اشوک واجپئی(ہندی کے معروف شاعر،ادیب،تخلیق کار،ناقدوکالم نگار)
یہ ایک خوش آیند امر ہے کہ اس وقت ملک بھر میں پائے جانے والے ظلم وقتل کے ماحول کودور کرکے امن و امان قائم کرنے کی سماجی کوششیں بھی ہورہی ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ اس طرح کی کوششیں ہمارے علم میں نہیں آپاتیں یالوگ ان پر دھیان نہیں دیتے۔’’امن برادری‘‘کے ہرش مندر اور معروف سماجی کارکن ارونا رائے کی دعوت پر راجستھان کے راجسمند جانا ہوا،جہاں اسی قسم کی ایک سماجی پہل کی شروعات ہوئی ہے،وہاں کچھ دنوں پہلے ایک مسلمان ٹھیکیدار کو نہایت بے دردانہ طریقے سے قتل کردیاگیا تھااور قاتل کے چودہ سالہ بیٹے نے اس پورے سانحے کی ویڈیوبناکر سوشل میڈیاپروائرل کی تھی۔اب اس بارے میں جو حقائق سامنے آئے ہیں،ان سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ مارے گئے اور مارے جانے والے کے بیچ کوئی رنجش تھی یا اسے قتل کرنے کی اس کے پاس کوئی معقول وجہ تھی؛بلکہ اس شخص نے تو اپنے شکار کوپہلی ملاقات میں ہی قتل کردیا اور قتل کرنے کے لیے بھی محض ایک ہتھیار استعمال نہیں کیا؛بلکہ مارنے کے بعد پٹرول چھڑک کر اس کو نذرِ آتش بھی کردیا،ایسا کہاجارہاہے کہ قاتل کے اہلِ خانہ کو اس بے وجہ وحشیانہ قتل پر کوئی افسوس بھی نہیں ہے،یہ صورتِ حال کئیوں کے لیے اپنے وجود کے انتہاپسندانہ اصرار کی روایت بنتی جارہی ہے،یہ بھی خوفناک امرہے کہ ایک بچہ اس قسم کے بہیمانہ واقعے کی ویڈیوبنائے اور اسے سوشل میڈیا پر پھیلائے۔
راجسمندکے گاندھی کمپلیکس میں سماج کے چنیدہ افراد کی مجلس میں جو بات چیت ہوئی،اس میں مختلف طبقات کے لوگ شامل ہوئے،جن میں اساتذہ،قلم کار،صحافی،سماجی کارکن،عورتیں،اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے والے اور دوسرے لوگ بھی شامل تھے۔اپوروانند جیسے مقرروں نے اس بات پر زور دیا کہ قتل و ظلم کا یہ ماحول جن سماجی و سیاسی طاقتوں کے ذریعے پھیلایاگیا ہے،جب تک انھیں اقتدار سے بے دخل نہیں کیاجاتا،اس وقت تک اس کا کوئی حل نہیں نکل سکتا،قتل کے حادثات کے موقعے پر عام شہریوں کی بزدلانہ خاموشی کا بھی ذکر ہوا،ایسی تجویزیں سامنے آئیں کہ پائیدار امن کے قیام کے لیے شہریوں کا پینل بنایا جائے، جو ہمیشہ بیدار اور سرگرم رہیں اور جہاں کوئی ایسا حادثہ رونما ہو،تو فوراً اس کی کھل کر مخالفت کی جائے،متاثرین کے یہاں پہنچ کر انھیں دلاسہ دیں،انتظامیہ پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اپنی ذمے داری نبھائے اور اس کی جوابدہی پر اصرار کریں،یہ بھی کہاگیا کہ بڑے تیوہاروں کے موقعوں پر سبھی مذاہب کے لوگ مدعو کیے جائیں ؛تاکہ ایک دوسرے کے مابین پائی جانے والی دوری کو ختم کیا جاسکے ،اس پینل میں ہر مذہب و طبقہ کے نمایندوں کو شامل کرنے کی تجویزبھی پیش کی گئی۔ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ پہل کتنی کامیاب ہوگی؛لیکن چوں کہ یہ ملک کے سنجیدہ عوام کی طرف سے کی جارہی ہے؛اس لیے امید کی جانے چاہیے کہ یہ دیر تک چلے گی،امن کے لیے اقدام اور باہمی نفرت و عداوت اور قتل و غارت گری کے رجحان کو قابوکرنے کاکام اب اورنہیں ٹالا جاسکتا،ورنہ ہماری جمہوریت،سماجی وتہذیبی روایات،آزادی،مساوات اور انصاف کی جدوجہد کو بہت نقصان پہنچ جائے گا۔
جمہوریت کی درس گاہ:
