تازہ بہ تازہ، سلسلہ 11
فضیل احمد ناصری
کوئی قانون بنے آج ہی شاہوں کے لیے
ورنہ تیار رہے ملک گناہوں کے لیے
آؤ پھر بیٹھ کے ہم رسمِ کہن تازہ کریں
کوئی دارو نہیں اب کور نگاہوں کے لیے
گرد ہیں کوہ مرے جوشِ سفر کے آگے
کیوں بچھاتے ہو چٹانیں مری راہوں کے لیے
دلِ صدپارہ کی منزل ہے خدا کی کرسی
راستے صاف ہیں، مظلوم کی آہوں کے لیے
خاندانوں میں ہیں تقسیم مسلماں اب بھی
یہ ہے شیخوں کےلیے، یہ ہےجلاہوں کیلیے
ہلکے مجرم پسِ زنداں تو پہونچ جاتے ہیں
کوئی تعزیر نہیں پشت پناہوں کے لیے
سر بکف ہو کے بھلا کون حقائق اگلے
کچھ تحفظ بھی فراہم ہو گواہوں کے لیے
تھی کسی دور میں آئینۂ ایام، مگر
اب صحافت ہے خواتین کی بانہوں کے لیے
جاؤ کچھ کام کرو، گنجفہ بازی چھوڑو
یہ عمل ٹھیک نہیں، تزکیہ گاہوں کے لیے