Home ستاروں کےدرمیاں کردار نبھاتا مصنف

کردار نبھاتا مصنف

by قندیل


سعود عثمانی
طور صاحب نے گول گول شیشوں والی عینک کے پیچھے سے مجھے گھور کے دیکھا۔ایسا لگتا تھا کہ وہ کسی بات پر ناراض ہیں لیکن انہیں جاننے والے جانتے تھے کہ جب وہ کتابوں کا رجسٹر لیے مسلسل اندراجات کر رہے ہوں توان کا یہ موڈ نارمل ہوتا ہے۔وہ ناراض ہرگز نہیں تھے۔پتھر کی لکیرجیسی دائمی مسکراہٹ اور سنجیدہ غیر حاضر دماغی کے ساتھ حاضر رہتے تھے۔آتے ہوئے بھی تھکے تھکے لگتے تھے اور جاتے ہوئے بھی۔کسی سرکاری محکمے میں کلرکی کرتے عمر گزار دی تھی اور اب ادھیڑ عمری میں سمن آباد لاہور کی مرکزی مارکیٹ میں چار آنہ لائبریری بھی چلارہے تھے۔میں سکول کے وقت کے بعد سہ پہر اور شام کے اوقات میں ان کے ہاں کچھ کتابیں واپس کرنے اور مزید کتابیں لینے جایا کرتا تھا۔یہ معمول میرا ہی نہیں اس دور کے اکثر طالب علموں کا تھا۔ یہ آنہ اور چار آنہ لائبریریاں اکثر محلوں اور گلیوں میں قائم تھیں۔ساٹھ ، ستر اور اسی کی دہائیوں کی معروف تعلیمی اور تفریحی سرگرمی۔اسی کی دہائی میں یہ لائبریریاں گم ہونا شروع ہوئیں.اور پھر جیسے ہوا میں تحلیل ہوتی چلی گئیں۔اب اگر پورے بفرض ِ محال لاہور شہر میں کسی گلی محلے میں کہیں کوئی ایسی لائبریری باقی ہے تو براہ کرم مجھے ضرور بتائے کہ میں اس کی زیارت کرنا اور اسے ذہن اور کیمرے میں محفوظ کرنا چاہتا ہوں۔
‘ ‘ طور صاحب وہ عمران سیریز کا نیا ناول واپس آیا؟ ‘ ‘میں نے اشتیاق سے پوچھا۔ ‘ ‘واپس تو آیا تھا لیکن پھر چلا گیا۔اب پرسوں پتہ کرنا ‘ ‘۔مجھے پتہ تھا کہ یہ پرسوں بھی مل جانا ناممکنات میں سے ہوگا۔نیا ناول تھا۔ابن صفی کا تھا اور پھر عمران سیریز کا تھا۔ابھی اسے حاصل کرنے کے لیے لمبا انتظار کرنا پڑے گا۔
نسیم حجازی اور ابن ِ صفی دو ایسے مصنفین تھے جنہوں نے میرے اور میری نسل کے بچپن سے لڑکپن کے دور پر گہرے اثرات مرتب کیے تھے۔اس زمانے میں لائبریری جانے کا مطلب بنیادی طور پر ان دونوں کو پڑھنا تھا یا پھر فیروز سنز کے شائع کردہ بچوں کے ناول دل چسپی کا مرکز تھے۔خواتین میں رضیہ بٹ کے ناول اسی صف میں شامل تھے۔ نسیم حجازی کا ‘ ‘شاہین ‘ ‘ پہلے آچکا تھا لیکن ‘ ‘ قیصر و کسرٰی ‘ ‘انہی دنوں کی یادگار ہے۔نسیم حجازی کے منفرد اسلوب کا رعب اسی ناول سے دل پر بیٹھ گیا تھا۔یہ بعد کی بات ہے کہ شفیق الرحمٰن،مشتاق یوسفی اور مختار مسعود ان لوگوں میں شامل ہوئے جن کی کتابیں بار بار پڑھی جاتی تھیں۔فی الحال تو ابن ِ صفی اور اس کی بھی عمران سیریز زندگی کا محور تھیں۔عمران سیریز اپنے ماحول کی وجہ سے جاسوسی دنیا سے بہتر لگتی تھیں۔کرنل فریدی کے ساتھ اگرچہ حمید کی دل چسپ شخصیت نتھی تھی لیکن علی عمران سلیمان، جولیانا فٹز واٹر، بلیک زیرو اور ایکسٹو کی دنیا زیادہ رنگین تھی۔