عبدالرشید طلحہ نعمانیؔ
مغرب نے آزادی نسواں اور مساوات مردوزن کا جو عجیب وغریب فلسفہ پیش کیا اور آج دنیا بھر میں مغرب زدہ افراد بین الاقوامی سطح پر اسی کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں، بہ نظر غائر دیکھا جائےتو ہر دانشمنداور صاحب عقل وخرد اس بات سے اتفاق کرےگا کہ صنفی برابری کا یہ نعرہ محض ایک خوشنما فریب تھا ،خاتون مشرق کو لیلائے مغرب بنانے کی سوچی سمجھی سازش تھی اور اک نئے ہتھکنڈے کے ذریعہ عورتوں کے استحصال کا منصوبہ بند پلان تھا جو رفتہ رفتہ خواتین کے دل و دماغ میں پیوست کیاجاتارہا ۔کبھی پردہ کو ہدف تنقید بنایا گیا، کبھی حجاب پر پابندی عائد کرنے کی بات کی گئی، کبھی اختیار طلاق و تعدد ازدواج پر سوال اٹھائے گئے اور کبھی منصب امامت و حکومت کے حوالے سے غلط فہمیاں عام کی گئیں۔
‘جاہلیت ِجدیدہ ‘ کی بنیادی اقدار میں ‘آزادی’ کے بعد ‘مساوات’ کا نام لیا جاتا ہے، سننے کی حد تک یہ ایک خوبصورت لفظ اور دل لگتی اصطلاح ہے۔ یعنی ‘برابری’ اور ‘ تسویہ’ لیکن اپنی اصلیت اور حقیقت میں اسلام کی بنیادی قدر ‘عدل’ کی نفی ہے اور فرقِ مراتب کی ضد ہے ۔ مسلمانوں کے بعض مفکرین اور دانشور جو ‘جاہلیت’ ہی کے خوشہ چیں بن کر رہ گئے ہیں، اس مغربی قدر کو مغربی جانتے ہوئے بھی مسلمانوں کے سر تھوپنا چاہتے ہیں؛ مگر کئی سادہ لوح ‘مساوات’ کو’ اسلامی قدر’ کے طور پر جانتے ہیں اور اسی حیثیت سے منوانا چاہتے ہیں؛جبکہ اسلام ‘عدل’ کا دین ہے، عدل کے مقابل ‘ظلم’ کا لفظ آتا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ صنفی اعتبار سے تمام انسانوں کو برابر کا درجہ دے دینا ایک’ظلم ‘ہے جسے آج کی جاہلیت مساوات کا نام دیتی ہے۔ اہل مغرب نے اسلام کو بدنام کرنےاور اس کی روز افزوں ترقی پر روک لگانے کے لیےگام بہ گام ان عورتوں کا بھرپور استعمال کیاجونام کے اعتبار سے تو مسلمان دکھائی دیتی ہوں ؛مگر کام کے اعتبار سے مغربی ایجنڈے کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہوں،چناں چہ اسی مکاری اور عیاری کی ایک تازہ مثال حالیہ دنوں پیش آمدہ واقعہ ہے ؛جس میں ایک نام نہاد مسلم خاتون نے چند مردوں کی امامت کے ذریعہ جنسی مساوات کا شوشہ چھوڑنے کی کوشش کی ہے ۔
اخباری اطلاعات و نشریات کے مطابق کیرالہ سے خبر ہے کہ وہاں ایک 34 سالہ خاتون نے اپنی امامت میں نماز جمعہ پڑھائی ۔ ملک کی تاریخ میں شاید یہ پہلا واقعہ ہےکہ کیرالہ میں قرآن و سنت سوسائٹی کی جنرل سیکرٹری‘ جمیدا’(جامدہ)نے مسلم اکثریتی ضلع میں سوسائٹی کے دفتر کے اندر جمعہ کی امامت کی اور یہ کہا کہ قرآن‘ مرد اور عورت میں کسی طرح کی تفریق نہیں کرتااور اسلام میں خواتین کے امام بننے پر کوئی پابندی نہیں۔ ایک خاتون امام بن کر مردوں کو نماز پڑھا سکتی ہے، اس کے ذریعہ وہ جنسی تبعیض کو مٹانا چاہتی ہیں اور خواتین کو مردوں کے برابر درجہ دلانا چاہتی ہیں۔ وہ قرآن و سنت کی سو سائٹی سے وابستہ ہیں اور سو سائٹی ترقی پسند سوچ رکھتی ہیں نیز خواتین کے حقوق کے لیے وہ آگے بھی اسی طرح مردوں کی امامت کرتی رہیں گی۔ سوشل میڈیا پر جمیتا کی امامت کی ویڈیو وائرل ہو رہی ہے؛ اس سے ایسا محسوس ہوتاہے کہ اس عورت کو نماز پڑھنا ہی نہیں آتا ؛کیونکہ جو ویڈیو میں نظر آ رہا ہے‘ اس میں جمیدا،رکوع سے اٹھتے وقت ”اللہ اکبر‘‘ کہہ کر کھڑی ہو جاتی ہے۔
