محمد فہد حارث
دو ایسی کتب، جن کو پڑھ کر امید ہے کہ انسان انکارِ حدیث کی گمراہی میں کبھی مبتلا نہیں ہوسکتا، ان میں پہلی اہلحدیث عالم علامہ عبدالرحمٰن کیلانی کی ’’آئینہ پرویزیت‘‘ ہے اور دوسری سید مودودی کی ’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘،البتہ اگر کسی کو خبر واحد کی حجیت سے متعلق تفصیلی ادلہ و کتاب مطلوب ہو،تو ایسے احباب کو شام کے مشہور عالم ڈاکٹر مصطفی سباعی کی کتاب ’’السنۃ ومکانتہا في التشریع الاسلامی‘‘ جس کا اردو ترجمہ پروفیسر غلام احمد حریری نے ’’حدیث رسولﷺ کا تشریعی مقام‘‘ کے نام سے کیا ہے، کا لازمی مطالعہ کرنا چاہیے۔ اگر کسی رفیق کو جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی شاذ فکر سے کماحقہ آگاہی حاصل کرنا مقصود ہو، تو ان کو دو کتب لازمی زیر مطالعہ رکھنی چاہئیں: پہلی ابو الحسن علوی حافظ محمد زبیر کی کتاب ’’فکر غامدی: ایک تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ‘‘ جو کہ بلاشبہ اس موضوع پر سب سے بہترین کتاب ہے، جو غامدی صاحب کے اصولِ دین و قواعد سے بحث کرتی ہے،دوم فضیلۃ الشیخ حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ کی ’’فتنۂ غامدیت‘‘۔اگر کسی کو غلام احمد پرویز کی کتاب ’’مقامِ حدیث‘‘ اور غلام جیلانی برق کی کتاب ’’دو اسلام‘‘ کا تفصیلی و جامع رد پڑھنا مقصود ہو، تو اس کے لیے محدث العصر علامہ محمد گوندلوی کی کتاب ’’دوام حدیث‘‘ جو کہ دو جلدوں میں ہے ،بہت مفید رہے گی۔
غلام جیلانی برق کی کتاب ’’دو اسلام‘‘ کے جواب میں سینکڑوں کتب تحریر کی گئیں، جن میں سے مولانا سرفراز خان صفدر نے ’’صرف ایک اسلام‘‘، مفتی احمد یار خان نعیمی نے ’’ایک اسلام‘‘، حافظ محمد گوندلوی نے ’’دوامِ حدیث‘‘، مولانا مسعود احمد بی۔ایس۔سی نے ’’تفہیم اسلام بجواب دو اسلام‘‘لکھی ہیں، مسعود احمد صاحب نے ’’دو اسلام‘‘ کے ایک ایک پیرا کا علاحدہ علاحدہ جواب لکھا ہے، اس کتاب (تفہیم اسلام بجواب دو اسلام) کو پڑھ کر غلام جیلانی برق صاحب نے اپنے موقف سے رجوع کیا اور کتاب ’’تاریخِ تدوین حدیث‘‘ لکھی تھی۔
اگر کسی صاحب کو سنت و بدعت میں فرق جاننامقصود ہو اور قواعدِ اصولیہ کی بنیاد پر یہ تحقیق مطلوب ہو کہ فرقہ ہاے باطلہ نے کس طرح سے بدعت کی تعریف میں بے جا تصرف کرکے کئی بدعات کو سنت کے دائرے میں لاکھڑا کرنے کی مذموم سعی کی ہے، تو ایسے احباب کو لازمی طور پر حنفی عالم علامہ سرفراز خان صفدر کی کتاب ’’راہِ سنت‘‘ کا مطالعہ کرنا چاہیے، جو کہ اس موضوع پر بلاشبہ لاجواب و از حد