(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
ہمارے’ پردھان سیوک‘ نریندر مودی نے بالآخر کشمیریوں سے بات کرہی لی ۔
نعرہ بھی لگا دیا کہ ’ دل اور دلّی سے دوری کم ہونا چاہئے ‘ ۔ لیکن سچ یہی ہے کہ کشمیری آج بھی ’دل اور دلّی سے دور ہیں‘۔ اور شاید اس وقت تک دور رہیں جب تک کہ کشمیر کو مکمل ریاستی درجہ نہ ملِ جائے ، جو سیاسی قیدی جیلوں میں قید ہیں انہیں رہائی نہ ملِ جائے اور سارے کشمیر میں ، بشمول جموں ولداخ ، امن وامان کی فضا کا قیام نہ ہوجائے ، زندگی پھر سے رواں دواں نہ ہوجائے، اور ترقی کے راستے نہ کھل جائیں ۔ اور سب سے اہم کشمیریوں کی وہ ’ حیثیت‘ جو ان سے ’ چھین‘ لی گئی ہے ، اسے پھر سے بحال نہ کردیا جائے ، آسان لفظوں میں یہ کہ 35 اے اور آرٹیکل 370 کو پھر سے لاگو نہ کردیا جائے ۔
اب اگر ہم مذکورہ پس منظر میں کشمیر کے حالات پر اور وزیراعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ سے ، کشمیر کی آٹھ سیاسی پارٹیوں کے چودہ بڑے لیڈروں کی ، جن میں تین وزرائے اعلیٰ بھی شامل تھے ، جنہیں مرکزی سرکار نے ’ گپکا ر گینگ‘ کا لقب دیا تھا ، ملاقات پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ باتیں توہوئیں، وعدے بھی ہوئے ، لیکن ملاقات کا کوئی ایسا نتیجہ برآمد نہیں ہوا کہ یہ امید باندھی جاسکے کہ آنے والے دنوں میں کشمیر کے حالات تیزی کے ساتھ بدلیں گے ، اور وہاں کے لوگ چین اور سکون کی سانس لے سکیں گے ۔ کشمیر کا سیاسی منظر نامہ قدرے پیچیدہ ہے ، اور 2019ء میں 5 اگست کے روز آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کے بعد سیاسی منظر نامہ مزید پیچیدہ ہوگیا ہے ۔ کشمیری یہ سمجھتے ہیں کہ مذکورہ آرٹیکلوں کے تحت انہیں جو خصوصی درجہ حاصل تھا ، جو ان کی شناخت اور ان کی تہذیب وثقافت کی حفاظت کرتا تھا، اسے چھین لیا گیا ہے ، اور چھینے کا یہ عمل دانستہ کیا گیا ہے ، اس کے پس پشت بدنیتی ہے اور اس کا مقصد سارے کشمیر سے ان کی شناخت کو بھی ختم کرنا ہے اور ان کی تہذیب اور ثقافت کو بھی مٹانا ہے ۔ کشمیری اگر یہ سوچتے ہیں تو وہ اس میں حق بجانب بھی ہیں کیونکہ جیسے ہی آرٹیکل 370 اور 35 اے کا خاتمہ کیا گیا بی جے پی اور سنگھی لیڈروں کی طرف سے یہ آوازیں اٹھنے لگی تھیں کہ اب وہ کشمیر میں زمینیں بھی خریدیں گے اور اپنے کاروبار بھی لگائیں گیں۔ اور یہ آواز بھی تیز تھی کہ کشمیر کو اب اپنے رنگ میں رنگیں گے ، یعنی اسے ’گیروا‘ کردیں گے ۔ ظاہر ہیکہ اس سے نہ تو کشمیریوں کی ’ دل اور دلّی سے دوری‘ ختم ہوسکتی تھی او رنہ ہی کشمیر کے سیاسی حالات بی جے پی اور مودی کی مرکزی سرکار کے لیے بہتر ہوسکتے تھے۔ گذشتہ 22 مہینوں کے دوران کشمیری جِن حالات سے گزرے ہیں انہیں وہ اپنے لیے ’ ذلت‘ سمجھتے ہیں ۔کیا یہ درست نہیں ہیکہ کشمیر کو ایک بہت بڑی جیل میں تبدیل کردیا گیا تھا؟ نہ انٹرنیٹ اور نہ ہی سڑکوں پر نکلنے کی آزادی ، دوکان اور مکان سب بند، مسجدوں پر تالے ، دوسری عبادت گاہیں بند ، لیڈران نظر بند یا جیلوں میں مقید ، حتیٰ کہ تین سابق وزرائے اعلیٰ کو ، جو مودی اور شاہ کی اس میٹنگ میں شریک تھے ، بہت ہی سخت حالات سے گزرنا پڑاـ بالخصوص فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی کو ، یہ نظر بند رہے، ا ن پر مقدمے قائم ہوئے ، فاروق عبداللہ کی تو املاک کی قرقی تک ہوئی ۔ ہاں غلام نبی آزاد قدرے محفوظ تھے ۔۔۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ نیشنل کانفرنس میں بھی اور پی ڈی ایف میں بھی فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی سے لوگ ، اس میٹنگ میں شریک ہونے پر ناراض ہیں، لوگ نہیں چاہتے تھے کہ یہ لوگ آرٹیکل 370 اور 35 اے کی بحالی سے پہلے مودی اور امیت شاہ سے کوئی میٹنگ کریں ۔ شاید اسی لیے محبوبہ مفتی نے ملاقات کے بعد 370 اور 35 اے کی بحالی کی بات کی ہے۔ فاروق عبداللہ بھی آرٹیکل 370 کے خاتمے کو قبول کرنے کو تیار نہیں نظر آتے ہیں۔
جو ملاقات ہوئی اس میں آرٹیکل 370 اور 35 اے پر بات تو ہوئی لیکن انہیں بحال کرنے کا کوئی وعدہ نہ مودی نے کیا اور نہ ہی امیت شاہ نے ۔۔۔ وعدہ کر بھی نہیں سکتے کہ یہ بی جے پی بلکہ آر ایس ایس کا نظریاتی معاملہ ہے ۔ آر ایس ایس کے نظریہ ساز شیاما پرساد مکھرجی کشمیر کو کوئی خصوصی درجہ دینے کے خلاف تھے اور سنگھ پریوارآج بھی کشمیر کو کسی طرح کا خصوصی درجہ دینے کو راضی نہیں ہے ۔ لہٰذ یہ سمجھ لیا جائے کہ بی جے پی کبھی بھی آرٹیکل 370 اور 35 اے کی بحالی پر راضی نہیں ہوگی ۔ ہاں ملاقات میں اس نے کشمیر کو ریاستی درجہ دینے کا ، حد بندی کا ، جلد الیکشن کرانے کا وعدہ کیا ہے ۔ دوسرے مطالبات کو ’غور ‘سے سنا ہے ، سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ ہے ، کشمیری پنڈتوں کی واپسی کی بات ہے اور کشمیر میں امن وامان کے قیام کی فکر ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی اور امیت شاہ نے وعدے تو کیے لیکن کوئی نظام الاوقات نہیں بنایا ہے کہ فلاں فلاں تاریخ تک یہ وعدے پورے کیے جائیں گے ۔۔۔ تو کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ جو ملاقات ہوئی اور وعدے ہوئے وہ بس یوں ہی تھے ، ان کا کوئی مطلب نہیں تھا؟ یہ تو سچ ہیکہ ملاقات کا کوئی فوری حل توبرآمد نہیں ہوا ہے لیکن اس ملاقات سے کم از کم بی جے پی کو اپنی صفائی پیش کرنے کا ایک موقع مل گیا ہے ۔ قومی اور عالمی سطح پر کشمیر مسئلے پر اس پر جو دباؤ بنا ہے اسے زائل کرنے کے لیے مرکزی سرکار یہ کہہ سکتی ہے کہ ’’ ہم بات تو کررہے ہیں‘‘ ۔ قومی سطح پرکئی ہدف نشانے پر ہیں، مثلاً یہ کہ گذشتہ 22 مہینوں کے دوران کشمیر میں بھلے ہی ’ کورونا‘ معاملے میں لوگوں کو اعلیٰ درجہ کی طبّی سہولیات بہم کی گئی ہوں ، لیکن زمینی صورتحال جو 22 مہینے قبل تھی، اس سے خراب ہی ہوئی ہے ۔کشمیری پنڈت اور جموں کے لوگ بھی مرکزی حکومت سے ناراض ہوئے ہیں ۔ بی جے پی نے کوشش کی تھی کہ کشمیر میں ایک ایسی سیاسی قیادت ابھاری جائے جو بی جے پی کے کام آسکے ، مگر اسے اس کوشش میں ناکام ہی ہوئی ہے ، اس سبب جمہوری اور سیاسی تعطل برقرار ہے ۔ کشمیر کا حل ’صدر راج‘ قطعی ٔ نہیں ہے ، ’سیاسی راج‘ ہے ۔ اور سیاسی عمل کو جاری کرنے کے لیے زمینی حالات کو سدھارنا ضروری ہے ۔۔۔ مودی نے اس سمت ایک پہل کی ہے ۔۔۔ جس طرح سے کشمیر میں جمہوری اقدار کو کچلا گیا اور انسانی حقوق کی پامالیاں کی گئیں، وہ افسوسناک ہیں ۔ ساری دنیا ، اسلامی ممالک ، یوروپ، امریکہ اور اقوام متحدہ نے بھارت سرکا رپر اس معاملے میں دباؤ بنایا ہے ۔ برسہا برس کے بعد اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر کی گونج سُنی گئی ہے۔ پاکستان اس مسئلے پر مستقل دباؤ بنائے ہوئے ہے ۔ لہٰذا مودی سرکار کو قدم اٹھانے پر مجبور ہونا پڑا ہے ۔ یاد رہے کہ ہمارے وزیراعظم جلد ہی بائیڈن انتظامیہ سے ملیں گے، اور لوگ جانتے ہی ہیں کہ صدر امریکہ جو بائیڈن پہلے ہی کشمیر کے حالات پر اظہار تشویش کرچکے ہیں ، تو وہ اس معاملے پر سوال کرسکتے ہیں ، مودی کو جواب دینا ہوگا ۔ جواب بالخصوص حقوق ِ انسانی کی پامالیوں کا۔ حقوقِ انسانی کی کئی تنظیموں بشمول ’ فریڈم ہاؤس‘ نے بھارت پر سخت نکتہ چینی کی ہے اور اس کی کشمیر پالیسی کو آڑے ہاتھوں لیا ہے ، اور امریکہ نے ان سب پر اپنی تشویش ظاہر کی ہے ۔ مودی نے اس ملاقات سے ایک طرح کی پیش بندی کرلی ہے ۔۔۔ معاملہ ہند ۔ پاک د وطرفہ بات چیت کا بھی ہے ۔ یہ تو سچ ہے کہ سرحد پر گولہ باری رکی ہوئی ہے ، دراندازی بند ہے ، لیکن اہم بات ان دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت ہے ، اس ملاقات سے اس کی ایک راہ کھل سکتی ہے۔اور بھارت کو پاکستان سے بات کرنا چاہیئے کہ یہ امن کی ایک راہ ہے ۔ اسے بھارت مخالف عناصر سے بھی ، جو قیدمیں ہیں بات شروع کرنی چاہئے ۔ ادھر افغانستان میں جو حالات سامنے آئے ہیں وہ بھی بھارت کے نقطۂ نظر سے اہم ہیں ۔ امریکی فوج کا وہاں سے انخلاء ہورہا ہے ، ممکنہ طور پر طالبان کا وہاں راج ہوسکتا ہے ۔ اور اگر طالبان اقتدار میں نہ آئے تب بھی یہ سوال برقرار ہے کہ افغانستان سے جب امریکی اور ناٹو افواج نکل جائیں گی تب وہاں کی صورتحال کیا ہوگی ، کیا افغانستان ، پاکستان اور طالبان ایک دوسرے سے قریب آئیں گے ، اور اگر قریب آئے تو اس کے اثرات کشمیر پر کیا پڑیں گے ؟ لہٰذا یہ ضروری ہوگیا ہے کہ کشمیر میں ایک طرح کا سیاسی عمل شروع کیا جائے ، نہ سہی 370 کی بحالی،تو اسے ریاستی درجہ دے کر اور الیکشن کراکر ۔ تو اگر تجزیہ کیا جائے تو یہ بات نکل کر سامنے آتی ہے کہ ملکی اور غیر ملکی دباؤ اتنا تھا کہ مودی اور شاہ نے کشمیری لیڈروں سے ملاقات کرکے ایک پیش بندی کرلی اور الیکشن کی ایک راہ بھی نکال لی ۔ رہی بات آرٹیکل 370 کی تو اس کا حل اب صرف اور صرف یہ ہے کہ کشمیری یا تو اسے بھول جائیں ، یا پھر ’ عدالت‘ ہی سے اس کا فیصلہ ممکن ہے ۔ مودی اور شاہ آرٹیکل 370 کسی بھی صورت میں بحال نہیں کرسکتے۔جہاں تک ’ ملاقات‘ کا تعلق ہے تو اسے فی الحال بے نتیجہ ہی کہا جائے گا لیکن اتنا تو ضرور ہے کہ آگے بڑھنے کی ایک راہ کھل گئی ہے ۔افسوس کہ مودی اور شاہ نے عجلت میں فیصلے لیے، اگر وہ 370 ہٹانے اور کشمیر کے حصے بخرے کرنے سے قبل ایسی ہی ’ ملاقات‘ کرلیتے تو شاید کشمیریوں کے لیے بھی اور ملک کے لیے بھی حالات آج جیسے بدتر نہ ہوتے ۔ لیکن بھلا ایک ایسے حکمراں سے جو خود کو ’ عقلِ کل‘ سمجھتا ہو اس کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے !