تازہ ترین، سلسلہ 94
فضیل احمد ناصری
یہ گل سِتاں ہمارا، یہ بوستاں ہمارا
ہم سنتری ہیں اس کے،یہ پاسباں ہمارا
بستی ہے جس زمیں میں،کشمیرجیسی جنت
وہ دل کش و درخشاں، ہے گل سِتاں ہمارا
دشت و چمن ہوں،یاپھرکہسار ہوں کہ دریا
ہر ذرہ ہند کا ہے تقدیس خواں ہمارا
آزادئ وطن پر جانیں نہ ہم لٹاتے
آزاد ہو نہ پاتا، ہندوستاں ہمارا
پوچھو چمن سے جا کر قربانیاں ہماری
گلشن کا پتّہ پتّہ، ہے رازداں ہمارا
ہم خوگرِ وفا کا،اسکی رگوں میں خوں ہے
دل کش ہےاس لیےہی، یہ خاک داں ہمارا
ہم سے رہی ہے گرچہ، دورِ زماں کو رنجش
تابندہ آج بھی ہے،نام و نشاں ہمارا
تاریخ کا وہ منظر، بھولا نہ اب بھی یورپ
نکلا تھا سر بہ کف جب، ہر کارواں ہمارا
ٹیپوؒ ہو یا کہ قاسمؒ، محمودؒ ہو کہ جوہرؒ
ہر شکل میں رہا ہے عزمِ جواں ہمارا
یہ کاخِ سرخ ہو، یا ممتاز کا محل ہو
کرتے ہیں آج بھی سب، قصہ بیاں ہمارا
اپنےوطن میں گو ہم،بےخانماں پڑے ہیں
ہر شاخ پر تھا قائم، اک آشیاں ہمارا
سونی پڑی ہے یارب! اب انجمن ہماری
باقی رہا نہ کوئی، ہم داستاں ہمارا