Home خاص کالم ہندوراشٹرکی سمت میں…

ہندوراشٹرکی سمت میں…

by قندیل


کرسٹوفرجیفرلوٹ
گائے سے متعلق لنچنگ کے سانحات کو عموماً میڈیامیں بھیڑکے ذریعے اچانک یا حادثاتی طورپر رونماہونے والے ایسے واقعات سے تعبیر کیاجاتاہے،جن میں کچھ عام لوگ بھی شریک ہوجاتے ہیں؛حالاں کہ ایسے مجرموں کی فکری ونظریاتی وابستگی کا اندازہ اس سے بھی لگایاجاسکتاہے کہ عام طورپر وہ جنھیں اپنا شکار بناتے ہیں،انھیں ’’گؤماتاکی جے‘‘یا’’جے ہنومان‘‘کے نعرے لگانے پر مجبور کرتے ہیں۔یہ تو گؤرکشاکے سلسلے میں پکڑے جانے والوں کی تذلیل و اہانت کا ادنیٰ درجہ ہے،جبکہ پہلوخان پرحملہ کرنے کے واقعے میں جس طرح سے گؤرکشکوں نے ٹرک ڈرائیور(جوہندوتھا)کوبس ہلکے تھپڑلگاکر چھوڑدیا،جبکہ بقیہ لوگوں کو بری طرح زدوکوب کیا،حتی کہ ان میں سے ایک کوموت کے گھاٹ اتاردیا،اس سے ان لوگوں کی مسلم دشمنی واضح ہوکر سامنے آتی ہے۔اہم بات یہ بھی ہے کہ2015ء سے 2018ء کے بیچ رونما ہونے والے زیادہ ترلنچنگ کے واقعات یاتوان گؤرکشک ملیشیاکے ہاتھوں رونما ہوئے ہیںیا سوشل میڈیاپر انہی لوگوں کے ذریعے بنائے گئے نفرت انگیز ماحول کے نتیجے میں رونما ہوئے ہیں۔
اس سلسلے میں سب سے نمایاں ہندونیشنلسٹ تنظیم’’گؤرکشادل‘‘ہے اور پنجاب،اترپردیش،راجستھان،ہماچل پردیش،گجرات،مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، گوا،دہلی اور ہریانہ میں اس کی شاخیں قائم ہیں،ہریانہ اس کی سرگرمیوں کا ایک مضبوط مرکزہے،یہاں کے گؤرکشادل کے لوگو میں گائے کے سرکودوAK47کے دائرے میں محفوظ کیاگیاہے،جبکہ دوسرے مقامات پراس کے لوگومیں اے کے سینتالیس کی جگہ دوخنجر ہوتے ہیں،جبکہ عملی طورپر اس کے ممبران مختلف قسم کے آلات جیسے بلا،ہاکی اور لاٹھی وغیرہ استعمال کرتے ہیں۔
ہریانہ میں گؤرکشادل اور پولیس کی حیثیت دوالگ الگ شعبۂ عمل کی ہے،ہریانہ گؤرکشادل کے صدریوگیندرآریہ نے ایشان مارویل کو(جنھوں نے 2016ء میں ’’ماں کے نام پر‘‘کے عنوان سے دی کارواں کے لیے تفتیشی رپورٹ تیار کی تھی)بتایاتھاکہ’’یہاں ہمارے رضاکاروں اور خبررساں افراد کا مضبوط نیٹ ورک ہے،جیسے ہی کوئی مشتبہ واقعہ پیش آتا ہے،وہ ہمیں مطلع کردیتے ہیں،پھر ہم متعلقہ ضلع کے اپنے رضاکاروں اور مقامی پولیس کوخبر دیتے ہیں اور وہ مل کر اسمگلرکوپکڑنے کے لیے چیک پوائنٹس بناتے ہیں،جوہم کرتے ہیں وہ پولیس والے نہیں کرسکتے،انھیں تو قانون کے مطابق قدم اٹھانا پڑتاہے ،ان کے پاس اتنے وسائل اور نیٹ ورک بھی نہیں ہیں،جتنے ہمارے پاس ہیں‘‘۔گویا گؤرکشادل باقاعدہ کلچرل پولیس کی شکل اختیار کرچکی ہے،جس کے ممبران ایسے لوگوں پر کڑی نگاہ رکھتے ہیں،جن کی رپورٹنگ کی جانی ہے یاجنھیں سزادی جانی ہے۔ہریانہ میں تو’’گؤٹاسک فورس‘‘کی تشکیل کے ذریعے رسمی یعنی ریاستی پولیس کے بالمقابل غیر رسمی پولیس کا ایک دوسرامحکمہ قائم کردیاگیاہے،ایک آئی پی ایس افسر اس پورے نیٹ ورک کا ذمے دارہے،جبکہ ہر ضلع میں اس کے مخصوص افسران کام کرتے ہیں،یہ افسران مبینہ طورپر گؤ رکشا دل کے ارکان کے ساتھ مل کرکام کرتے ہیں،بعض علاقوں میں سرکار ان غیر ریاستی کرداروں کے ذریعے پولیس کاکام لیتی ہے اور انھیں نیم ریاستی فورس کا درجہ دے دیتی ہے۔
