حضرت مولانا خالدسیف اللہ رحمانی
(ترجمان وسکریٹری مسلم پرسنل لا بورڈ)
حکومت، اس کی آلۂ کار تنظیموں اور فرقہ پرست جماعتوں نے طے کر رکھا ہے کہ مسلمانوں کو ہمیشہ اس طرح الجھا کر رکھا جائے کہ وہ تعلیم، معاشی ترقی اور حقیقی مسائل پر توجہ نہیں دے سکیں، اور ان کو ہمیشہ فرضی اور غیر اہم مسائل میں الجھا کر رکھا جائے، کبھی وندے ماترم کا مسئلہ اٹھایا جاتا ہے، کبھی سوریہ نمسکار کا، کبھی بھارت ماتا کی جے اور یوگا، اور کبھی بابری مسجد تو کبھی کامن سول کوڈ، غور کیجئے کہ تین طلاق کا مسئلہ کیا ایسا مسئلہ ہے جس پر پارلیامنٹ قانون سازی کرے؟ طلاق کے واقعات بہت کم ہیں، جو فی ہزار کے دائرے میں آتے ہیں، پھر اس میں بھی ایک ساتھ تین طلاق کے واقعات اور بھی کم پیش آتے ہیں؛ لیکن جن لوگوں کو گجرات اور مظفر نگر کی مظلوم مسلم خواتین کے آنسوؤں نے متأثر نہیں کیا اور ان ستم رسیدہ بہنوں کی آہیں ان کےکانوں سے ٹکرا ٹکرا کر واپس آگئیں، اور اس کے مجرموں کو بری کرنے کی کوشش آج بھی جاری ہے، ان ہی کو مسلم مطلقہ خواتین کی فکر بے چین کئے ہوئی ہے۔
ابھی طلاق بل راجیہ سبھا میں زیر التواء ہےہی کہ سپریم کورٹ میں تعدد ازدواج سے متعلق مسلمانوں کا سا نام رکھنے والی کچھ خواتین نے مقدمہ دائر کر دیا ہے، اور معزز عدالت نے بھی جلد بازی سے کام لیتے ہوئے حکومت ہند سے اس سلسلہ میں رائے طلب کی ہے، یہ بالواسطہ مسلم پرسنل لا کو ختم کرنے اور تمام شہریوں کے لئے ہندو میریج ایکٹ کو یونیفارم سول کوڈ کے طور پر نافذ کرنے کی ناپاک سازش ہے؛ حالاں کہ مسلمانوں میں تعدد ازدواج کا تناسب نہایت کم ہے، نیزمسلمانوں کے یہاں نکاح کے بغیر مردو عورت کے ایک ساتھ زندگی گزارنے کے واقعات شاذ ونادر ہی پائے جاتے ہیں؛ کیوں کہ حرام ہونے کی وجہ سے مسلم معاشرہ میں اس کو بہت ہی قبیح نظرسے دیکھا جاتا ہے، جب کہ دوسری قوموں میں اس طرح کے واقعات کثرت سے پیش آتے ہیں، اور اب چوں کہ اس کو قانونی جواز بھی حاصل ہو گیا ہے؛ اس لئے ایسے واقعات میں مزید اضافہ کا اندیشہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ تعددِ ازدواج کا مسئلہ کئی پہلوؤں سے قابل غور ہے : مذہبی ، سماجی اور اخلاقی ۔
مذہبی اعتبار سے یہ ایک حقیقت ہے کہ تقریباً دنیا کے تمام مذاہب میں تعدد ازدواج کو جائز قرار دیا گیا ہے ، ڈاکٹر مالک رام نے رگ وید ( ۱۰۸۱۰-۱۰۵) کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ایک مرد کے لئے بیک وقت ایک سے زیادہ نکاح کرنا درست ہے اور بیویوں کے لئے کوئی تحدید نہیں ہے ،۔
یہودی مذہب میں بھی تعدد ازدواج کی گنجائش ہے ؛ چنانچہ خود حضرت موسیٰ ںکی دو بیویاں تھیں ، ایک حضرت صفورہ ، جو حضرت شعیب ںکی صاحبزادی تھیں ( خروج:۲؍۲۱) آپ کا دوسرا نکاح ایک کوشی خاتون سے ہوا تھا ( گنتی:۱؍۱۲) خود بائبل میں حضرت داؤد ںکی چھ بیویوںکا ذکر آیا ہے ( گنتی ۲۷:۸)
