عزت ماب، عالی جناب، نہایت ہی قابل صد احترام
مولانا رابع ندوی صاحب!
اسلام علیکم
امید کہ مزاج گرامی بخیر ہوگا
آج چند اہم مسائل کو لے کر آپ کی خدمت میں کچھ عرض داشت پیش کرنے کی جسارت کر رہے ہیں۔ امید ہے آپ اس پر غور کرنے کی زحمت کرینگے اور ہم حقیروں کے سروکار کو خارج از بحث نہیں کرینگے۔
آئندہ 15اپریل کو منعقد کیۓ جانے والے "دین بچاؤ، دیش بچاؤ” کانفرنس کے تعلق سے ہم لوگ شدید تشویش اور فکر میں مبتلا ہو گۓ ہیں۔ ماضی میں، 1986 میں، شاہ بانو معاملے پر ہم لوگوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف حکومت وقت سے مطالبہ کر کے ایک قانون پاس کروایا۔ اس فیصلے میں جو بھی خامیاں تھیں وہ اپنی جگہ، لیکن کسی اقلیتی آبادی کی خوشنو دی کے لئے سپریم کورٹ کے خلاف قانون بنایا جانا، زعفرانی ہندوؤں ہی کو نہیں، بلکہ، عام ہندوؤں کو بھی نا گوادر گزرا۔ آج زعفرانی طاقتوں کے غالب آنے کی کئ وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے۔
ہم نے 70 سال کی اس مطلقہ ضعیفہ اور ان جیسی دیگر بے سہارا عورتوں کی گزر بسر کے مناسب انتظام کی جانب کوئ بھی قدم نہیں اٹھایا۔ اس ضعیفہ کو 62 برس کی عمر میں علیحدہ کیا گیا تھا۔ تب اس نے اپنے شوہر سے گزر بسر کے لیۓ بھتہ کی مانگ آٹھائ تھی۔ اور عدالت میں، جب جج نے یہ واضح کر دیا کہ پرسنل لا کی رو سے بھی ایک شوہر پر اس بھتہ کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، تب جا کر، عدالت کے اندر ہی، شوہر نے تین طلاق دے دیا۔ اسی طلاق بدعت کو سپریم کورٹ نے غیر قانونی قرار دیا تھا۔ اور ہم نے اس بدعت کے حق میں قانون بنوایا تھا۔
تب یعنی 1986 سے اب تک ہم لوگ اس جانب متوجہ نہیں رہے کہ آخر ہم اس بدعت کو کیوں عین شریعت مانے بیٹھے ہیں جب کہ کئ مسلم ممالک اس کو قانونا ممنوعہ قرار دے چکے۔
شاہ بانو والے معاملے میں مسلم پرسنل لا بورڈ عدالت میں مدعی نہیں تھا۔ شائرہ بانو والے مقدمے میں تو بورڈ بھی مدعی تھا۔ اب جب فیصلہ بورڈ کے حق میں نہیں آیا تو عدالت کی خلاف ورزی کر کے ہم اپنی ہٹ دھرمی کا ثبوت پیش کرتے ہوۓ زعفرانی طاقتوں کو ہم اپنے خلاف ایک اخلاقی برتری جیسا ہتھیار پیش کر رہے ہیں کہ اگر عدلیہ نے انہیں رام مندر کے حق میں فیصلہ نہیں بھی دیا تو انہیں ہماری مثال پیش کرتے ہوۓ ان کا موقف جائز ٹھہرے گا کہ وہ بھی عدالت کے فیصلے کے خلاف قانون بنوانے میں حق بہ جانب ہونگے۔
بورڈ نے عدالت ہی میں یہ حلف بھی دے دیا تھا کہ پرسنل لا سے متعلق معاملات عدالت کے بجاۓ پارلیامنٹ میں طے کیۓ جائیں۔ ایسے میں بورڈ نے عدالت کے فیصلے (22 اگست 2017) سے لے کر لوک سبھا میں بل پیش ہونے کی تاریخ (15دسمبر 2017) تک تقریباً خاموشی کے بجاۓ ایک ڈرا فٹ بل کیوں نہیں پیش کیا، جس پر ملت کے مختلف مکاتب فکر کے لوگ ایک سیر حاصل بحث کرتے، اور کسی مخصوص نتیجے پر پہونچتے۔