دوسری ریاست مہاراشٹر ہے ،جہاں2015ء میں قانون کے ذریعے بیف پر پابندی لگائی گئی ہے اور وہاں بھی اس حوالے سے تقریباً اسی قسم کے اقدامات کیے گئے ہیں،حکومت نے جانوروں کی فلاح و بہبود کے لیے اعزازی افسران بحال کیے ہیں،جن کاکام ہے کہ وہ ریاست میں اس قانون کو نافذ العمل بنائیں اور اس مہم میں سابق گؤرکشکوں کی ’’خدمات‘‘حاصل کی گئی ہیں۔
ہریانہ میں تو گؤرکشکوں اور ریاست کے مابین اس سے بھی زیادہ سانٹھ گانٹھ ہے،ہریانہ سرکارکے ذریعے گایوں کی فلاح و بہبود کے لیے تشکیل کردہ ’’گؤسیواآیوگ‘‘کے بورڈ پر ’’گؤرکشادل‘‘کے قومی نائب صدریوگیندرآریہ کی تصویر لگائی گئی ہے،جبکہ اس بورڈپر دیگر دس ایسے لوگوں کی تصاویر ہیں،جو پرانے سنگھ ممبرزہیں،ہریانہ میں اس حوالے سے سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے مابین کوئی خاص فرق نہیں رہ گیاہے۔
ان تبدیلیوں نے ریاست کی تشکیلِ نو کے حوالے سے نئی حرکیات کو جنم دیاہے،جیساکہ Bruce BermanاورJohn Lonsdaleکی تحقیقی تصنیفThe Unhappy Valleyمیں ان کی توضیح کی گئی ہے،برمن اورلانس ڈیل نے ریاست کی تشکیل اور ریاست کی تعمیر میں فرق کرتے ہوئے اول الذکر کو ایک سماجی ادارہ قراردیاہے اور ثانی الذکر کوایک انتظامی عمل،اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ ریاست کی تعمیر کا تعلق صرف ریاستی ایجنٹس اور ان کے عمل سے ہوتا ہے،برمن اور لانس ڈیل ان پرائیویٹ کرداروں کابھی ذکر کرتے ہیں،جواختیارات کی توسیع کے ذریعے ریاست کی تشکیل میں اپناراستہ نکالتے ہیں،جس میں زیادہ سے زیادہ مخصوص اغراض کے حصول کے لیے عوامی اتھارٹی کوبڑھاوا دینا بھی شامل ہے۔اس نقطۂ نظرمیں ہندوگؤرکشک گروپس اورریاست سے ان کے تعلقات کے تجزیہ کے حوالے سے واضح رہنمائی پائی جاتی ہے۔
پولیس اور ہندونیشنلسٹ تحریکوں کے مابین پائی جانے والی ملی بھگت اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک ایسی ریاست ،جس میں انتظامیہ اور پولیس ہر شہری کے ساتھ برابرسلوک کرنے کی مکلف ہوتی ہیں،اس کی تعمیر کا عمل ایک ایسی ریاست کی تشکیل کے عمل میں بدل چکاہے،جہاں غیر ریاستی اکثریت پسند عناصر تمام شہریوں پرایک قسم کا سماجی و ثقافتی قانون تھوپنا چاہتے ہیں۔برمن اور لانس ڈیل کے ماڈل کی پیچیدگی میں ایک اورپرت کا اضافہ یہ ہے کہ ہندوستان میں ایسے غیر ریاستی عناصر کوسرکاری سرپرستی و تحفظ حاصل ہے۔