اس واقعہ کے کچھ ہی دنوں بعدابھی دو یوم قبل جمیدا نے ایک سنسنی خیزبیان نیوز18ہندی سے فون پرخاص بات چیت کے دوران دیا کہ نماز پانچ وقت کی نہیں تین وقت کی ہوتی ہے؛جوصبح،شام اور رات کے وقت ادا کی جاتی ہے۔وہیں دوسری جانب جمیدا نے نماز ادا کرنے کے طریقے پر بھی سوال اٹھایاہے،جمیدہ کا کہنا ہے کہ ایک بار ایک رکعت میں صرف ایک مرتبہ ہی سجدہ ہوتا ہے؛لیکن دن میں تین نماز اور ایک سجدے کا ذکر قرآن میں کہاں کیاگیا ہےاس سوال پر جمیدا خاموش اورشش در رہ گئی۔جمیدا کا کہنا ہے کہ ہم صرف قرآن کو مانتے ہیں،حدیث میں لکھی باتوں کو نہیں مانتے۔
ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ صرف ایک ہنگامہ کھڑا کرنےاور انتشار کو ہوا دینے کے لئے‘ ایسی عورت کو امام بنادیا گیا؛ جس کو صحیح طریقے سے نماز پڑھنا بھی نہیں آتا۔ یہاں عورت کی امامت سے صرف اور صرف یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ اب ملک میں اسلام کی نئی شکل سامنے آنے والی ہے۔ جس طرح طلاق کے معاملے میں حکومت نے مداخلت کی‘ اسی طرح اب نماز میں بھی مداخلت ہو رہی ہے۔یہاں یہ بات بھی واضح رہےکہ جمیدا کی بی جے پی لیدڑوں کے ساتھ تصاویربھی وائرل ہورہی ہیں جس میں مردوں کےساتھ ٹھٹا کرتے ہو ئے دکھایاجارہاہے ،دین اسلام کو بدنام کرنے کی غرض سے سپریم کورٹ جانے والی عشرت جہاں کی خاک بھی وہیں پہونچ چکی ہے جہاں اس کے خمیرتیارہونے کادعویٰ کیاجارہاتھا۔جمیدہ کے بارے میں بھی ایسی ہی قیاس آرائیاں سوشل میڈیاپرگرم ہیں۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت یہ ہندوستانی مسلمانوں کے اندر بے چینی پیدا کرنے کی کارروائی ہے،جمیدا کی بیان بازی سے جہاں اس کا منکر حدیث ہونا ثابت ہوتاہے وہیں بعض دیگر ذرائع سے فرقۂ قادیانیت کی طرف بھی اس کی نسبت کی جارہی ہےاور یہ بھی بتلایا جارہاہے کہ جمیدانے پہلے عیسائی مذہب بھی قبول کیاتھا ۔
یادرہے کہ اس سے قبل امریکہ کی ریاست ورجینیا میں افریقہ سے تعلق رکھنے والی اسلامیات کی ایک پروفیسر امینہ ودود نے نیو یارک اپرمین ہیٹن کی ایک عمارت ایمسٹرڈیم ایونیو میں ایک چرچ کے بڑے ہال میں نماز جمعہ کی امامت کر کے سستی شہرت حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔
پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیم مساوات :
مساوات کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ عورت اور مرد دائرۂ کار لازمی طور پر ایک ہی ہو۔ دونوں ایک ہی جیسے کام کریں۔ دونوں پر زندگی کے تمام شعبہ جات کی ذمہ داریاں یکساں طور پر عائد کر دی جائیں۔ اس معاملے میں فطرت نے دونوں پر مساوی بار نہیں ڈالا ہے۔
برصغیر کے ایک معروف دانشور نےکیا خوب لکھاہے ‘‘کیا عدل یہی ہے کہ عورت سے ان فطری ذمہ داریوں کی بجاآوری بھی کرائی جائے جن میں مرد اس کا شریک نہیں ہے اور پھر اس کے ساتھ ساتھ ان تمدنی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی اس پر مرد کے برابر ڈال دیا جائے جن کو سنبھالنے کے لیے مرد کو فطرت کی تمام ذمہ داریوں سے آزاد رکھا گیا ہے؟عورت سے یہ کہا جائے کہ وہ ساری مصیبتیں بھی برداشت کرے جو فطرت نے اس پر ڈالی ہیں اور پھر ہمارے ساتھ آکر روزی کمانے کی مشقتیں بھی اٹھائے۔ سیاست، عدالت، صنعت و حرفت، تجارت و زراعت اور قیام امن و مدافعت وطن کے خدمتوں میں بھی برابر کا حصہ لے! ہماری سوسائٹی میں آکر دل بھی بہلائے اور عیش و عشرت اور لطف و لذت کے سامان بھی فراہم کرے۔ یہ عدل نہیں ظلم ہے اور مساوات نہیں صریح عدم مساوات ہے۔‘‘
فطری اعتبار سے عورت کی کمزوری کے پیش نظر اسلام میں گواہی کے معاملے کو دیکھا جائے تو واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ایک مرد کی جگہ‘ دو عورتیں ہوں گی۔ نکاح کے وقت دو مردوں کی گواہی شرط ہے۔ اگر دو مرد دستیاب نہیں تو ایک مرد اور اس کے مقابلے میں دو عورتیں گواہ بنائی جائیں گی۔ یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ جب ایک عورت بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلائے گی۔ اس سے واضح ہو گیا کہ اسلام میں عورتیں اور مرد کسی بھی حالت میں ہر اعتبار سے برابر نہیں ہو سکتے۔ دوسری بات کہ عورتوں کی خاص بناوٹ کی وجہ سے وہ پورا مہینہ پاک نہیں رہ سکتیں،نیز امور خانہ داری اور گھر گرہستی میں مشغولیت انہیں ذہنی طور پر اجتماعی امور میں شرکت کی اجازت نہیں دیتی، انہیں وجوہ کی بنا پر عورتوں کی امامت جائز قرار نہیں دی گئی۔
عورت کی امامت میزان عقل میں :
اسلام ‘دینِ قسط’ ہے۔ بندہ ہونے کے ناطے مرد اور عورت برابرہیں،نماز کی ادائیگی اور فرائض کا اہتمام دونوں پر فرض ہے،ثواب وعقاب میں دونوں کے ساتھ مساوات ہے؛مگر چوں کہ صنفی اعتبار سےدونوں مختلف ہیں اس بناپر عورت کے لئے حیض کے دنوں میں نماز معاف اور روزہ قضا کردیا گیا۔ وراثت کا حق دار تو دونوں کو قرار دیا گیا، لیکن ذمہ داریوں میں فرق کی وجہ سے حق میں تفریق کردی گئی۔ معاشی سرگرمیوں کی اجازت دونوں کے لئے ہے لیکن فریضہ یہ مردوں کا قرار پایا۔ جہاد میں شرکت کی اجازت دونوں کے لئے ہے، لیکن فرض صرف مردوں پر ہے۔
اسی طرح اسلام وہ اولین مذہب ہے، جس نے حجاب کے ذریعے مسلم عورت کی عزت و وقار کو سربلند کرکے معاشرے کی ہوسناکی سے پاک کیا ہے۔ عورت کا پردہ بلاشبہ اک دینی امر ہے جس کا مقصد معاشرے کو خطرناک مرض (فواحش و منکرات) سے بچانا ہےاورعورت کی عصمت کے تحفظ میں بڑا دخل اس کی وضع و لباس کے وقار کو ہے۔ جس خاتون کا لباس و چال ڈھال حیادارانہ ہو وہ اذیت رسانی سے محفوظ نہیں رہتی۔اس لحاظ سے اگر عورت کو منصب امامت تفویض کیا جائے تو اس کی پہلی زد اسی پردے اور حجاب پر پڑے گی جو اس کی عزت و عصمت کا محافظ ہے ۔
کتاب وسنت کے دلائل کی رو سےمنصب امامت اور امور حکومت کی نظامت مرد کی ذمہ داری ہے اور فطری اعتبار سے بھی اجتماعی و معاشرتی ذمہ داریوں سے ایک مضبوط اعصاب کا مالک مرد ہی عہدہ برآ ہو سکتاہے؛کیونکہ عورتوں کی کچھ طبعی کمزوریاں اور شرعی حدود ہیں؛ جن کی وجہ سے نا تو وہ مردوں کے شانہ بشانہ اجتماعی امور میں شریک ہوسکتی ہیں اور نہ اپنے وقار کو بحال رکھتے ہوئے فریضۂ امامت انجام دے سکتی ہیں ،فطرتا عقلی کمزوری بھی عورت کی حکمرانی میں رکاوٹ ہے ۔ان اسباب کے پیش نظر عورت کی امامت و حکمرانی قطعاً درست نہیں بلکہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی رو سے اگر کوئی عورت کسی ملک کی حکمران بن جائے تو یہ اسکی تباہی و بربادی کا پیش خیمہ ہو گی ۔
مرد کی امامت ؛نصوص قطعیہ کی روشنی میں
1: اللہ پاک کا ارشاد ہے:مرد حاکم ہے عورتوں پر۔(النساء4: 34)
مفسرینؒ نے اس آیت کے تحت عورتوں کی امامت کا جائز نہ ہونابیان فرمایا ہے۔ذیل میں چند حوالے نقل کیے جاتےہیں:چناچہ امام رازی ؒ اس کی تشریح میں طویل کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’عورتوں پر مردوں کو بہت سی وجوہ سے فضیلت حاصل ہے۔ ان میں سے بعض حقیقی اوصاف ہیں اور بعض شرعی احکام۔ جہاں تک حقیقی اوصاف کا تعلق ہے تو ان کی بنیاد دو چیزوں پر ہے: علم اور قدرت ۔ اس میں شک نہیں کہ مردوں کی عقل اور ان کا علم بڑھا ہوا ہوتا ہے اور اس میں بھی شک نہیں کہ انھیں پُرمشقت کاموں کو انجام دینے کی بھرپور قدرت حاصل ہوتی ہے۔ انھی دو اسباب سے مردوں کو عورتوں پر عقل ، دور اندیشی ، قوت، تحقیق و تصنیف، شہ سواری، تیراندازی کے معاملے میں فضیلت حاصل ہے اور یہ کہ ان میں انبیا اور علما ہوئے ہیں، وہ امامتِ کبریٰ اور امامتِ صغریٰ کے مناصب پر فائز ہوتے ہیں۔ جہاد، اذان، خطبہ، اعتکاف اور حدود و قصاص میں شہادت کے معاملے میں بالاتفاق اور امام شافعی کے نزدیک نکاح کے معاملے میں بھی انھیں فضیلت حاصل ہے۔ میراث میں ان کا حصہ زیادہ ہوتا ہے۔ قتلِ عمد اور قتلِ خطا میں وہ دیت ادا کرتے ہیں۔ نکاح میں انھیں ولایت حاصل ہے۔ طلاق، رجعت اور تعدّد ازدواج کا بھی انھیں حق ہے۔ اولاد ان کی طرف منسوب ہوتی ہے۔ یہ تمام چیزیں عورتوں پر مردوں کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں‘‘۔ (تفسیرکبیر)
اسی طرح مفتیٔ بغداد علامہ آلوسی ؒ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
اسی بنا پر مردوں کو مخصوص کیا گیا رسالت و نبوت کے ساتھ ،امامت کبری و صغری کے ساتھ اور اسلامی شعائر مثلا اذان ، اقامت اور خطبہ و جمعہ کے ساتھ۔۔۔۔۔وغیرہ۔(روح المعانی)
