تازہ ترین، سلسلہ 93
فضیل احمد ناصری
ایثار و سادگی کا مزا ہم سے پوچھیے
بے تاج خسروی کا مزا ہم سے پوچھیے
کس کشمکش میں ہم نے گزاری شبِ حیات
اک دن کی زندگی کا مزا ہم سے پوچھیے
کیا کیا نہ ہم پہ اہلِ ستم کے ستم ہوئے
چھبیس جنوری کا مزا ہم سے پوچھیے
روتا ہے دل دباؤ کے جشنوں میں کس قدر
بے کیف سی خوشی کا مزا ہم سے پوچھیے
دے کر لہو چمن کو، جو چرکا لگا ہمیں
اس زخمِ شبنمی کا مزا ہم سے پوچھیے
ایس پی ہو، بھاجپا ہو کہ وہ کانگریس ہو
ان سب کی دو رخی کا مزا ہم سے پوچھیے
کرنے لگا ہے کفر، شریعت پہ ہاتھ صاف
امت کی بزدلی کا مزا ہم سے پوچھیے
مرتے ہیں کافروں کی اداؤں پہ آج بھی
اشکوں سے دل لگی کا مزا ہم سے پوچھیے
ٹکڑے مرے جگر کے پڑے ہیں کہاں کہاں
صدموں کی شاعری کا مزا ہم سے پوچھیے