معلوماتی کتاب ہے،اسی طرح اگر کسی کو فقہ سے دلچسپی پیدا کرنا مقصود ہو، تو اس کو چاہیے کہ ڈاکٹر مصطفی سعید الخن کی مایہ ناز کتاب ’’اثر القواعد الاصولیۃ فی اختلاف الفقہا‘‘ جس کا اردو ترجمہ شریعہ اکیڈمی اسلام آباد نے ’’قواعدِ اصولیہ میں فقہا کا اختلاف اور فقہی مسائل پر اس کا اثر‘‘ کے نام سے کیا ہے،کا بالضرور مطالعہ کرے۔
اسی طرح اگر کوئی صاحب جمہوریت سے متعلق معتدل آرا و ادلہ دیکھنے کے خواہاں ہوں، تو ان کو چاہیے کہ علامہ عبدالرحمٰن کیلانی کی کتاب ’’خلافت و جمہوریت‘‘ ضرور مطالعہ کریں، فاتحہ خلف الامام سے متعلق اگر کسی کو دونوں فریقین کے دقیق مباحث درکار ہوں، تو اس کے لیے وہ حنفی عالم سرفراز خان صفدر کی کتاب ’’احسن الکلام‘‘ اور اہلحدیث عالم ارشاد الحق اثری صاحب کی ’’توضیح الکلام‘‘ کا مطالعہ کرے، یاد رہے کہ یہ دونوں کتب فاتحہ خلف الامام کے ساتھ ساتھ جرح و تعدیل سے متعلق بھی بہت بیش قیمت معلومات اپنے اندر رکھتی ہیں ،سو علم الحدیث اور علم الجرح و التعدیل سے دلچسپی رکھنے والے ہر طالبعلم کو یہ دو کتب لازمی پڑھنی چاہئیں۔
عود روح، سماعِ موتیٰ اور عذابِ قبر سے متعلق اگر کسی کو کتب کی تلاش ہو، تو تقابلی مطالعہ کے لیے اس کو حنفی عالم سرفراز خان صفدر کی’’تسکین الصدور‘‘ ، علامہ محمد حسین نیلوی حنفی کی ’’ندائے حق‘‘، ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی کی ’’عذاب برزخ‘‘ اور ’’یہ مزار یہ میلے‘‘ جبکہ اہلحدیث عالم قاری خلیل الرحمٰن جاوید کی’’پہلا زینہ‘‘ کا بالاستیعاب مطالعہ کرنا چاہیے، اسی طرح علم الحدیث سے دلچسپی رکھنے والے طلبہ کے لیے علامہ عبدالرشید نعمانی کی کتاب ’’علم الحدیث اور ابن ماجہ‘‘ جبکہ علامہ حبیب الرحمٰن صدیقی کاندھلوی کی کتاب ’’مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت‘‘ بھی لائقِ مطالعہ ہیں ،ان کے علاوہ علامہ محمد اسمعٰیل سلفی کی ’’مقالاتِ حدیث‘‘بھی طلبہ کے لیے کافی دلچسپی کا باعث ہوگی، تدوینِ حدیث کی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کو علامہ مناظر احسن گیلانی کی کتاب ’’تدوینِ حدیث‘‘ لازمی پڑھنی چاہیے، بہت ہی علمی اور وقیع معلومات رکھنے والی کتاب ہے۔
اسی طرح اگر کسی کو ردِ شیعیت پر کتب پڑھنا مقصود ہو، تو اس بابت کئی کتب موجود ہیں؛ لیکن احقر کو تین کتابیں بہت پسند ہیں،ایک اہلحدیث عالم حکیم فیض عالم صدیقی شہید کی کتاب ’’حقیقت مذہب شیعہ‘‘، دوم علامہ منظور نعمانی کی کتاب ’’ایرانی انقلاب، امام خمینی اور شیعیت‘‘ اور سوم قاضی طاہر علی الہاشمی کی کتاب ’’شیعیت: عقائد و افکار‘‘۔