ایک ناول ایک بار پڑھ کر سیری نہیں ہوتی تھی اس لیے دو تین بار پڑھے جانا معمول کی کارروائی تھی۔ویسے بھی لائبریری کی روزانہ فیس چار آنے حلال کرنے کے لیے گھر میں وہ ناول چوبیس گھنٹوں کے اندر سب بہن بھائیوں کے درمیان گھومنا ضروری تھا۔وہ نشہ انگیز کیفیت ایک غلاف بلکہ ایک غبارے کی طرح آپ کو لیے پھرتی تھی جس میں آپ دوستوں کو بتاتے تھے کہ علی عمران ایم ایس سی پی ایچ ڈی(آکسن)کا فلاں تازہ ترین ناول آپ پڑھ چکے ہیں۔کہیں سرخ رنگ کی ٹو سیٹر گاڑی نظر آتی تو لگتا کہ سٹیرنگ پر علی عمران اپنی حماقت آمیز مسکراہٹ کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے ۔ہر ذہین مشفق اور تجربہ کار افسر پر سر سلطان کا گمان ہوتا۔و علٰی ھذا القیاس۔اسی دور میں علی عمران کے کردار کو اس کی تمام تر ذہانت کے باوجود کئی لکھنے والے لے اڑے۔کھمبیوں کی طرح ان مصنفین کا گروہ وجود میں آگیا جو علی عمران کو اس کے دیگر کرداروں سمیت ابنِ صفی کے ناولوں سے اغوا کرکے لے گئے ۔یہاںایکسٹو اور سر سلطان بھی کچھ نہیں کرسکتے تھے کہ وہ خود مغویان میں شامل تھے۔ مزے کی بات ہے کہ اس وقت بھی مصنف اور کرداروں کی کئی خامیوں اور کمزوریوں کا ادراک ہونے کے باوجود ذہن ان کا دفاع کرتا تھا اور آج بھی جب ذوق مطالعہ ان منزلوں سے کافی دور نکل آیا ہے ان پر تنقیدی نظر ڈالنے کو جی نہیں چاہتا۔ہر رومانس زندگی میں حقیقتوں کی نذر نہیں ہونا چاہیے جو کہ بتدریج ہوجاتا ہے ۔کچھ رومانس زندہ رہنے کے لیے باقی رہنے چاہئیں۔کیوں کہ انسان کسی نہ کسی نوعیت کے رومانس میں زندہ رہنا چاہتا ہے ۔اپنے دل سے پوچھیے ،کیا میں غلط کہہ رہا ہوں ؟
اکادمی ادبیات کے پاکستانی ادب کے معمار سلسلے کی کتاب ابن صفی۔ شخصیت اور فن اس وقت میرے ہاتھوں میں ہے اور میں اس دور کو بھی یاد کر رہا ہوں اور اس مقبول اور منفرد مصنف کو بھی جس نے کردار نبھائے اور نسلوں پر اپنے اثرات مرتب کیے۔کتاب ہمارے دوست محمد فیصل نے لکھی ہے ۔فیصل ہمارے ان دوستوں میں ہیں جن کی نصابی تعلیم اور روزگار بظاہر ادب سے متعلق نہیں ہوتا لیکن جن کا ذوق تجسس اور محنت ان مشکلات کو پانی کر ڈالتے ہیں۔فیصل نے بہت کم وقت میں توجہ اپنی طرف مبذول کرالی ہے اور پے در پے شعری اور نثری خدمات ان کے حصے میں آتی جارہی ہیں۔ابن ِ صفی پر یہ حوالہ جاتی کتاب ان کا نقش ِ تازہ ہے۔اس کام کے آغاز سے لے کر اشاعت تک بہت کم مدت میں اسے تکمیل تک پہنچانے کا سہرا بھی انہی کے سر ہے۔ہمیں تو یہ چھپی چھپائی کتاب اور اس میں فراہم کردہ معلومات تجزیے اور تبصرے اپنی میز پر مل گئے۔اس سے زیادہ سہولت اور کیا میسر آسکتی ہے ؟ تو اس سہولت پر داد اور مبارک تو کم از کم حق ہے جو فیصل تک پہنچنا چاہیے۔