حضرت مولا نامفتی محمد شفیع صاحب ؒ سورۂ نمل کی آیت متعلق ملکہ سبا کی تفسیر کے ذیل میں تحریر فرماتے ہیں:
’’اسی لئے علماء امت اس پر متفق ہیں کہ کسی عورت کو امامت و خلافت یا سلطنت و حکومت سپرد نہیں کی جاسکتی ،بلکہ نماز کی امامت کی طرح امامت کبری بھی صرف مردوں کو سزا وار ہے۔
قرآن کریم کی مذکورہ بالا آیات میں مردوں کو عورتوں پر قوّام بنائے جانے کے تذکرے کے ساتھ وہ اسباب بھی بیان کردیے گئے ہیں جن کی بنا پر انھیں یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اس سلسلے میں دو اسباب مذکور ہیں۔ مفسرین کے بیان کے مطابق پہلا سبب وہبی ہے اور دوسرا کسبی۔
وھبی فضیلت: پہلے سبب کے ضمن میں قرآن نے بہ طریق اجمال بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض پہلوؤں سے مردوں کو عورتوں پر فوقیت بخشی ہے۔ اس سبب سے کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دو سرے پر فضیلت دی ہے۔(النساء4: 34)
آیت کے اس ٹکڑے میں اگرچہ صراحت نہیں ہے کہ کس کو کس پر فضیلت حاصل ہے، لیکن سیاقِ کلام سے واضح ہے کہ یہاں مقصود مردوں کی عورتوں پر فضیلت کا بیان ہے۔ پھر یہ فضیلت ایک جنس کی دوسری جنس پر ہے۔ ورنہ افراد کے اعتبار سے دیکھا جائے تو طبقۂ اناث میں بعض افراد ایسے ہوسکتے ہیں جنھیں بعض مردوں پر فضیلت حاصل ہو (ابوحیان، 3 / 335)۔ مزید یہ کہ یہاں صرف وہ فضیلت زیرِ بحث ہے جس سے مردوں کے لیے قوّامیت کا استحقاق ثابت ہوتا ہو۔
کسبی فضیلت :عورتوں پرمردوں کی فضیلت کا دوسرا سبب قرآن نے یہ بیان کیا: اور اس سبب سے کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔ (النساء4: 34)
شریعت نے افرادِ خاندان کی کفالت کرنے، ان کی ضروریاتِ زندگی پوری کرنے اور ان کے لیے وسائلِ معاش فراہم کرنے کی ذمہ داری مرد پر عائد کی ہے اور عورت کو اس سے بالکل آزاد رکھا ہے۔ یہ چیز بھی مرد کو خاندان کی سربراہی کے مقام پر فائز کرتی ہے۔
2:حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ میں نے آپ ﷺ کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا کہ پھر طویل حدیث نقل فرمائی ،خبردار کوئی عورت مرد کی امامت نہ کرے۔(رواہ ابن ماجہ و البیہقی)
اس حدیث میں بالکل صراحت سے آپ ﷺ نے عورتوں کی امامت سے منع فرمایا ہے۔
3:حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : مردوں کی صفوں میں بہتر صف اس کی پہلی صف ہے اور بری صف اس کی آخری صف ہے۔(مسلم)عورت جب امامت کرے گی تو اول صف میں ہوگی اور اسے آپ ﷺ شر سے تعبیر فرمارہے ہیں۔
4:آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ:مرد جب عورتوں کی اطاعت کریں گے تو ہلاک ہوجائیں گے۔(مسنداحمد)
ظاہر ہے جب عورت مرد کی امامت کرے گی تو مرد کو اس کی اطاعت کرنے پڑے گی اور اس پر آپ ﷺ ہلاکت کا اظہار فرما رہے ہیں۔
5:حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:عورتوں کی جماعت میں کوئی خیر نہیں الا یہ کہ مسجد میں ہو۔(مسنداحمد)
