صدرشعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ(بہار)
مغر بی بنگال بھارتیہ جنتا پارٹی خواتین وِنگ کی صدر اگنی ماتا پال نے رام مندر کی بنیاد رکھنے کے پروگرام کے سلسلے سے اپنی پارٹی کے سربراہ نریندر مودی کے لباس کے شعور کی تعریف کرتے ہوئے انھیں ہندستان میں فیشن انڈسٹری کو ایک نئی شناخت دینے والے شخص کے طَور پر پہچاننے کی کوشش کی۔ محترمہ اگنی ماتا پال یوں بھی ایک فیشن ڈیزائنر ہیںاور بھارتیہ جنتا پارٹی میں تازہ واردین میں ہیں۔ اس لیے انھوں نے اپنے لیڈر کو اپنی پُرانی تربیت کے مطابق سمجھنے کی کوشش کی اور اسی طور سے عوام کے بیچ میں مودی کا شناخت نامہ پیش کیا۔وہ سابق وزراے اعظم میں جواہر لال نہرو کے لباس کے شعور کو پسند کرتی ہیں مگر ان کا کہنا ہے کہ ہمارے موجودہ وزیرِ اعظم اُن سے آگے نکل چکے ہیں۔
نریندر مودی جب تک آر۔ ایس۔ایس۔ کے کُل وقتی کارندے کے طَور پر گلی محلّوں میں گھوٗمتے رہے، ان کے شعور ِ لباس پر کسی کی توجّہ نہیں گئی۔ ان کی پُرانی تصویریں اس بات کی گواہ ہیں کہ وہ بے حد سادہ اور متین لباس کے قائل رہے۔ آر ۔ایس۔ایس۔ سے جب وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے سکریٹری بن کر دلّی پہنچے، اس زمانے میں بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نریندر مودی کودلّی کی ہوا نہیں لگی۔ کُرتا پاجامہ یا دھوتی کُرتے یا خاکی پینٹ اور کُرتے میں وہ کبھی فیشن ایبل آدمی کی طرح نظر نہیں آئے۔ وہ جب گجرات کے وزیرِ اعلا بنائے گئے، وہاں تقریباً چودہ سال کی وزارت میں ان کے دھج میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نظر نہیں آیا۔ یہ یاد رہے کہ کپڑے کے مل اور کارخانوں کے لیے گجرات کی مرکزیت سے ہم سب واقف ہیں مگر وہاں کی فیشن انڈسٹری نے کبھی نریندر مودی کو اپنی مُٹّھی میں لینے میں کامیابی حاصل نہیں کی۔ وہ کم و بیش اسی سویم سیوک کی طرح سادگی اور بے فکری کا پیکر بنے رہے۔ ابتدائی دور میں ان کی مقبولیت اور رفتہ رفتہ قومی سطح کی پہچان میں اس ظاہری طَور کا بھی دخل ہے۔
۲۰۱۴ء کی آمد آمد تھی جب بھارتیہ جنتا پارٹی میں وہ رسّا کشی انجام کو پہنچی اور پارٹی کے متوقع وزیرِ اعظم امّید وار کے طَور پر نریندر مودی میدان میں آئے۔ ۲۰۱۴ء کے پارلیمانی انتخاب میں نریندر مودی نے ملک کے طوٗل و عرض میں بہت کامیابی کے ساتھ اپنے خطابات پیش کیے۔ یہ کہنا نامناسب نہیں ہو گا کہ اس انتخاب کی کامیاب مہم کی ہی پوری بھارتیہ جنتا پاری آج تک روٹیاں کھا رہی ہے۔ اسی دوران نریندر مودی نے کانگریسی وزیرِ اعظم، اس سے بڑھ کر ماں اور بیٹے کی سیاست کو اپنے قدموں سے روندتے ہوئے اپنی انتخابی مہم کے جارحانہ رُخ سے سب کچھ حاصل کر لیا۔ اس مہم کے دوران کبھی کبھی ایک دن میں نریندر مودی کی چار اور پانچ سبھائیں ہوتی تھیں ۔ ہندستانی سیاست میں دو خاص چیزیں اس وقت دیکھنے کو ملیں۔ ہر سبھا میں نریندر مودی کا لباس بدل جاتا تھا اور کانگریس کے لیڈران نے گھنٹے دو گھنٹے پہلے اپنی کسی تقریر میں کوئی بات پیش کی تھی، اس کا نریندر مودی بر محل جواب دیتے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ سیاست کا کوئی معاملہ باقی ماندہ کے خانے میں نہیں رکھتے تھے۔ آج کا سوال ہے تو اُسے آج ہی جواب دے کر خارج کر دیا جائے۔اس دوران ٹیلی وژن کے ہر نشریے میں نریندر مودی کی ایک مختلف انداز کی تصویر دکھائی دیتی۔ہمیشہ موضوع بھی نیا ہوتا اور لباس بھی ۔ ظاہر ہے دونوں جہت سے ایسا اہتمام کسی دوسرے سیاسی قائد کے یہاں دیکھنے کو نہیں ملتا تھا۔ نریندر مودی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا یہ ایک بنیادی سبب تھا۔
اس زمانے تک نریندر مودی نصف بانہوں کی شرٹ یا کُرتا پہنتے تھے۔ وزارتِ اعلا کے آخری دور میں کچھ عالمی اجتماعات میں وہ کورٹ اور پینٹ میں بھی نظر آ چکے تھے۔ اپنے کچھ غیر ملکی دَوروں میں بھی وہ مغربی جدّت پسندی کے ساتھ نظر آ چکے تھے مگر ان کی عوامی امیج لباس کی سادگی اور بے فکری کے ساتھ ہی قایم ہوئی تھی۔ مگر ۲۰۱۴ء کے انتخابات کے دوران نریندر مودی نے جتنے رنگ برنگے لباس پہنے اور اُتارے، اس سے یہ اندازہ ہونے لگا تھا کہ یہ سیاست کے ساتھ ایک نئے فیشن کے اَوتار کی بھی آمد آمد ہے۔ ایک متوقع وزیرِ اعظم کا انداز کیسا ہونا چاہیے، اسے ذہن میں رکھ کر نریندر مودی کی صوٗبائی حکومت اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایسا نیا اندازاختیار کیا ہوگا کہ نریندر مودی کا وہ جادوٗ چل گیا اور وہ وزیرِ اعظم کی کُرسی پر جلوہ افروز ہوئے۔
نریندر مودی جیسے ہی وزیرِ اعظم ہوئے، اب صوٗرت بدلنے لگتی ہے۔ الیکشن کی مہم میں وہ ہاف شرٹ میں ہی نظر آتے رہے مگر وزیرِ اعظم کے طَور پر حلف برداری میں ان کا کُرتا مکمّل بانہوں کا نظرآیا۔ فوراً یہ بات سمجھ میں آنے لگی کہ ہاف پینٹ اور ہاف شرٹ کی زندگی سے اب وہ چھلانگ لگا ئیں گے۔ پھر تو ایک نئی زندگی شروع ہو گئی۔ امریکہ کے صدر ہندستان آتے ہیں ، ان کے استقبال کے لیے نریندر مودی کے لیے جو کوٹ تیّار ہوا ، اس وقت اس کی قیمت دس لاکھ روپے بتائی گئی تھی۔ رفتہ رفتہ نریندر مودی وزیرِ اعظم کے ساتھ ساتھ ایک فیشن ایبل شخص کے طَور پر بھی اُبھرنے لگے۔ ٹیلی وژن میں ان کی پانچ طرح کی مصروفیتوں کا گوشوارہ آئے گا تو آپ یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ سب جگہ ان کا لباس اور ان کے کپڑوں کے رنگ بدلے ہوئے ہی ہوں گے۔ یعنی ٹیلی وژن سے خبریں دیکھنے والے افراد ایک ہی جیسے نریندر مودی کودیکھ کر اُکتائیںگے نہیں۔موقع و محل کے اعتبار سے ان میں واضح تبدیلی آپ محسوس کر سکتے ہیں۔ رفتہ رفتہ انھوں نے اپنے باڈی لینگویج میں بھی تبدیلی کی اور وہاں بھی پچھلے زمانے کا انداز نہیں رہا بلکہ انھوں نے ہاتھوں کے اشارے اورجسم کے اعضا سے بیان کو مستحکم کرنے کا نیا طَور قایم کیا۔ ضرورت کے مطابق مسکرا نا یا طنز کرنا بھی ان کے نئے انداز میں شامل ہو تا گیا۔
دنیا کی یہ ریٖت ہے کہ وہ اپنے قائدین کی نقل کرتی ہے۔ اگر ایسے لوگ نہ ہوں تو ان کی مقبولیت کا اندازہ کیسے ہو اور یہ بات بھی قابلِ توجّہ ہے کہ انھیں چاہنے والے نہ ہوں تو کس کے ووٹ سے وہ ایسے منصب تک پہنچیں گے۔ ایسا بھی نہیںہے کہ نریندر مودی ایسے پہلے وزیرِ اعظم ہیں جن کے انداز و لباس کی دنیا نقل کر رہی ہے۔ جواہر لال نہرو کی شروانی اور اس میں گلا ب رکھنے کا فیشن توصرف کانگریسیوںنے نہیں اپنایا بلکہ عوام و خواص میں بھی اُسے مقبولیت ملی تھی۔ مگر جواہر لال نہرو بھڑکتے ہوئے رنگوں کے شیدا نہیںتھے۔ اندر اگاندھی کے انداز کو بھی سیاست میں موجود خواتین نے اپنانے کی کوشش کی۔ راجیو گاندھی نے شال اوڑھنے کا ایک عجیب و غریب ڈھب اپنایا جسے کانگریس کے لوگوں نے ہوٗ بہ ہوٗ اپنانے کی کوشش کی۔
آزادی کی لڑائی میں مہاتما گاندھی نے کھادی اور سادہ لباس کی وکالت کی تھی۔ وہ خود بھی آدھا لباس پہنتے تھے اور ملک کے حالات کے پیشِ نظر اسے موزوں سمجھتے تھے۔ خاص طور سے ملک میں غربت اور پریشاں حالی کی وجہ سے ان کا ماننا تھا کہ جب تک سارے لوگوں کو پیٹ بھر کھانا اور پورا لباس میسّر نہیں آ جاتا، اس وقت تک انھیں یہ منظوٗر نہیں تھا کہ اپنے جسم پر پوٗرا لباس ڈالیں۔ انھیں یہ عادت غربت کا مذاق اُڑانے جیسی لگتی تھی۔
غالباً ۱۹۷۷ء کا دور تھا۔ ملک میں نئی وزارتیں بن چکی تھیں۔ بہار کے وزیرِ اعلا کرپوری ٹھاکر تھے۔ جے پرکاش نرائن کے گھر پر اس وقت جنتا پارٹی کے صدر چندر شیکھر جے ۔پی کی تیمار داری میں آئے ہوئے تھے۔ اسی دوران وہاں کرپوری ٹھاکر بھی پہنچ گئے۔ اس محفل میں سیاست اور سماج سے متعلق بہت ساری برگزیدہ شخصیات بھی موجود تھیں۔ اچانک چندر شیکھر جی اُٹھے اور اپنے دامن کو بھیک کے کاسے میں تبدیل کر تے ہوئے لوگوں کے سامنے باری باری سے پہنچنے لگے اور لوگوں سے بہار کے وزیرِ اعلا کے لیے کپڑا خریدنے کا چندہ طلب کرنے لگے۔ سب جانتے تھے کہ کر پوری ٹھاکر پھٹے پُرانے لباس میں اپنا کام چلالیتے ہیں۔ اس وقت بھی کرپوری ٹھاکر اسی انداز کے لباس میں موجود تھے۔ لوگوں نے فراخ دلی سے حسب استطاعت چندہ پیش کیا۔ اتنی رقم آ گئی کہ وزیرِ اعلا کے کئی لباس تیّار ہو سکتے تھے۔ چندر شیکھر جی نے وہ رقم جے پرکاش نرائن کے ہاتھ میں دی اور جے ۔ پی سے یہ گزارش کی کہ آپ انھیں یہ رقم دیتے ہوئے اس بات کی خاص ہدایت کریں کہ یہ کسی دوسرے کام میں نہ لگا دیں۔ جے ۔ پی۔ نے وہ رقم کرپوری ٹھاکر کو دی۔ وہیں اس وقت کے بہار کے چیف سکریٹری بھی موجود تھے۔ کرپوری ٹھاکر نے وہ رقم انھیں دیتے ہوئے یہ ہدایت دی کہ اس رقم کو وزیرِ اعلا ریلیف فنڈ میں جمع کر دیا جائے۔
