*ڈاکٹر مشتاق احمد
حالیہ دو تین ماہ سے میں نے اخباری کالم لکھنا بند کردیا تھا۔ اس کی کئی وجوہات تھیں۔ اولاً تو اپنی منصبی مصروفیات کہ دن رات سرکاری احکامات کو عملی جامہ پہنانے میں ہی ذہن اس قدر تھک جاتا ہے کہ پھر دوسرے کاموں کا ہوش ہی نہیں رہتا ۔ اور دوسری اہم وجہ یہ رہی کہ آخر ہم جیسے لوگوں کی معمولی تحریر کیا معنی رکھتی ہے۔ کیوں کہ گزشتہ تین دہائیوں سے صحافتی شغف نے اتنی سمجھ تو ضرور دی کہ اپنے گرد و نواح سے واقف ہوسکوں۔ پھر یہ کہ ایسی تحریر کا جو ہدف یعنی اقلیتی طبقے بالخصوص مسلم سماج کے سیاسی، سماجی اور تعلیمی مسائل پر فکر ونظر کا اظہار رہا اس کے نتائج کیا نکلے؟ لیکن بہترے احباب نے اپنی محبت کا اظہار کیا اور یہ تقاضہ بھی کیا کہ مجھے لکھتے رہنا چاہئے۔ اگرچہ اپنے ایک دیرینہ بہی خواہ جو اکثر میری تحریر پر اپنی رائے اور مشورے دیتے رہتے ہیں ان سے میں نے از راہ مزاق یہ کہہ کر مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ جب ہم 1440 سالوں سے احکامات قرآن جو ہمارے لئے ابدی ہدایات ہیں اس پر عمل پیرا نہیں ہیں تو پھر ہمہ شمہ کی معمولی تحریریں کیا معنی رکھتی ہیں۔ لیکن ان کا جواب مجھے لاجواب کرگیا کہ اسی پیغام ابدی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اپنی بات اپنے معاشرے تک پہنچاتے رہو۔ لہٰذا اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود حسب معمول پھر اپنے قلم کو جنبش دینے پر مجبور ہوا ہوں کہ اس عرصہ میں کچھ تلخ تجربات نے قوم کے نونہالوں کی طرف سے ذہن میں مستقبل کے اندیشے پیدا کرنے لگے ہیں۔ مگر پہلے کی طرح شاید تواتر سے اس عمل کو پورا نہ کرسکوں مگر وقتاً فوقتاً آپ قارئین سے مخاطب ہونے کی جرأت کرتا رہوں گا، اس امید کے ساتھ کہ شاید کسی کے دل میں تو اتر جائے میری بات!
قصہ کوتاہ اس عنوان کو قائم کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ الحمد اللہ ہمارے معاشرے میں قدرے تعلیمی بیداری آئی ضرور ہے لیکن ایک تلخ سچائی یہ بھی ہے کہ ہم اب بھی رفتار زمانہ سے ناواقف ہیں اور تعلیم کا مقصد صرف اور صرف سند حاصل کرنا سمجھ بیٹھے ہیں۔ جبکہ آج جب پوری دنیا ایک بازار بن چکی ہے یعنی دور عا لمیت میں تعلیمی اسناد کے ساتھ مقابلہ جاتی دور میں کامیابی کا دارو مدار اہلیت پر ہے کہ اب سرکاری دفاتر ہوں کہ نجی ملکی و غیر ملکی کمپنیوں کے دفاتر، ہر جگہ چوتھے درجے سے لے کر اعلی درجے تک کی ملازمت کے لئے مقابلہ جاتی امتحانات لازمی ہوگئے ہیں۔ ملک کی آبادی جس برق رفتار سے بڑھ رہی ہے اس سے دنوں دن ملازمت کے مواقعے سمٹتے جارہے ہیں اور امیدواروں کی تعداد بے تحاشہ بڑھتی جارہی ہے۔ مثلاً قومی سطح پر اسٹاف سلیکشن کمیشن اور ریلوے و بینک میں ہزاروں اسامیاں آتی ہیں اور اس کے لئے درخواست دہندوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچتی ہے۔ چونکہ میرا تعلق شعبہ تعلیم سے ہے اس لئے اس طرح کی اسامیوں کو پر کرنے کیلئے جو اہلیت طے کی جاتی ہے اس سے کما حقہ واقف ہوں۔ گزشتہ دو دہائیوں سے اس مسئلہ پر پہلے بھی لکھتا رہا ہوں لیکن حالیہ دو تین برسوں سے تو مسلسل اس طرح کے اشاراتی مضامین لکھتا رہا ہوں اور دوسرے معتبر قلم کاروں کی تحریریں بھی آتی رہی ہیں۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں وہ مقابلاتی و مسابقاتی مزاج نہیں بن پارہا ہے جو اس عہد کا تقاضہ ہے۔
یوں تو ہمارے بچے بھی مرکزی یا ریاستی اسامیوں میں اپنی قسمت آزمائی کرتے ہیں لیکن جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے کہ وہ تقاضۂ عہد کو سمجھ نہیں پارہے ہیں اور اگر سرکاری یا رضاکار تنظیموں کے ذریعے انہیں مقابلہ جاتی امتحانات کی کامیابی کیلئے نسخۂ عملی سے واقف کرانے کے مواقع بھی فراہم کیے جارہے تو اس سے بھی جس قدر استفادہ کرنے کی ضرورت تھی وہ نہیں کرپارہے ہیں اور اپنی ناکامیوں کا سارا ٹھیکرا حکومت کے تعصبانہ و تحفظانہ رویے کے سر پھوڑتے ہیں۔ ہم صد فیصد اس بات سے تو انکار نہیں کرسکتے کہ ملک کی فضا مکدر ضرور ہوئی ہے اور ایک خاص طبقے کے تئیں نظریہ بھی تبدیل ہوا ہے۔ لیکن سچائی یہ بھی ہے کہ اگر ہمارے اندر اہلیت ہے تو ہمیں نظر انداز بھی نہیں کیا جارہا ہے اور اس کی مثال حالیہ یونین پبلک سروس کمیشن اور کئی ریاستی کمیشنوں کے نتائج شواہد پیش کرتے ہیں کہ حقدار کو حق ضرور ملا ہے۔ بالخصوص خطہ کشمیر کے کے مسلم بچوں نے جو مثالیں پیش کی ہیں وہ قابل رشک ہے اور جنوبی ہند میں بھی مقابلہ جاتی امتحانات کے تئیں سنجیدگی دیکھنے کو ملتی ہے۔ لیکن شمالی ہند میں آبادی کے لحاظ سے جو سرد مہری دیکھنے کو ملتی ہے وہ نہ صرف مایوس کن ہے بلکہ افسوسناک بھی ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ حکومت بہار کا محکمہ اقلیتی فلاح وبہبود گزشتہ تین چار برسوں سے مختلف سرکاری ملازمتوں کیلئے مقابلہ جاتی امتحانات کے پیش نظر مفت کوچنگ کا اہتمام کررہی ہے۔ لیکن بہار میں مسلمانوں کی شرح آبادی اور شرح خواندگی کو پیش نظر رکھیں تو بڑی مایوسی ہوتی ہے کہ ہم اس مفت کوچنگ کے تئیں بھی سنجیدہ نہیں ہیں۔ حال ہی میں ریلوے، بینکنگ، اسٹاف سلیکشن کمیشن کے مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کے لئے ریاست میں آٹھ جگہوں پر مفت کوچنگ مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ چونکہ محکمہ اقلیتی فلاح وبہبود کے پرنسپل سیکریٹری جناب عامر سبحانی کی خاص دلچسپی کی وجہ سے اس طرح کی کوچنگ کا اہتمام کیا گیا ہے کیوں کہ موصوف اقلیتی طبقے کے مسائل سے نہ صرف واقف ہیں بلکہ وہ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ ملک میں اقلیتی طبقہ کی منزل کا واحد راستہ معیاری تعلیم ہے۔ واضح ہوکہ ہم سب واقف ہیں کہ موصوف یو پی ایس سی کے ٹاپر رہے ہیں۔ ان کی کامیابی اس بات کی دلیل ہے کہ اگر ہمارے اندر علمیت ہے تو کوئی ہمیں نظر انداز نہیں کرسکتا ۔
بہرکیف! جن آٹھ مراکز پر یہ کوچنگ قائم کیے گئے ہیں ان تمام مراکز پر اس کوچنگ کیلئے جانچ امتحان میں شامل ہونے والے امیدواروں کی تعداد دیکھ کر نہ صرف مایوسی ہوتی ہے بلکہ جگر پارہ پارہ ہوتا ہے کہ ہم کس خواب خرگوش میں مبتلا ہیں۔ ہم خواب دیکھنے کے بھی خواہاں نہیں۔ ہمیں جذباتی اور کھوکھلے نعرے بازی نے اس قدر ذہنی پامالی سے ہمکنار کردیا ہے کہ ہم یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہماری آنکھوں میں خواب بھی کوئی دوسرا بنے گا۔واضح ہوکہ ایک مرکز پر ساٹھ طلبہ وطالبات کو مفت کوچنگ کی فراہمی کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اولاً تو ان مراکز پر 200سے 500تک ہی امیدواروں کی تعداد محدودرہی اور جانچ امتحان میں جس طرح ہماری نسل اپنی علمی استعداد کا مظاہرہ کیا وہ نہ صرف مایوس کن رہا بلکہ افسوسناک بھی ۔ 50 فیصد طلبہ محض خانہ پری تک محدود رہے اور 100نمبر کے امتحان میں 60 فیصد تک پہنچنے والوں کی تعداد انگلیوں پر گنے جانے تک محدود رہی۔ ظاہر ہے کہ اس کوچنگ کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ جن بچوں کے اندر مقابلہ جاتی امتحانات کے تئیں دلچسپی ہے اور ان کے اندر جو صلاحیت ہے اس کو مزید روشن کیا جائے۔ کیوں کہ ہمارا مقابلہ برادر وطن سے ہے اور اس سچائی سے انکار نہیں کرسکتے کہ ہمارے برادر وطن کے اندر اس طرح کے مقابلہ جاتی امتحانات کے تئیں جو سنجیدگی ہے اس سے ہم کوسوں دور ہیں۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں اگر تعلیمی بیداری مہم چلا رہے ہیں تو ہمیں یہ بھی باور کرانا ہوگا کہ آج کے عہد میں تعلیم کے تقاضے کیا ہیں اور محض اسناد کی حصولیابی ہمیں اپنی منزل تک نہیں پہنچا سکتی۔ اگر ہم نے وقت کے تقاضے کو نہیں سمجھا تو پھر کوئی سرکاری کمیشن تشکیل پائے گی اور سچر کمیٹی و رنگ ناتھ مشرا کمیشن کی طرح اپنی رپورٹ میں اس حقیقت کو اجاگر کرکے ہمیں پھر شرمندہ کرے گی کہ ملک کے اقلیت سماجی، سیاسی، تعلیمی اور اقتصادی شعبے میں دلت طبقے سے بھی بدتر ہے۔
****
موبائل : 9431414586
ای میل:[email protected]
ہماری آنکھوں میں خواب کون بنے گا!
previous post