اسلامی تاریخ، خصوصاً خیر القرون کی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے حضرات کے لیے اکبر شاہ نجیب آبادی کی ’’تاریخ اسلام‘‘، مولانا محمد نافع کی ’’فوائد نافعہ‘‘ اور جملہ کتب، علامہ محمود احمد عباسی کی ’’خلافت معاویہ و یزید‘‘، ’’تحقیق مزید‘‘ اور ’’تحقیق سیدوسادات‘‘، قاضی طاہر علی الہاشمی صاحب کی ’’تذکرہ سیدنا معاویہؓ ‘‘، ’’سیدنا معاویہؓ پر اعتراضات کا علمی تجزیہ‘‘، ’’امیر المومنین سیدنا مروان بن الحکمؓ‘‘ اور جملہ کتب، علامہ عتیق الرحمٰن سنبھلی کی ’’واقعہ کربلا اور اس کا پس منظر‘‘، حکیم فیض عالم صدیقی شہید کی ’’سادات بنو رقیہ‘‘ اور جملہ کتب، حکیم محمود احمد ظفر سیالکوٹی کی جملہ کتب اور ابو ریحان عبدالغفور سیالکوٹی کی جملہ کتب لائق مطالعہ ہیں۔
اگر کسی کو متفرق موضوعات پر مقالات پڑھنے کا اشتیاق ہو، تو’’مقالات محدث مبارکپوری‘‘،’’مقالات محدث گوندلوی‘‘، علامہ بدیع الدین راشدی کے ’’مقالات راشدیہ‘‘ اور ’’مقالات شبلی‘‘ بالضرور مطالعہ کرے، اسی طرح اگر کسی کو محاضرات سننے یا پڑھنے کا شوق ہو، تو اس کو ڈاکٹر محمود احمد غازی کے محاضرات سننے یا پڑھنے چائیں۔یہ تمام لیکچرز یا محاضرات ۶؍ عنوانات کوشامل : محاضراتِ قرآن، محاضراتِ حدیث، محاضراتِ فقہ، محاضراتِ شریعت، محاضراتِ سیرت اور محاضراتِ معیشت و تجارت، ان میں سے ہر عنوان کے تحت ۲۱؍ لیکچرز ہیں، یعنی محاضراتِ قرآنی پر ۲۱؍ لیکچرز، محاضراتِ حدیث پر ۲۱؍ لیکچرز وغیرہ،تمام لیکچرز بہت ہی معلومات افزا ہیں اور ساتھ میں دلچسپ بھی، یاد رہے کہ محاضراتِ قرآنی سے مراد قرآن کی کسی سورت کی تفسیر یا تشریح نہیں؛ بلکہ محاضراتِ قرآنی کے ۲۱؍ لیکچرز میں علومِ قرآن و تاریخِ قرآن پر بحث کی گئی ہے کہ قرآن سے حکم کیسے اخذ کیا جاتا ہے؟ قرآن کی تدوین کیسے ہوئی؟ وغیرہ وغیرہ اور یہی چیز محاضراتِ حدیث و فقہ سے بھی متعلق ہے ،جو کہ ان لیکچرز کی اہمیت کو کافی بڑھادیتی ہے اور کئی نئی اور ان کنوینشنل باتیں سیکھنے کا موقع دیتی ہیں، محمود احمد غازی صاحب کی اچھی بات یہ ہے کہ ان کی آرا میں تشدد بالکل نہیں پایا جاتا اور اختلافِ رائے کا حد درجہ احترام کرتے ہیں۔
اگر کسی کو اسلام پر عائد مغربی اعتراضات کا ابطال پڑھنا مقصود ہو ،تو اس کے لیے سید مودودی کی جملہ کتب بہت ہی نافع ثابت ہوں گی خاص کر ’’الجہاد فی الاسلام‘‘، ’’پردہ‘‘، ’’اسلام میں ضبط ولادت‘‘، ’’سود‘‘، ’’تفہیمات‘‘، ’’تحریکِ آزادی ہند اور مسلمان‘‘ وغیرہم۔
چند کتابیں!
previous post