حضرت سلیمان ؑ کے بارے میں تورات کا کہنا ہے کہ ان کی سات سو بیویاں اور تین سو حرمیں تھیں (سلاطین: ۱؍۱۱) عیسائی مذہب چوںکہ اپنی اصل کے اعتبار سے تورات ہی کی شریعت پر ہے اس لئے سمجھنا چاہئے کہ اصلاً عیسائی مذہب میں بھی تعدد ازدواج کی اجازت ہے ؛ چنانچہ شیخ محمود عقاد نے لکھا ہے کہ سترہویں صدی تک خود اہل کلیسا نے تعدد ازدواج کی حمایت کی ہے ، فرماتے ہیں :
مختلف انسانی نظام ازدواج کی تاریخ کا مستند عالم وسٹر مارک (Vister marc) نے بیان کیا ہے کہ کلیسا اور حکومت دونوں ہی سترہویں صدی کے نصف تک تعدد ازدواج کو مباح قرار دیتے تھے اور ان کے یہاں بکثرت اس کا رواج تھا ۔ (الفلسفۃ القرآنیہ : ۵۴)
غرض دنیا کے مشہور مذاہب میں شاید ہی کوئی مذہب ہو جس نے تعدد ازدواج کو جائز نہ رکھا ہو ، اسلام نے بھی تعدد ازدواج کی اجازت دی ہے ؛ لیکن اس کے لئے بنیادی طور پر دوباتوں کی تحدید رکھی ہے ، اول : یہ کہ ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ چار تک ہی تعدد ازدواج کی اجازت ہے، دوسرے : یہ اجازت عدل کے ساتھ مشروط ہے، یعنی جو شخص ایک سے زیادہ بیویوں کے درمیان حقوق کی ادائیگی اور سلوک و برتاؤ میں برابری کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو ، اسی کے لئے ایک سے زیادہ نکاح کی اجازت ہے ، پس اسلام نے ایک طرف سماجی ضرورت کی رعایت بھی کی ہے اور دوسری طرف ان حدود و قیود کے ذریعہ اس اجازت کو متوازن بنانے کی کوشش بھی کی ہے ۔
دوسرا پہلو سماجی ضرورت کا ہے ، عام طور پر لڑکوں اور لڑکیوں کی شرح پیدائش (Rate of Linth)میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہوتا ؛ لیکن شرح اموات (Rate of death) میں مردوں کی تعداد زیادہ ہو جاتی ہے ؛ کیوںکہ زیادہ تر حادثات میں مردوں کی جانیں کام آتی ہیں، مثلاً : پہلی جنگ ِعظیم جو ۱۹۱۴ء سے ۱۹۱۸ ء تک جاری رہی، میں اسّی لاکھ صرف فوجی مارے گئے، شہریوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے،ظاہر ہے کہ یہ فوجی مرد تھے، دوسری جنگ ِعظیم ۱۹۳۹ء تا ۱۹۴۵ء جاری رہی ، جس میں کل ساڑھے چھ کڑور آدمی یا تو ہلاک ہو گئے یا معذور ، ان مہلوکین اور معذورین میں غالب ترین اکثریت مردوں کی تھی، اس جنگ ِعظیم میں برباد ہونے والا قائد ملک جرمنی تھا ، ۱۹۲۰ء سے ۱۹۴۰ء تک جرمنی میں یہ کیفیت تھی کہ ہر مرد کے مقابلہ شادی کی عمر کو پہنچی ہوئی تین عورتیں ہوتی تھیں ، فرانس میں ۱۹۰۰ء کی مردم شماری کے اعتبار سے عورتوں کی تعداد مردوں سے چار لاکھ ،تئیس ہزار ، سات سو نوسے زیادہ تھی اور آسٹریلیا میں ۱۸۹۰ء میں چھ لاکھ ، چوالیس ہزار ، سات سو ، چھیانوے عورتیں مردوں سے زیادہ تھیں ، عراق ایران جنگ (۱۹۸۸ء – ۱۹۷۹ء) میں عراق کی ایک لاکھ اور ایران کی بیاسی ہزار عورتیں بیوہ ہو گئیں ۔
