید ہے کہ گجرات میں ای وی ایم کا کوئی کرشمہ ظاہر نہیں ہوگا اور صحیح نتائج سے سیکورلر طاقتوں اور انصاف پسند عوام کو راحت کی سانس لینے کا موقع ملے گا

 
 

You may also like

1 comment

ABDULBARI QASMI 8 دسمبر, 2017 - 03:36

بہت خوب تحریر

Leave a Comment