ارونا رائے،نکھل ڈے وغیرہ مل کرایک’’لوک تنترشالا‘‘(درس گاہِ جمہوریت)چلاتے ہیں ،اس کے حالیہ اجلاس میں ملک بھر سے آنے والے چالیس پچاس لوگوں کے ساتھ کچھ وقت گزارنا تھا؛لیکن موقع نہ ہونے کی وجہ سے ان کے سینٹر میں جانا ممکن نہیں ہوسکا،تو وہیں راجسمندمیں کچھ دیر ان سے گفتگو ہوئی۔اس وقت ہمارے ملک میں جمہوریت اور مذاہب کے بیچ جو غیر ضروری تناؤ ہے،اس میں مزید تلخی آتی جا رہی ہے،میری برسوں سے یہ رائے رہی ہے کہ مذہب کسی انسان کا نجی معاملہ ہے،یہ سوچ کر اس کی اندیکھی نہیں کر سکتے،مذہب ہمارے یہاں سماجی ہیئت کا حصہ ہے اور اب تو وہ بری اور پوری طرح سے سیاست میں بھی دخل انداز ہوگیا ہے۔ ہمارے درمیان مذہب کاباقاعدہ نظریاتی و سماجی وجود ہے؛چنانچہ اجتماعی زندگی میں اس کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا،ہندوستان کے کئی مذہبی سربراہ جرائم،تجارت وغیرہ میں بھی سرگرم ہیں اور اس وقت ہندوستانی سماج میں جو نفرت و عداوت اور قتل وغارت گری پھیل رہی ہے،عام طور پر اس کی پشت پناہی بھی مذہبی سربراہ کررہے ہیں۔ایسی صورت حال میں اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے کہ عام طورپرہمارے یہاں کسی بھی مذہب (کے نمایندوں) یا مذہبی نظام میں جمہوریت نہیں ہے،ان کے مابین اس پر کوئی بحث مباحثہ ہوتا ہو،اس کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ہمارے دستوری سیکولرزم کا یہ ایک المیہ ہے کہ اس کے ہونے کے باوجود سیاسی جماعتوں،مذہبی نظام اور طبقاتی و نسلی تفریق کی وجہ سے سماج میں حقیقی جمہوریت کا فقدان ہے،اسی وجہ سے یہ کہنا درست ہوگا کہ جمہوریت کو ہمارے یہاں شروع سے ہی خطرات لاحق رہے ہیں،دستور میں تو یہ خواب دکھایاگیا ہے کہ ہم سیاسی ہی نہیں،معاشی و سماجی جمہوریت بھی قائم کریں گے،مگریہ خواب تاہنوز شرمندۂ تعبیر ہوتا نظر نہیں آتا،ہمارے دستور میں آزادی،مساوات اور سماجی عدل و انصاف کی جو تصویر پیش کی گئی ہے،وہ بھی حقیقت سے دور ہے،غنیمت ہے کہ یہ دستور اب بھی بچا ہوا ہے ،حالاں کہ اسے تباہ و برباد کرنے کی کوششیں روز ہورہی ہیں۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جمہوریت سیاسی،سماجی،معاشی وروحانی سچائی کے احیاوبحالی کی کوشش کانام ہے،اسے زیادہ سے زیادہ انسانیت نواز،زیادہ سے زیادہ مساویانہ،زیادہ سے زیادہ آزادی دینے والا،زیادہ سے زیادہ انصاف پسنداور زیادہ سے زیادہ سے زیادہ ذمے دار و جواب دہ بنانے میں ظاہر ہے کہ وقت لگتا ہے،مگر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہندوستان میں یہ کوشش شروع ہوئے لگ بھگ ستر سال ہوچکے ہیں ،جو ایک لمبی مدت ہے،سیاست میں تو آدھی ادھوری،اچھی یا بری جمہوریت پائی بھی جاتی ہے،مگر سماج،مذہب اور معاشیات کے شعبوں میں اس کی رفتار نہایت سست ہے،ہمارے مذہبی سربراہوں میں تو خیر سرے سے جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں ہے،ہمارے کسی مذہبی سربراہ نے کبھی آزادی،برابری،انصاف کے اصول کی اور دستور کی حمایت یا وکالت کی ہے؟دلائی لاماکے علاوہ کوئی نہیں ہے،جو بڑھتے مظالم کے خلاف کوئی پبلک اسٹینڈ لیتا ہو،سچ تو یہ ہے کہ مذاہب جمہوریت سے پیچھے رہ گئے ہیں اور ان(کے بہت سے ماننے والوں) میں جو ظالمانہ انتہا پسندی کے رجحانات بڑھ رہے ہیں،وہ جمہوریت مخالف ہے،ہندوستان اس وقت تک پوری طرح سیکولر نہیں ہوسکتا،جب تک کہ ہمارے مذاہب کھل کراور حسبِ گنجایش اپنے یہاں کچھ ترامیم کرکے جمہوریت کو آگے بڑھانے کی مہم میں شامل نہیں ہوتے۔
(ترجمہ:نایاب حسن)
ہندوستانی جمہوریت :حال اور مستقبل
previous post