جنگوں کے علاوہ جو دوسرے ٹریفک یا صنعتی حادثات پیش آتے ہیں اور جو لوگ غنڈہ گردی کا نشانہ بنتے ہیں، وہ بھی عام طور پر مرد ہی ہوتے ہیں ، پھر اگر جیلوں میں طویل المدت قیدیوں کا جائزہ لیا جائے تو ان میں نوے فی صد(۹۰) سے زیادہ تعداد مردوں کی ہوتی ہے ؛ کیوں کہ طویل قید بھیانک جرائم پر ہوتی ہے اور اپنی نفسیاتی کمزوری کی بنا پر مجرم ذہن کی عورتیں بھی بھیانک قسم کے جرائم کا حوصلہ نہیں پاتیں ، ان اسباب کی بناء پر عام طور پر ایک مرد کے مقابلہ ایک سے زیادہ عورتوں کا تناسب پایا جاتا ہے ، امریکہ جیسے ملک میں جس میں حادثات سے حفاظت کا زیادہ ترقی یافتہ نظام قائم ہے اور دفاعی ٹکنالوجی میں ترقی اور بالادستی کی وجہ سے حریف ملکوں کے مقابلہ اس کی فوجیوں کی ہلاکت کاتناسب بہت کم ہوتا ہے ، ایک رپورٹ کے مطابق ۱۹۸۷ء میں وہاں عو رتوں کی آبادی بمقابلہ مردوں کے تقریباً اسی لاکھ زیادہ تھی ۔
اگر تعدد ازدواج کی اجازت نہ دی جائے تو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ خواتین کی ایک بڑی تعداد تجرد اور محرومی کی زندگی گذارے ، اس لئے تعدد ازدواج مردوں کی ہوس اور نفسانی طمع کی تکمیل نہیں ؛ بلکہ ایک سماجی ضرورت ہے ۔
تعددِ ازدواج کے مسئلہ میں سب سے اہم پہلو اخلاقی ہے ، عفت و عصمت انسانیت کا بنیادی جوہر ہے ، گائے اور بیل ، گھوڑے ، گدھے اور ان کی مادہ کے درمیان کیا کبھی نکاح ہوا ہے ؟ ظاہر ہے اس کا جواب نفی میں ہے ، نرو مادہ کی تقسیم اور جنسی خواہش انسان میں بھی ہے اوردوسرے حیوانات میں بھی ؛ لیکن یہ انسانی سماج کا امتیاز ہے کہ نکاح کے ذریعہ ایک مرد اورعورت رشتۂ ازدواج میں بندھ جاتے ہیں اور ان کی وفاداریاں ایک دوسرے کے لئے محدود و مخصوص ہو جاتی ہیں، دوسری مخلوقات اس وفاداری سے ناآشنا ہے ، اسی وفاداری کا نام ’’عفت و عصمت ‘‘ ہے ، عفت و عصمت انسان کی فطرت میں ہے اور ہر سلیم الفطرت شخص اس کا ادراک کر سکتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ انسان اپنی ماں ، بہن ، بیوی اور بیٹی کے بارے میں برائی کی نسبت کو برداشت نہیں کرسکتا، تعدد ازدواج اس جوہر عفت کی حفاظت کا بہت بڑا ذریعہ ہے ، دنیا کی تاریخ میں جب کبھی بھی قانونی تعدد ازدواج پر روک لگائی گئی ہے وہاں غیر قانونی تعدد ازدواج نے ضرور راہ پائی ہے ، قدم تہذیبوں میں یونانی اور رومی تہذیب تعدد ازدواج کی مخالف تھی ، ایڈور ڈہارٹ پول لیکی (۱۸۳۸ء – ۱۹۰۳ء) نے یونانی تہذیب کے بارے میں لکھا ہے کہ مرد کے لئے ایک سے زیادہ نکاح کی اجازت نہ تھی ؛ لیکن غیر قانونی داشتاؤں پر کوئی روک ٹوک نہیں تھی ۔ ( تاریخ اخلاق یورپ ، ص : ۲۴۰ ’’ ترجمہ دریابادی‘‘)
چنانچہ منصف مزاج غیر مسلم دانشوروں نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے ، علم تمدن کے معروف عالم ڈاکٹر گستا ؤلی بان لکھتے ہیں :
مغرب میں بھی … ایک ہی شادی کی رسم کا وجود صرف کتابوں ہی میں ہے اور میں خیال کرتا ہوں کہ کوئی شخص انکار نہ کرے گا کہ یہ رسم ہماری واقعی معاشرت میں نہیں پائی جاتی ہے ، میں نہیں جانتا کہ مشرقیوں کا جائز تعدد کسی امر میں مغربیوں کی ناجائز تعدد ازدواج سے کمتر سمجھا جاتا ہے ؟ بلکہ میں یہ کہوں گا کہ اول کو ہر طرح دوسرے پر ترجیح ہے ۔ ( تمدن عرب : ۳۶۶)
