Home تجزیہ گرمی کی چھٹیوں کوایسے کامیاب بنائیں:مولانااسرارالحق قاسمی

گرمی کی چھٹیوں کوایسے کامیاب بنائیں:مولانااسرارالحق قاسمی

by قندیل

تعلیم اسلام کے بنیادی مقاصدمیں شامل ہے اور اس کاآغاز ہمارے نبیﷺ کی بعثت سے ہی ہوگیاتھا۔چنانچہ آپؐ پر جوپہلی وحی نازل کی گئی اس کی شروعات لفظ ’’اقرأ‘‘سے ہوئی جس کے معنی ہیں ’’پڑھ‘‘یہ دراصل اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ آنے والے زمانوں میں تعلیم و تعلم امت محمدیہ کی خاص پہچان ہوگی اوراس امت کے ذریعہ پوری دنیامیں علوم و فنون کا فروغ ہوگا۔اسلام میں تعلیم کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب اسلام اور کفر کی پہلی عظیم الشان جنگ میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی اور کفار مکہ کے بہت سے جنگجو قید کیے گئے جن میں کئی لوگ پڑھے لکھے تھے،تو ان کی رہائی کے لئے یہ شرط لگائی گئی کہ وہ مسلمانوں میں سے جو لوگ ان پڑھ ہیں انہیں پڑھالکھادیں ،یہی ان کی طرف سے معاوضہ سمجھا جائے گا اور انہیں رہاکردیا جائے گا چنانچہ ان میں سے کئی لوگوں نے ان پڑھ مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھایااور اس کے بدلہ میں انہیں رہائی مل گئی۔اسلام میں تعلیم کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگا سکتے ہیں کہ آپؐ نے ایک مرتبہ فرمایا’’ اللہ نے مجھے ’’معلم‘‘ بناکر مبعوث کیاہے‘‘،یعنی مجھے دنیائے انسانیت کے لئے استاذ بناکر بھیجا گیاہے کہ لوگوں کو درست عقائد و اعمال کی تعلیم دوں اور ان کے اخلاق و کردار کو ٹھیک کروں۔ اسلام جب اپنے ابتدائی دور میں تھااس وقت تبلیغ دین کے ساتھ جس چیز پر سب سے زیادہ توجہ دی گئی،وہ تعلیم ہی تھی چنانچہ مسجدنبویؐ میں ایک جگہ طلبائے کرام کے لئے مخصوص کیاگیا ،ان طلباء کی تعداد مختلف زمانوں میں سوسے تین چار سو تک رہتی تھی،بہت سے طالب علم ایسے تھے جنہوں نے اپنے گھر بار کو چھوڑ کر مکمل طورپر اپنے آپ کو تعلیم حاصل کرنے کے لئے وقف کردیا تھا،ان کے رہنے سہنے کا انتظام مسجد نبویؐ ہی کے ایک حصے میں ہوتا اور کھانے کا انتظام حضور اکرمﷺخود کرتے یا کسی صحابی کی طرف سے انتظام کروایا جاتا۔اسلامی تاریخی کے ابتدائی دور میں تعلیم و تعلم کا یہی طریقہ تھا،پھر جوں جوں حالات بدلتے گئے،اس کی شکلوں میں بھی تبدیلی آتی گئی اور مسلمانوں میں حصولِ علم کو ہمیشہ ترجیح حاصل رہی۔یہی وجہ ہے کہ خلافت راشدہ اور اس کے بعد خلافت بنوامیہ و بنوعباسیہ میں مسلم علماء و مفکرین نے ایک سے بڑھ کر ایک کارنامہ انجام دیا۔انہوں نے جہاں قرآن و سنت اور دیگر اخروی علوم کو فروغ دیا وہیں اس وقت کی سائنس ،طب اور دیگر علوم کو بھی فروغ دیا۔ اسلام نے ہمیشہ ہر قسم کے علوم کو سیکھنے سکھانے کی حوصلہ افزائی کی ہے اور کسی علم کے اچھایا براہونے کی بنیاد اس کے نفع بخش یا نقصان دہ ہونے کو قرار دیاہے،چنانچہ بسا اوقات ایسا ہوسکتا ہے کہ قرآن و حدیث کا سیکھنابھی نقصان دہ ہو جب اس کے پیچھے دولت کمانے یا لوگوں پر اپنا رعب جمانے کا مقصد کارفرماہواور دنیوی علوم کا سیکھنا فائدہ مند ہوجب اس کا مقصد انسانیت اور اپنے ملک و قوم کی خدمت ہو۔یہی وجہ ہے کہ ایک حدیث میں اللہ کے نبیؐ نے ان لوگوں کو سخت وعید سنائی ہے جو دنیا کمانے یا معاشرہ میں اپنی برتری قائم کرنے کے لئے دین کا علم حاصل کرتے ہیں،جبکہ آپؐ نے ہمیشہ علمِ نافع کی دعاء کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔
اِن دنوں اسکولوں میں امتحانات کا موسم چل رہاہے جس کے بعد بچوں کی لمبی چھٹی ہوتی ہے۔ان چھٹیوں میں بچوں کی مختلف سرگرمیاں ہوتی ہیں ۔کچھ لوگ اپنے بچوں کو مختلف مقامات کی تفریح کرانے لے جاتے ہیں جبکہ کچھ بچے اپنے رشتہ دار وغیرہ سے ملاقات کے لئے جاتے اور چھٹی کے ایام اپنے خاندان کے لوگوں اور اپنے ہم عمر دوستوں کے ساتھ گزارتے ہیں۔آج کل تفریح کی بھی مختلف شکلیں ہیں ،چنانچہ ٹی وی دیکھنا یا سنیماہال جا کر فلمیں دیکھنا بھی تفریح میں شامل ہے۔موجودہ دور میں والدین اور بھائی بہن سب ایک ساتھ بھی فلمیں دیکھتے ہیں اور الگ الگ بھی،کہنے والے کہتے ہیں کہ اس سے بھی طبیعت کی تھکن دور ہوتی ہے اور ذہن کو سکون حاصل ہوتا ہے،حالاں کہ حقیقت میں اس کے برعکس ہی ہوتا ہے،کیوں کہ ان فلموں میں دکھائے جانے والے واقعات کا مثبت یا منفی اثر انسانی ذہن پر ضرور پڑتا ہے اور خاص کر بچوں اور کم عمر کے لوگوں پر تو کچھ زیادہ ہی پڑتا ہے۔لہذاشرعی اور مذہبی لحاظ سے توہمارے لئے اس کا کوئی جواز ہی نہیں ،لیکن صحت اور طب کے اعتبار سے بھی اس میں خسارہ ہی ہے۔ویسے بحیثیت مسلمان اور مسلم قوم و ملت کا حصہ ہونے کے بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالہ سے مسلم والدین،خاندان کے سرپرست اور گارجین حضرات کی ایک اہم ذمہ داری اور بھی ہے۔ہم اپنے بچوں کو اسکول کی تعلیم دلارہے ہیں اور ہمارے پیش نظر یہ ہے کہ اسے آئندہ چل کر ایک اچھاڈاکٹر،انجینئر یا کسی اور شعبے کا ماہر بناناہے تاکہ وہ خاندان اور ملک کا نام روشن کرے اور ساتھ ہی اچھے پیسے بھی کمائے تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے،مگر اس کے ساتھ ہماری ذمہ داری یہ بھی ہے کہ اپنے بچے کی اخلاقی تربیت اور اسلام کی بنیادی تعلیم کابھی نظم کریں ،کیوں کہ اس سے ہماری مذہبی پہچان جڑی ہوئی ہے۔