Home نظم کوششیں پھر کیجیے تازہ بہاروں کے لیے

کوششیں پھر کیجیے تازہ بہاروں کے لیے

by قندیل

تازہ بہ تازہ، سلسلہ 17

فضیل احمد ناصری

زلفِ شب تخلیق پائی چاند تاروں کے لیے
عاشقوں کے دل بنے ہیں ماہ پاروں کے لیے

کون مسلم،کیسا ایماں،کیسی الفت دین کی
قوم اپنی وقف ہے اب یادگاروں کے لیے

اب توواضح گفتگوبھی فہم میں آتی نہیں
یوں بھی موزوں ہےاشارہ ہوشیاروں کیلیے

حسنِ عالَم پر فدا ہیں آج یوں مرغِ حرم
جیسے آئے ہوں یہاں رنگیں نظاروں کیلیے

زہرِ بے تریاق بن کر رہ گئی اب یہ فضا
کوششیں پھر کیجیے تازہ بہاروں کے لیے

ہند ہی کیا، عالَمِ اسلام بھی محشر ہوا
تنگ تر ہے قافیہ ملت شعاروں کے لیے

شام و برما ہو،فلسطیں ہوکہ لنکاکی زمیں
بن گیا سارا جہاں شعلوں، شراروں کے لیے

آہ وہ اپنے مؤذن بت کدے میں جا گرے
جن کی تکبیرِ مسلسل تھی مناروں کیلیے

اشکِ غم کی وہ روانی کھا گئے پیرِ کنشت
وہ روانی جو کبھی تھی آبشاروں کے لیے

You may also like

Leave a Comment