محمودالمہینی
اک کتا ب کے معاملے میں شاذ ہی ایسا ہوتا ہے کہ وہ دنیا بھر میں ایک بھونچال برپا کردے جیسا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں صحافی مائیکل وولف کی لکھی کتاب ’’ آتش اور غیظ ‘‘ (فائر اینڈ فیوری) نے کیا ہے۔
ان دنوں ہر کوئی اس کتاب کے بارے میں گفتگو کررہا ہے لیکن ہمیں ایک یا دو ہفتے مزید انتظار کرنا ہوگا۔پھر ہم اس کے بارے میں سب کچھ بھول جائیں گے کیونکہ اس میں کوئی ایسی نئی چیز نہیں ہے یا کوئی ایسا تخریبی ثبوت نہیں ہے جو مائیکل وولف کے قول کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کا دھڑن تختہ کرسکے گا۔
اس میں گپ بازی پر انحصار کیا گیا ہے اور یہ اب ایسی کتب میں ایک عام سا انداز بن چکا ہے۔امریکا کے کم وبیش تما م سیاسی لیڈروں کے بارےمیں ’’ صدر کے اسکینڈلز ‘‘ یا ’’ خفیہ زندگی ‘‘ یا ’’ خوف ناک راز‘‘ ایسی کتابیں لکھی گئی ہیں۔یہ بہت ہی دلچسپ عنوانات ہیں لیکن ان کے اندر ایسا کچھ بھی مواد نہیں ہوتا ہے۔
ایسی کتابیں ایک عارضی جذباتی فضا ضرور بنا دیتی ہیں مگر ان سے کچھ بھی تبدیلی رونما نہیں ہوتی ہے۔یہ کتب صدر تو درکنار اس کے ذاتی محافظ کو بھی تبدیل نہیں کرسکتی ہیں۔اس طرح کی اسکینڈلوں پر مبنی کتب سے ان کے لکھاری اور پبلشر ہی مالی فائدہ اٹھاتے ہیں۔
مائیکل وولف نے اپنی کتاب میں بہت بڑا دعویٰ بلکہ وعدہ کیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت تلپٹ ہوجائے گی لیکن یہ دعویٰ کیسے پورا ہو گا،اس کا تو تصور بھی محال نظر آتا ہے۔میرے خیال میں یہ سب غوغا آرائی اس کتاب کی فروخت کے لیے کی گئی ہے۔مسٹر وولف بار بار اپنے اس دعوے کو دُہرا رہے ہیں اور انھوں نے کتاب کی اشاعت کے بعد بھی انٹرویوز میں ان کا اعادہ کیا ہے۔
ان کی دلیل یہ ہے کہ وائٹ ہاؤس کی ایک ٹیم صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو الگ تھلگ کرنے پر غور کررہی ہے اور اس کا یہ اقدام پچیسویں ترمیم پر مبنی ہوگا جو صدر کی معذوری کی صورت میں صدارتی جانشین کے انتخاب سے متعلق ہے۔یہ بہت ہی خطرناک بیانات ہیں لیکن وولف نے اپنی اس اسٹوری کی تائید کے لیے کسی معروف ذریعے پر انحصار نہیں کیا ہے۔جب ان سے اس حوالے سے سوال پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس موضوع پر ٹیم کے اعلیٰ عہدے داروں سے بات کی گئی ہے لیکن انھوں نے ان میں سے کسی ایک کا بھی نام نہیں لیا تھا۔
غیر منطقی نکتہ:
کتاب میں ایک اور غیر منطقی نکتہ یہ ہے کہ انتظامیہ کے تمام ارکان کو صدر ٹرمپ کی ذہنی صحت اور جذباتی استحکام پر شک ہے۔یہ ممکن ہے کہ بعض لوگ ایسا سمجھتے ہوں لیکن یہ کہنا کہ سبھی ایسا خیال کرتے ہیں کہ صدر ملک چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو یہ صریح مبالغہ آرائی ہے اور اس پر یقین کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔
امریکا کی سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی کے ڈائریکٹر مائیک پومپیو سمیت متعدد امریکی عہدے داروں نے اس موضوع پر گفتگو کی ہے۔پومپیو کی روزانہ ہی صدر سے ملاقات ہوتی ہے اور وہ یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ وہ کیسے سوچتے اور فیصلے کرتے ہیں۔ان کا یہ کہنا ہے کہ یہ کتاب احمقانہ تفصیل کا مرقع ہے اور اس میں حقائق پر انحصار نہیں کیا گیا ہے۔
نکّی ہیلی اور ٹرمپ کے معاون اسٹیفن ملر نے اس کتاب کو ’’کباڑ‘‘ قرار دیا ہے۔ریکس ٹیلرسن اور دوسروں نے بھی مائیکل وولف کے بیان کردہ حقائق کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ انھوں نے صرف ایک ذریعے پر انحصار کیا ہے۔
اگر منطقی انداز میں بات کی جائے تو یہ ناممکن نظر آتا ہے کہ تمام عہدے دار ہی بیک زبان ہو کر صدر ٹرمپ کے سامنے صرف ایک چیز کہنے پر متفق ہوجائیں اور ان کے بالکل مخالف سمت ہوجائیں۔ایسا کم بجٹ والی جاسوسی کہانیوں ہی میں ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے۔
یہ کہا جاتا ہے کہ اس کتاب کا سب سے اہم حصہ مصنف کی اسٹیو بینن سے گفتگو ہے۔یہ بات درست ہے کہ اگر بینن کی گفتگو اس کتاب میں شامل نہ ہوتی تو یہ پیالی میں اس طرح طوفان بھی برپا نہیں کرتی کیونکہ وہ صدر ٹرمپ کے قریب رہے تھے اور وہ خود بھی ایک دلچسپ کردار ہیں لیکن مسٹر بینن نے ٹرمپ کے بیٹے کے بارے میں جو کچھ کہا ہے، وہ ہرگز بھی نیا نہیں ہے۔
اب یہ ہوا ہے کہ بینن اپنے بیانات سے پھر گئے ہیں اور ان کا یہ کہنا ہے کہ ان کا ہرگز بھی مطلب اس (ٹرمپ جونیئر) کو بغاوت کا مورد الزام ٹھہرانا نہیں تھا۔ان کا تجزیہ دراصل درست ہے۔ ٹرمپ کے ناتجربے کار بیٹے کی کریملن سے تعلق داری کی دعوے دار روسی وکیل خاتون سے ملاقات ایک بہت بڑی غلطی تھی۔یہ دراصل ان کے لیے ایک جال بچھایا گیا تھا اور وہ اس میں پھنس گئے۔اس روسی خاتون کے پاس ہلیری کلنٹن کے بارے میں کوئی خاص معلومات نہیں تھیں۔یہ اور بات ہے کہ اس نے ایسا دعویٰ ضرور کیا تھا۔
وولف کا یہ بیان بھی مشتبہ ہے کہ بینن کو ٹرمپ کی صلاحیتوں پر شک ہے کیونکہ بینن تو اپنی مشہور ویب گاہ بریٹ بارٹ نیوز کے ذریعے اپنے سابق باس کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔تاہم بینن صدر ٹرمپ کی واشنگٹن میں مالیاتی اور سیاسی اداروں کے بارے میں مفاہمانہ پالیسی کو پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ خود ان کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے تھے۔
بینن سے ایسے بہت سے لوگوں نے ملاقات کی تھی جنھوں نے انھیں کہا تھا کہ وہ نئی کتاب لکھیں لیکن وہ سب اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ وہ ٹرمپ کے بارے میں کوئی مخالفانہ رویہ رکھتے ہیں یا بینن نے یہ کہا ہو کہ ٹرمپ ذہنی عارضے میں مبتلا ہیں اور ان کی یادداشت متاثر ہوچکی ہے۔یہ صرف وولف ہی ہیں جنھوں نے یہ کہانی گھڑی ہے کہ ٹرمپ احمق ہیں اور وہ بونوں میں گھرے ہوئے ہیں۔
دخل اندازی:
مائیکل وولف نے کتاب میں اپنی معلومات کو کہانی کے انداز میں اس طرح بیان کیا ہے جیسے وہ وائٹ ہاؤس کے ہر ایک کمرےمیں موجود تھے یا وہ کوئی ایسی اڑنے والی چیز تھے جس کی موجودگی کا کسی کو پتا ہی نہیں چل سکا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ انھوں نے دوسروں کے بیانات نقل کیے ہیں اور ان پر شک محض اس بنا پر کیا جارہا ہے کہ بیان نقل کرنے کا انداز بہت ہی کمزور اور بھونڈا ہے۔وولف یہ اعتراف کرتے ہیں کہ انھوں نے مختلف واقعات کے بارے میں متضاد بیانات سنے تھے اور پھر انھوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ان کا صرف ایک بیانیہ اختیار کیا جا ئے گا اور اس کے بارے میں ان کا ذاتی خیال یہ تھا کہ یہی دیانت دارانہ بیانیہ ہوسکتا ہے۔
مگر ان کے اس انداز نے شکوک میں اضافہ کر دیا کہ انھوں نے ایک ایسے راستے کا انتخاب کیا جو ایک ایسے حتمی نتیجے کی جانب لے جانے والا تھا جو پہلے ہی ان کے ذہن میں تھا۔وولف کی ساکھ کو اس وقت بھی دھچکا لگا ، جب انھوں نے یہ کہا کہ واشنگٹن پوسٹ کا ایک رپورٹر بھی اس ناشتے پر موجود تھا جس میں ایفانکا ٹرمپ نے شرکت کی تھی لیکن اس رپورٹر نے اس کی صاف صاف تردید کردی اور کہا کہ وہ تو اس وقت ایک اسپتال میں تھا کیونکہ وہاں اس کی بیوی داخل تھی اور اس کے ہاں بچے کی پیدائش ہونے والی تھی۔بعد میں پتا چلا کہ مسٹر وولف دو ناموں مائیک اور مارک میں الجھ کر رہ گئے تھے اور وہ ان میں فرق نہیں کرسکے تھے۔
اس کتاب میں بعض درست اور مشہور ومعروف معلومات کا بھی حوالہ دیا گیا ہے ۔مثلاً یہ لکھا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ پڑھتے نہیں ہیں۔وہ ایک وقت میں زیادہ دیر تک دوسروں کو گفتگو کرتے ہوئے سن بھی نہیں سکتے اور یہ کہ وہ اپنی کامیابیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔انھوں نے لکھا ہے کہ ٹرمپ میکڈونلڈ کے برگروں کو پسند کرتے ہیں اور وہ انھیں اس لیے بھی شوق سے تناول کرتے ہیں کہ ان میں زہر نہیں ہوگا۔وہ اور ان کی اہلیہ الگ الگ کمروں میں سوتے ہیں۔ وہ اپنے دوستوں کی بیویوں کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں۔انھوں نے ٹرمپ کی کردار کشی کے لیے یہ لکھا ہے کہ وہ عورتوں سے نفرت کرتے ہیں ۔
بائیں بازو کا لبرل میڈیا ویسے ہی صدر ٹرمپ کا مخالف ہے اور وہ انھیں مزاحیہ کردار قرار دیتا ہے۔ وہ صدارتی انتخاب کے لیے مہم کے دوران میں بھی ان کا مضحکہ اڑاتا رہا تھا لیکن جب وہ کامیاب ہوگئے تو اس نے انھیں پاگل شخص قرار دے دیا تھا جو ملک چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے۔گذشتہ ایک سال کے دوران میں ٹرمپ کے بارے میں یہی کچھ کہا جارہا ہے اور وولف ان بیانیوں کو مرتب کرنے اور انھیں ایک جاذب نظر شہ سرخی کے تحت کتاب میں جمع کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
اب سب سے اہم سوال یہ ہے :’’ کیا یہ کتاب ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کا تختہ الٹ دے گی؟ اس کا بالکل بھی امکان نظر نہیں آتا ہے کیونکہ ایسی حتمی شہادت جو انھیں مجرم ٹھہرا سکتی ہے، وہ ابھی تک منظرعام پر نہیں آئی ہے۔
کیا "فائراینڈفیوری "ٹرمپ کولے ڈوبے گی؟
previous post