کورونا کے آغاز کے دور میں وزیرِ اعظم نریندر مودی نے قوم کے نام جو خطابات شروع کیے، اس وقت انھوں نے ماسک کے بدل کے طور پر گمچھا یا دوپٹے کا بھی مشورہ دیا تھا۔ جنھوں نے وہ تقریر ٹیلی وژن پر سُنی تھی، اس میں بھی گمچھا رکھنے اور ہٹانے کے ڈرامائی انداز کو ملاحظہ کیا ہوگا۔ اس دن کے بعد آج تک نریندر مودی کی جتنی بھی تصویریں نظر آئیں، ان میں وہ نئے بارڈر اور پرنٹ کے گمچھوں کے ساتھ نظر آئے۔ وہ کار سیوک کے زمانے میں بھی گمچھوں کے ساتھ ہوتے تھے۔ اس زمانے میں وہ گمچھے تولیہ کا بدل ہوتے تھے اور ان سے کام لیے جاتے تھے مگر ابھی تونام نہاد منھ چھپانے کے ہی کام لیے جاتے ہیں۔ مگر ہمیشہ فیشن اوتار اسے اتنے رنگ اور اتنے انداز سے پیش کرتا ہے کہ یہ یقین ہی نہیں آتا کہ جمہوریت میں لوگوں کی گاڑھی کمائی سے جو رقم حکومت تک پہنچتی ہے ، اسی کا یہ فیّا ضانہ طَور اور یہ شاہ خرچی کیوں کر مناسب ہے۔ یہ شاہ خرچی اُس زمانے میں بھی آسمان کو چھوٗ رہی ہے جب ہندستان اور پوری دنیا مصیبتوں کے بھنور میں بے دم ہیں۔ کروڑوں لوگ بے روز گار ہوئے اور بھوکے مرنے کے لیے مجبور ہیں مگر جمہوری دور کا یہ نمایندہ ان سب سے بے پروا ہو کر اپنی فیشن پرستی کی داد لینے میں مصروف ہے اور کمال تو یہ ہے کہ اس کے ارد گرد بھی اس کے ایسے ہی چاہنے والے موجود ہیں جو اس کی عوامی جواب دہی سے پرے جا کر صرف ایک ذات اور شخصیت کے طور پر اُسے پہنچاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ کسی بھی جمہوری ملک میں عوام کے پیسوں پر اپنے خوابوں کی فصیل سجانا نا مناسب ہے۔
پچھلے کچھ دنوں سے نریندر مودی کی داڑھی بڑھ رہی تھی اور بال بھی پیچھے کی طرف لمبے ہو رہے تھے۔ لاک ڈائون کے زمانے میں جب تمام سیلون بند تھے، سارے ہندستان کا کم و بیش یہی انداز تھا مگر اُس زمانے میں بھی نریندر مودی سجے دھجے دکھائی دے رہے تھے۔ مجھے اوّلاً یہ سوٗجھا تھاکہ یہ امیج رام بھکتی کی داد لینے کے لیے تیّار کی جا رہی ہے۔ پیلے لباس ، دوشالہ سب میں وہ سادھوٗ سنتوںکے نئے سردار کے طَور پر سامنے آئے۔ درشن میں اسی فیشن ایبل انداز میں انھوں نے دنڈوت بھی کیا۔ منھ کے بل زمین سے ایسے لگے جیسا کوئی دوسرا رام بھکت کہاں سے پیدا ہو سکتا ہے؟ دیکھنا یہ ہے کہ اب بال اور داڑھی کا یہ انداز کتنے دنوں تک قایم رہتا ہے۔ کبھی کبھی اندیشہ ہوتا ہے کہ اب حکم رانی کا نئے اوتار کا یہ چہرہ پہلے سے زیادہ فرقہ پرست ، پہلے سے بڑھ کر انصاف کا قاتل، پہلے سے بڑھ کر اقلیت اور محرورم طبقوں کا دشمن تو نہیں ہوگا؟ دیکھنے میں بیراگی مگر ملک کے عام لوگوں کی زندگی کا سودا گر؛خدا خیر کرے!!!