آپ ﷺعورتوں کی جماعت میں ہر طرح کی خیر کی نفی فرمارہے ہیں الا یہ کہ مسجد میں ہو تو چونکہ عورت مرد کی اقتدا میں ہوگی ۔
6:حضرت سہل بن سعدؓسے مروہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : تسبیح مردوں کے لئے ہے اور تصفیق عورتوں کے لئے ۔(سنن ابوادؤد) بہت غور کا مقام ہے کہ آپ ﷺ نے امام کے بھول جانے کی صورت میں مرد کے لئے یہ حکم دیا کہ تسبیح کہہ کر امام کو مطلع کرے، مگر عورت کو تسبیح کہنے تک کی اجازت نہیں دی، بلکہ ان کے لئے یہ حکم دیا کہ تصفیق یعنی ایک ہاتھ کی پشت دوسرے ہاتھ پر مار ے۔جب شریعت میں اتنی اہمیت عورت کی آواز کو دی گئی تو امامت کی کہاں اجازت دی جاسکتی ہے۔
7: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے موقوفاً روایت ہے کہ:”عورتوں کو پیچھے رکھو، جیسے اللہ نے ان کو پیچھے رکھا ہے۔(ابن ماجہ) “ ایک اور روایت سے اس کی تائید بھی ہوتی ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے، اور آپ نے حضرت انس، یتیم (ضمیرہ) اور ام سلیم رضی اللہ عنہم کی امامت کی، تو اس وقت ام سلیم رضی اللہ عنہا، حضرت انس و یتیم کے پیچھے تنہا کھڑی ہوئیں۔ (صحیح بخاری، ص: ۱۰۰، ۱۰۱،ج:۱) حالانکہ ایک موقع پر صف کے پیچھے تنہا کھڑے ہوکر نماز پڑھنے والے ایک صاحب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے اعادہ کا حکم فرمایا تھا۔ معلوم ہوا کہ عورت کو مرد کے پیچھے کھڑا ہونا چاہئے، اور مردوں کی امامت کی صورت میں عورت کا مردوں کے آگے ہونا لازم آئے گا۔
المختصر:انسانی تاریخ میں صرف دو تہذیبیں ہیں، جنھوں نے عورت کے مرتبہ کو گھٹایا، ایک قدیم مشرکانہ تہذیب، اور دوسری جدید ملحدانہ تہذیب، اوّل الذکر نے نظری اور عملی دونوں حیثیت سے، اور ثانی الذکر نے عملی حیثیت سے۔ چنانچہ جدید مغربی تہذیب نے نظری طور پر بظاہر عورت کا درجہ بلند کرنے کا اعلان کیا، اس نے کہا کہ عورت اور مرد دونوں ہر حیثیت سے برابر ہیں، مگر یہ بات بدیہی ہے، کہ ہر ہر معاملہ میں مساوات نہ ہوسکی ہے اور نہ ہوسکتی ہے، برابری کے خوبصورت دعووں کے باوجود زندگی کے تمام جدید شعبوں میں عورت کا درجہ مرد سے کم ہے۔ مساوات اور برابری کا ڈھنڈورا پیٹنے والے مغربی ممالک کی کتنی خواتین آج تک صدر یا وزیرِ اعظم بنیں؟ کتنی خواتین کوچیف جسٹس یا جج بنایاگیا؟ کتنی عورتوں کو دوسرے اعلی مناصب پر فائزکیاگیا؟ اعداد و شمار جمع کیے جائیں، توایسی عورتوں کا تناسب بمشکل چند فی لاکھ ہوگا۔ مغربی مساوات (جس قدر بھی ہے، وہ) باہر ہی سے دیکھی جارہی ہے، کبھی اندر سے دیکھی جائے تو رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔ لہٰذا صرف لفظ ”مساوات“ پر اڑے رہنا دانش مندی نہیں ہے؛ بلکہ ”مساوات“ کے صحیح مفہوم پر غور ہونا چاہئے۔
کہتے ہیں مساوات اسی کو تو ستم ہے
اتنی ہی خوشی ان کو ہے جتنا مجھے غم ہے
کہتے ہیں مساوات اسی کو تو ستم ہے!
previous post