مقبولیت، شہرت، عزت بعض اوقات تگ و دو کرکے ہنر کے بغیر بھی مل جاتی ہے ۔مسئلہ تو ہنر کا ہے جو محنت اور ریاضت کے بغیر نصیب نہیں ہوتا۔لکھنے والے ہزاروں ہزار ہوتے ہیں ۔جان کسی کسی کے قلم کو ملتی ہے ۔ اور وہ دو سطح پر اثر انگیز بھی ہوتی ہے ۔عوام کی سطح پر بھی اور خواص کے لیے بھی ۔ایسا نہ ہوتا تو بابائے اردو مولوی عبد الحق،شمس الرحمٰن فاروقی ، گوپی چند نارنگ،انتظار حسین،احمد اقبال اور دیگر اہل قلم مشاہیر نے برملا ابن ِ صفی کے اثر انگیزی کا برملا اعتراف نہ کیا ہوتا جو باضابطہ ادیبوں میں شمار نہیں کیے جاتے تھے۔ ابن صفی کے قلم کی کاٹ ان کے کرداروں کے مکالموں میں بھی ہے۔اور ان کے اپنے ابتدائیوں میں بھی ۔یہ کاٹ کہیں کہیں ایسی لذیذ ہے کہ آپ کے سامنے یہ پکوان پیش کرنا ضروری لگتا ہے ۔عمران کے اکثرمکالمے بہت بے ساختہ ہوتے ہیں۔ ۔ ملاحظہ کیجیے ایک بین الاقوامی نامی گرامی مجرم جس کی ہیبت سے حکومتیں تھر تھر کانپتی ہیں،عمران سے کہہ رہا ہے
‘ ‘ تم میرا کیا مقابلہ کروگے؟ تمہارے منہ سے ابھی دودھ کی بو آتی ہے ۔’ ‘
‘ ‘ لسّی کی ہوگی ۔میں نے آج ناشتے میں لسّی پی تھی ۔’ ‘عمران نے معصومیت سے کہا ۔
اسی طرح ان ابتدائیوں میں بھی جنہیں وہ پیش رس کہتے تھے،ابن صفی کی بے ساختہ ظرافت لطف انگیز ہے ۔
‘ ‘شہنشاہیت میں تو صرف ایک نالائق سے دوچار ہونا پڑتا ہے لیکن جمہوریت میں نالائقوں کی پوری ٹیم وبال جان بن جاتی ہے۔ ‘ ‘
‘ ‘کوئی صاحبہ ….عرصے سے غلط فہمی پھیلا رہی ہیں کہ وہ میری کچھ لگتی ہیں…لیکن یقین کیجیے کہ میرے والد صاحب بھی ان کے جغرافیے پر روشنی ڈالنے سے معذور ہیں۔ ‘ ‘
‘ ‘ایک گدھا آج تک کسی دوسرے گدھے کے لیے مہلک ثابت نہیں ہوا اور نہ کسی گدھے نے یہ کوشش کی کہ دوسروں پر اپنی برتری کا رعب ڈالے۔ ‘ ‘
کبھی آپ نے سوچا کہ زندگی آپ کے انتظام و اہتمام کے بغیر خود بخود مختلف ادوار میں تقسیم ہوتی جاتی ہے۔ایک دور ختم ہوتا ہے اور اگلے کا آغاز۔پھر اس سے اگلے کا۔اور بالآخرایک دن وہ دور آجاتا ہے جب گراف کی صورت میں دل کی دھڑکن ظاہر کرنے والی سکرین پر زگ زیگ شکلیں ختم ہوکر محض ایک ہموار لکیر کھنچنی شروع ہوتی ہے اور کھنچتی ہی چلی جاتی ہے۔سو ابن صفی کی زندگی کی سکرین نے بھی 26جولائی 1980کو ہموار لکیر کی صورت اختیار کرلی۔رہے نام اللہ کا۔
(مضمون نگار اردوکے مشہورشاعرہیں، اب تک ان کے تین مجموعے "قوس "، "بارش "اور "جل پری "کے نام سے منظرِ عام پرآچکے ہیں،اپنے منفردلب ولہجہ اورطرزِ اظہارکی جدت وندرت کی وجہ سے نئی نسل میں خاصے مقبول ومتعارف ہیں، حالاتِ حاضرہ، سماجیات وسیاسیات پرروزنامہ 92نیوزپاکستان میں کالمزبھی لکھتے ہیں)

You may also like

Leave a Comment