Home تجزیہ ہم "ڈسپرین"نہیں کھا رہے ہیں!

ہم "ڈسپرین"نہیں کھا رہے ہیں!

by قندیل


ڈاکٹرابوبکر عباد
شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی، دہلی
(پہلی بات)
مہینوں کی تیاریوں کے بعد 15اپریل 2018کوپٹنہ کے گاندھی میدان میں’’دین بچاؤ دیش بچاؤ کانفرنس ‘‘ کا انعقاد ہوا،ایک محتاط اندازے کے مطابق شرکت کرنے والوں کی تعداد پندرہ لاکھ سے زیادہ تھی۔ کہنا چاہیے کہ اس جم غفیر نے امارت شرعیہ کی آواز اور اس کے امیر حضرت مولانا محمد ولی رحمانی کی قیادت پر لبیک کہا اور اتحاد بین المسلمین کا عملی ثبوت پیش کیاـ
پندرہ لاکھ ہجوم پر مشتمل یہ پوری کانفرنس نظم و نسق ، سلیقے، سنجیدگی، بھائی چارے اور امن و شانتی کی نایاب مثال بھی ہے، شاید پہلی بار کسی کانفرنس کے ذمہ دار(مولانا محمد ولی رحمانی ) نے شرکت کرنے والوں ، رضا کاروں ،حکومت کے عملہ ، پولس اہلکاروں ،ٹریفک پولس والوں، راستے میں پانی پلانے والوں،گھروں میں مہمانوں کو ٹھہرانے والوں اور ایسے ہی بہت سے نظر انداز کیے جانے والے افراد کا اخبار کے ذریعے شکریہ ادا کیا،ہزاروں احتجاجی جلسے جلوسوں کی خبریں پڑھنے اور سینکڑوں میں شریک ہونے کے بعد یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ یہ احتجاجی جلسہ( دین بچاؤ دیش بچاؤ ) انعقاد سے پہلے سے لے کر انعقاد کے بعد تک اپنی نوعیت کا انوکھا ، منفرد اور مثالی جلسہ تھا ـ
(دوسری بات)
15اپریل کی شام سے ہی ہمارے چند دوستوں نے سوشل میڈیا پر اس عظیم الشان جلسے کے حوالے سے جس طرح کی باتیں اور قیاس آرائیاں شروع کیں اس سے اندازہ ہوا کہ ہم لوگ ’من حیث القوم‘ بے حد جذباتی،متشدد ، جلد سے پیش تر نتیجے پر پہنچنے کے متمنی اور اپنی رائے کو ہی حتمی ،آخری اور صحیح سمجھنے میں اپنا جواب نہیں رکھتے،اپنی رائے اور قیاس کی بنیاد پر ہی امارت شرعیہ کے امیر کو ان کی علمی، دینی، تعلیمی اور سیاسی خدمات جانے بغیر انھیں غدارقوم، دین کا سودا کرنے والا، مسلمانوں کو بے وقوف بنانے والا اور میر جعفر اور میر صادق جیسے خطابات سے اب تک نوازرہے ہیں،دھمکی آمیز رویہ بھی اختیار کیا ، راز افشا کرنے میں قباحت محسوس نہ کی ،ذاتیات تک پر حملے بھی جائز سمجھےاور ملی جذبے سے سرشار ہوکر امارت شرعیہ بچانے اور وہاں تک مارچ کرنے کی تجویزیں بھی رکھیں ۔
(تیسری بات)
چلیے یہ سب تو ہم کرتے آئے ہیں، سرسید کو بے دین بتایا، گالیاں دیں، مولانا آزاد کو جوتوں کا ہار پہنایا، قاری طیب کو نہیں بخشا ،مودودی کو رد کرنے میں ساری علمی صلاحیتیں صرف کردیں، سید حامد کو چین سے نہیں رہنے دیا ، قرہ العین حیدر کو سی آئی اے کا ایجنٹ بتایا، وغیرہ وغیرہ ۔
میں دل سے قدر کرتا ہوں مولانا عبید اللہ خاں اعظمی کی ،جنھوں نے دل سے اس کانفرنس کو سراہا لوگوں کو مثبت پہلو دکھایا اور ’انقلاب‘ میں ایک مضمون تحریر کیاـ
(اہم )
آئیے اب یہ کرتے ہیں: کہ ہم جن محلوں میں رہتے ہیں وہاں ان پڑھ غریبوں کے راشن کارڈ، جاتی پرمان پتراور آدھار کارڈ بنوانے اور سرکاری اسکیمیں ان تک پہنچانے میں دل و جان سے ان کی مدد کرتے ہیں،بے قصور لوگوں کو پریشان کرنے والے پولس والوں سے سوال پوچھتے ہیں ،تھانے تک مارچ کرتے ہیں۔ علمی ، ادبی اداروں میں جو مالی اور دوسری طرح کے کرپشن ہو رہے ہیں ان کے ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کرتے اور احتجاجی تحریک شروع کرتے ہیں،اپنے ایریا میں اسٹڈی سرکل قائم کرتے ہیں، مختلف مقابلہ جاتی امتحانات کے لیے طلبہ کے بارے میں بھی کچھ سوچتے ہیں ۔

You may also like

1 comment

سعد مذکر 18 اپریل, 2018 - 20:04

عنوان اور معنون میں ربط ظاہر نہیں ہو سکا

Leave a Comment