باوجودیکہ انھیں جو اختیارات حاصل ہوتے ہیں،وہ غیر قانونی ہیں،مگر حکومت انھیں جوازفراہم کرتی ہے؛کیوں کہ وہ معاشرے کے غالب حصہ،جس کی حکومت ذمے دار ہے،کے اقدار و مصالح کی نمایندگی کرتی ہے،اس طرح سنگھ پریوارمتوازی حکومت کی بجاے گہرے اثرات کی حامل ایک ریاست کا درجہ رکھتاہے،خاص کر اس پہلو کودیکھتے ہوئے کہ موجودہ حکمراں پارٹی بی جے پی بھی اسی کا حصہ ہے۔ ہندوستان کا ایک غیر جانب دار ریاست سے ایک انتہاپسندہندوراشٹرمیں منتقل ہونااُس صورتِ حال کی عکاسی کرتاہے،جودنیابھر کے ان ملکوں میں دیکھی جاسکتی ہے،جہاں خودساختہ محافظینِ ملک اپنی ہم فکر قوتوں کے ساتھ مل کر اقلیتوں کوایک پراسرار معاہدے پرمجبورکرتے ہیں۔(امریکہ میں طاقت ورسفید فام ملیشیااور پولیس کے مابین پائے جانے والے رشتوں کوبھی ایک مثال کے طورپر پیش کیاجاسکتاہے)
عوامی سطح پر اور سرکاری اداروں میں سنگھ پریوار کے اثرات کے علاوہ ایک اور تبدیلی پر غور کیاجانا چاہیے،جوحالیہ دنوں میںیوں پیش آئی کہ ایک پولیس افسرنے گروپورنیماکے موقعے پریوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے آگے اپنا سرخم کیا،یہ واقعہ صرف اس وجہ سے رونما نہیں ہواکہ کہ یوگی آدتیہ ناتھ کو عارضی سیاسی اختیارات حاصل ہیں؛بلکہ اس لیے بھی رونما ہواکہ اسے ایک قسم کی’’روحانی برتری‘‘بھی حاصل ہے،ایک ایسا مرتبہ،جوکسی بھی ہندوستانی سیاسی لیڈر کوکبھی حاصل نہیں رہاہے،یہ بھی دھارمک حکمرانی کی ایک قسم کی طرف اشارہ کرتاہے۔
لنچنگ کے واقعات میں نہ صرف یہ کہ وزیر اعظم نے خاموشی اختیار کیے رکھی؛بلکہ ان کے کچھ ممبرانِ پارلیمنٹ و اسمبلی اور وزرانے لنچنگ کرنے والوں کی اعلانیہ طورپر حوصلہ افزائی بھی کی،معدودے چند ملزمین کوسزا ہوئی،مگرجہاں کہیں بھی لنچنگ کرنے والے گرفتار ہوئے،انھیں جلد ہی مقامی عدالت نے ضمانت پر رہا کردیا،اگر انتظامیہ،مقننہ اورعدلیہ کھل کرماب لنچنگ کی مخالفت نہیں کرتی ہیں،توعن قریب ہندوستان ایک ایسا ملک بن جائے گا،جہاں قانون کی پاسداری محض کاغذوں پر ہوگی،جبکہ عملی اور حقیقی طورپر یہ ایک نسل پرست ریاست ہوگی۔
ہندوراشٹرکالیبل حقیقتاًاس صورتِ حال پر حقیقی معنوں میں چسپاں ہوتاہے،جس کاتعلق ان لوگوں سے زیادہ سے ہوتاہے،جوآپس میں خونی رشتہ ،سماجی و معاشرتی یکسانیت اورایک سیاسی فریم ورک رکھتے ہیں،یہ بیک وقت ایک معاشرہ ہے،ایک تہذیب ہے،ایک قوم ہے اور ایک ریاست ہے۔اس معنی میں سنگھ پریوار ریاست کی تشکیلِ نوکے لیے کام کررہاہے،ایسے ہندوراشٹرکے قیام کے لیے کام کررہاہے،جوغیر رسمی،معاشرتی اصول و قانون پر مبنی ہوگا اوراسے رسمی ؍دستوری ریاست کا آشیرباد حاصل ہوگا،اس کے بعداگر کسی دن دستورِ ہند کو بدل دیاجائے،توپھر قانونی طورپر ہندوراشٹرکا وجود عمل میں آجائے گا۔
ترجمہ:نایاب حسن
(اصل مضمون روزنامہ ’’انڈین ایکسپریس‘‘میں 11؍اگست کوشائع ہواہے)

You may also like

Leave a Comment