اب چوں کہ اسکول کی تعلیم کے دنوں میں عام طورپر یہ ممکن نہیں ہوتا کہ ایک بچہ اسکول کے نصاب کوبھی پورا کرے اور ساتھ ہی اسلامی تعلیم بھی حاصل کرے اور اگر ایسا ہوتا بھی ہے تو کماحقہ اہتمام نہیں ہوپاتا ،اس لئے گرمی کی چھٹیوں میں یہ کام پوری توجہ اور خاص اہتمام کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔ہم اس عرصہ میں اپنے بچے کو قرآن کریم اور بنیادی اسلامی معلومات کی تعلیم دلاسکتے ہیں۔اس کے لئے بس تھوڑی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ہر مسلم محلہ میں مسجد بھی ہوتی ہے اور مدرسہ و مکتب بھی،ہمیں بس امام صاحب یا مدرسہ کے استاذ سے بچہ کی تعلیم کے لئے بات کرنی ہے اور پھر ایک وقت مقررکرکے اسے پابندی سے پڑھنے بھیجنا ہے۔چوں کہ چھٹیوں کا یہ عرصہ ماہ ڈیڑھ پر ہی مشتمل ہوتا ہے جو بہت زیادہ بھی نہیں ہے اس لئے پڑھانے والے کو پہلے ایک خاکہ بنالینا چاہئے اور اس کے مطابق قرآن کریم،بنیادی اسلامی معلومات،اسلامی جنرل نالج ،سیرتِ نبویﷺاور صحابہ کی سوانح وغیرہ کی تعلیم دینی چاہئے۔ویسے یہ بھی خوش آئند بات ہے کہ شہری علاقوں میں بہت سے ادارے مختلف علماء و اساتذہ کی نگرانی میں باضابطہ سمر کیمپ کا انعقاد کرتے ہیں،جس کے تحت روزانہ پانچ چھ گھنٹے تعلیم کا نظم کیا جاتا ہے،ہم جہاں رہائش پذیر ہیں اگر اس علاقے میں ایسا کیمپ لگایا جائے تو اپنے بچوں کوضرور وہاں داخل کرائیں ۔علماء اور ائمۂ مساجد کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلمانوں کی ذہن سازی کریں اور انہیں گرمی کی چھٹیوں میں بچوں کو دینی تعلیم دلانے پر آمادہ کریں۔
یہ کام ہمیں ہر حال میں کرنا چاہئے ،اگر ہم نے ابھی توجہ نہیں دی اور اپنے بچوں ،بچیوں کو محض اسکولی تعلیم تک محدود رکھا تو اس کے برے نتائج کو بھگتنے کے لئے تیار رہنا ہوگا۔اعلی سے اعلیٰ تعلیم اور ڈگری بڑی نوکری اور بہت ساری دولت تو لے کر آئے گی،لیکن اخلاق و کردار اور ساتھ ہی دین اور دینی تعلیمات سے دوری خود ہمارے بچوں کے لئے اور پورے خاندان اور قوم و ملت کے لئے بے شمار مصیبتوں کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔اسلام یا اسلامی تعلیم کی یہ خوبی ہے کہ وہ محض کتابیں پڑھانے پر زور نہیں دیتا بلکہ انسان کو معاشرے کا ایک اچھا شہری بننے کی تلقین کرتااوراس کے اخلاق و کردار کی بھی تربیت کرتا ہے،جو موجودہ دور میں رائج نظامِ تعلیم میں یکسر ناپید ہے۔اس لئے ہمیں اپنے بچوں کوکم ازکم بنیادی اسلامی تعلیم دلانے کی کوشش کرنی چاہئے کہ بحیثیت مسلمان کے دین کو سمجھنا ،اس کے احکام و نواہی سے واقفیت حاصل کرنا ، اسلامی فرائض وواجبات اور حقوق وغیرہ کو جاننااور دنیا وآخرت کی حقیقت سے آگاہی حاصل کرنا ہمارے اوپر فرض ہے اور اس وجہ سے بھی کہ ایسا کرنا خود ہمارے بچوں کے مستقبل اور گھرخاندان کی بہتری اور ملک و ملت کے حق میں بھی مفید ہے۔

You may also like

Leave a Comment