تازہ بہ تازہ، سلسلہ 21
فضیل احمد ناصری
وہ اگر رعب و داب والے ہیں
ہم بھی شاہی خطاب والے ہیں
تیرا گیتا پہ فخر کرنا کیا
ہم تو امّ الکتاب والے ہیں
تم اندھیروں کی دھمکیاں مت دو
ہم بھی اک آفتاب والے ہیں
ان کے شیریں لبوں پہ مت جاؤ
کارنامے عذاب والے ہیں
تم بتاتے ہو فاقہ کش جن کو
ٹھاٹ سارے نواب والے ہیں
ہم سے الجھو نہ اے جہاں والو
ہم حسینی شباب والے ہیں
ان کے ہاتھوں میں تیغ مت دینا
یہ تو چنگ و رباب والے ہیں
ان کے شاعر عمل سے وابستہ
اپنے شاعر شراب والے ہیں
نام و القاب ہیں بڑوں سے بڑے
کام جتنے ہیں خواب والے ہیں