Home ستاروں کےدرمیاں  ہیں گوہرِ نایاب نایاب حسن

 ہیں گوہرِ نایاب نایاب حسن

by قندیل

 ہیں گوہرِ نایاب’’نایاب حسن‘‘
لقمان عثمانی
مضمون نگاری و انشا پردازی صنف ادب کا ایک ایسا جز ہے؛ جس کے ذریعے انسان اپنے فکرو خیالات، قلبی احساسات، دلی جذبات و ذہنی تاثرات کو قوس قزح کے حسین امتزاج کے ساتھ پیش کرنے ،کسی موضوع کے متنوع و متلون جہات کو خوش اسلوبی کے ساتھ بیان کرنے پر قادر ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ ماہراہلِقلم کسی معمولی سے موضوع کو بھی اپنے عمدہ طرز نگارش سے ا ہم بنادینے، کسی غریب زادی کو اپنے قلم کی جود و سخا سے شہزادی بنا کر پیش کرنے اور کسی غیر مناسب بات کو بھی اپنے سلیقۂ گویائی سے مناسب بنا کرپیش کرنے کا ہنر رکھتے ہیں؛ جبھی توکلیم عاجز صاحب نے کہاہے:
بات چاہے بے سلیقہ ہو کلیم
بات کہنے کا سلیقہ چاہیے!
لیکن اس ہنرمندی و چابکدستی کی صلاحیت ہر کس و ناکس کے قلم کے حصے میں نہیں آتی؛ بلکہ یہ ایک نعمتِ خداوندی ہے؛ جسکے حصول کے لیے جہدِ مسلسل بھی چاہیے اور سعیِ پیہم بھی؛ کیونکہ:
ساراکلیجہ کٹ کٹ کے جب اشکوں میں بہہ جائے ہے
تب کوئی فرہاد بنے ہے،تب مجنوں کہلائے ہے!
میری کوتاہ بیں نگاہوں میں ایک ایسے ہی پنہاں و نا دیدہ جوہری کی تصویر ہے، جس نے آبشارِفنکاری و سلیقہ شعاری سے خوب سیرابی و شادابی حاصل کی، جس نے اپنی تحریری صلاحیت و تخلیقی لیاقت پر خوب داد و تحسین بٹورے، جس کے نوک قلم سے نکلنے والے تحقیقی، تاثراتی و تجزیاتی مضامین نے مختلف اخبارات و رسائل کو زینت بخشا اور ملک و بیرونِ ملک کے اردو داں و اہل دانش و بینش جس کی تحریر و انشا سے حد درجہ متاثر ہوئے، وہ شخص نہیں، شخصیت دارالعلوم دیوبند سے ماضی قریب کے فارغ التحصیل، بہار کے ضلع سیتا مڑھی کے قابل فخر سپوت، ’’ورق ورق درخشاں‘‘، ’’دارالعلوم دیوبندکا صحافتی منظر نامہ‘‘ اور ’’عکس و نقش‘‘ جیسی کتابوں کے مصنف و مؤلف اور سینکڑوں علمی،ادبی،سماجی و سیاسی مضامین و مقالات کے تخلیق کار، دورِ حاضر کے نئے قلم کاروں و تجزیہ نگاروں کی لمبی قطار و خاصی تعداد میں نمایاں، ستاروں کے جھرمٹ میں چاند کی طرح اپنی انفرادیت کا احساس دلانے والے ممتاز صاحب قلم ’’نایاب حسن‘‘ کی ہے؛ جنکے افکار میں قوت، اظہار میں ندرت، خیالات میں وسعت، تشبیہات میں جودت، استعارات میں جدت، تعبیرات میں لطافت، تخیلات میں طراوت، تحریر میں سلاست، مزاج میں استقامت، انداز میں نزاکت اور طبیعت میں متانت ہے اور یہ سب باہم آمیز ہو کران کی انفرادی شان کی علامت ہے،جوانھیں ’’گوہرِ نایاب‘‘ بناتی ہے۔
یوں تو میں نے جناب موصوف کے کئی سارے مضامین پڑھے ہیں اور خوب استفادہ بھی کیاہے؛ لیکن میرے دل میں ان کی اصل قدر دانی اس وقت ہوئی جب میں نے انکی انتھک محنتوں کے نتیجے اور خوبصورت کاوشوں کے ثمرے میں، حال ہی میں منظر عام پر آنے والی تحقیقی، تجزیاتی و تاثراتی مضامین پر مشتمل عمدہ ترین کتاب:’’عکس و نقش‘‘کو پڑھنا شروع کیا،جس میں انہوں نے دلکش اسلوب، وجد آگیں تعبیرات، دل نشیں محاورات، دل پذید تشبیہات اور دل آویز الفاظ کے ساتھ اپنے علمی کمالات و قلمی خصوصیات کے جوہر دکھائے اور بعض اہم شخصیات کا تعارف کروایااور ان کے علمی و عملی کارناموں پر اس قدر حسن و خوبی اور جادو بیانی کے ساتھ خامہ فرسائی کی ہے کہ اسکی ہر سطر اگلی سطرپڑھنے پر مجبور کرتی اور ہر مضمون اگلے مضمون کے مطالعے پر ابھارتا ہے، یہ کتاب ان کے ادبی اسلوب کی چاشنی، انکی قلمی صلاحیت کی بلند قامتی و ذہنی افق کی وسعت کا پتا دیتی اور کم عمری میں ہی تخلیق و تحقیق کے اس مقام پرپہنچنے کا احساس دلاتی ہے، جہاں تک پہنچنے کے لیے اک عمرِ دراز درکار ہوتی ہے۔

You may also like

Leave a Comment