طلاق بدعت یوں بھی کسی ایک مخصوص مسلک تک ہی محدود ہے، اور اس میں بھی ملت کی نہایت ہی قلیل آبادی اس لعنت میں ملوث ہے۔
حکومت کی مجوزہ بل میں نیت اور نتائج کی سطح پر جن خامیوں کا اندیشہ ہمیں اور دیگر مسلم اور غیر مسلم خواتین تنظیموں کو بھی ہے، ان کی سلیبس وضاحت کرتے ہوۓ ہم ایک ڈرا فٹ بل تیار کر نے کے بجاۓ عوامی احتجاج کا جو رویہ اختیار کر رہے ہیں ان کے نتائج شدید اور پر خطر ہونگے، زعفرانی تشدد پسند رد عمل کے طور پر۔
آ ج اگر ہماری طاقت ان سے لڑنے میں کمزور پڑ رہی ہے وہ ایک بڑا مسئلہ تو ہےہی، لیکن ہم خود اپنی جانب سے جن غلطیوں اور نا عاقبت پسند رویوں اور مصلحت و انصاف سے عاری رہنے اور دور جانے کی جو غلطی کرنے جا رہے ہیں اس کے لئۓ ملک و ملت، مستقبل میں ہمیں،مجرم اور گنہگار ٹھہرانے میں حق بہ جانب ہوگا۔
مجوزہ بل میں مطلقہ عورتوں کو گزارا بھتہ کی جو بات ہے اسے ہمیں تسلیم کرنا چاہیۓ تاکہ اس وجہ کر بھی طلاق بدعت میں کافی کمی آ ۓ گی۔ اور عورتوں کے جائز حقوق کا تحفظ ہوگا۔
اگر بورڈ کو یہ اعتراض ہے کہ ہم تین سال کی سزا کو نہ قبول کریں(یہ موقف بھارتیہ مسلم مہیلا آندوولن کا بھی ہے)، تو ہم ایسی اصلاحیں اپنے ڈرا فٹ بل میں تجویز کریں۔ پورے بل کو مکمل طور پر خارج کرنے کا جواز قطعی نہیں بنتا۔
اس لیۓ ہماری استدعا ہے کہ اس جانب بورڈ سنجیدگی سے غور کرے۔ اور ملت کے دیگر اہل علم خواتین و حضرات اس پر علمی اور استدلالی گفتگو و مباحثہ کریں، یہ ہماری موؤد بانہ درخواست ہے۔
یوں بھی حکومت کی مجوزہ بل کے بعض پہلوؤں پر دیگر تنظیموں اور جماعتوں کے اعتراضات ہیں۔ ہمیں ان تمام سیکولر، جمہوری طاقتوں سے اتحاد قائم کرتے ہوۓ ایک سنجیدہ پیش رفت کرنا چاہیۓ۔ واضح رہے کہ سیکولر جمہوری نظام ہی اقلیتوں کے تحفظ کی ضمانت ہے۔ ہمیں کوئ ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہیۓ جس سے ایسے اقدار کمزور پڑیں۔ ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوۓ اور ان سے سبق لیتے ہوۓ ، ہمیں پوری دیانت داری اور خود اعتمادی کے ساتھ آ گے بڑھنا ہے۔
لہاذا ہماری گزارش ہے کہ اشتعال انگیز ریلیوں اور کانفرنسوں کے بجاۓ ہم احتساب، حکمت عملی، مصلحت پسندی، انصاف پسندی، اور تدبر سے کام لیں۔ اس سلسلے میں ہماری استدعا ہے کہ مختلف مکاتب فکر کی سر گرم عمل خواتین تنظیموں کو بھی اس مباحثے میں شامل رکھ کر انصاف پسندی اور جمہوریت پسندی کا ثبوت پیش کریں۔ اور ایک ڈرا فٹ بل لائیں ۔
ڈاکٹر محمد سجاد‛ شعبئہ تاریخ‛ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‛ علی گڑھ کا خط صدر بورڈ کے نام۔
previous post
1 comment
Excellent. Wish more could join in such progressive thoughts and make a positive counter movement exposing the sham of Personal Law Board.