جناب مالک رام ، ملک کے حقیقت پسند اصحابِ دانش میں تھے ، ان کا یہ اقتباس پڑھنے کے لائق ہے :
تعدد ِازدواج کی تائید میں متعددد لائل پیش کئے جاسکتے ہیں ، مثلاً یہ کہ عام حالت میں دنیا میں عورتوں کی تعداد مردوں سے کہیں زیادہ ہے ، اگر ایک مرد ، ایک عورت کے اُصول پر عمل کیا جائے تو ان زائد عورتوں کا کیا بنے گا ؟ کیا ہم ان پر نکاح کا راستہ بند کر کے ان کی اور ان کے ساتھ شادی شدہ مردوں کی بھی گمراہی کا سامان تو پیدا نہیں کر رہے ہیں … اگر آپ ان عورتوں کو نکاح کرنے کا موقع نہیں دیتے تو گویا انھیں قعر مذلت میں ڈھکیل رہے ہیں اور انھیں مجبور کر رہے ہیں کہ وہ گناہ کی زندگی بسر کریں ؛ کیوں کہ یہ جذبہ فطری ہے ، اگر عورت سماج کی اجازت سے اس کی تسکین نہیں کرسکے گی توسماج کو دھتا بتائے گی اور گھونگھٹ کی اوٹ میں شکار کھیلے گی اس صورت میں آپ کو کسی اور حرام اولاد کا وجود قانوناً تسلیم کرنا پڑے گا، حق انتخاب آپ کو حاصل ہے ، ایک طرف آپ اس عورت کو قابل عزت بیوی اور گھر کی مالکہ اور محترم ماں بنانے پر قادر ہیں ، دوسری صورت میں وہ قابل نفرت داشتہ یا کسی خانماں برباد اور اپنے اور تمام سماج کے لئے کلینک کا ٹیکابننے پر مجبور ہے ۔ (اسلامیات : ۱۶۲- ۱۶۱)
پس حقیقت یہ ہے کہ تعدد ازدواج کی گنجائش ایک عفیف و پاک د امن سماج کے لئے ضرورت کے درجہ میں ہے اور یہ کوئی نظری فلسفہ نہیں ؛ بلکہ مغرب کا عصمت باختہ سماج اس کی عملی مثال ہے ۔
تعددِ ازدواج میں ایک پہلو عورت کے ساتھ رحمدلی کا بھی ہے، اگر ایک عورت دائم المریض ہو اور کسی مناسب یا نامناسب وجہ سے مرد دوسرے نکاح پر مصر ہو تو اگر تعدد ازدواج کی گنجائش نہ رکھی جائے تو یا تو وہ اسے طلاق دے دے گا ، جس کا مذموم ہونا ظاہر ہے یا وہ غیر قانونی تعدد ازدواج کا راستہ اختیار کرے گا اور غیر قانونی بیوی قانونی بیوی سے زیادہ نقصان دہ ہوتی ہے ؛ کیوں کہ وہ مرد کو زیادہ بلیک میل کر سکتی ہے اور اپنے خنجر ناز سے قانونی بیوی کو گھائل کرنے کی زیادہ صلاحیت رکھتی ہے ، ایسی صورتوں میں تعدد ازدواج رحمت ثابت ہوتی ہے نہ کہ زحمت ، مطلقہ اور بیوہ خواتین کے مسائل کا حل اکثر یہی تعدد ازدواج بنتا ہے اور یہ تعدازدواج بھی دوسری بیوی کی رضامندی اور خوشنودی ہی سے وجود میںآتا ہے ؛ کیوں کہ کسی عورت کو دوسری بیوی بننے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا ۔
خود عورتوں کو بھی اس بات کو سمجھنا چاہئے کہ جب عورتوں کی شرح آبادی مجموعی طور پر مردوں سے زیادہ ہے تو وہ بحیثیت عورت اپنی ان بہنوں کے لئے قانونی طور پر رشتۂ نکاح میں منسلک ہونا پسند کریں گی یا یہ بات کہ وہ وقتاً فوقتاً مختلف مردوں کی غیر قانونی بیوی بنتی رہیں ؟ اور ان حقوق و فوائد سے بھی محروم رہیں جو ایک بیوی کو اپنے شوہر سے حاصل ہونے چاہئیں ؟
تعددِ ازدواج کے مسئلہ میں ایک سے زیادہ نکاح کرنے والوں کا رویہ بھی قابل توجہ ہے، کہ ایک طرف وہ قرآن مجید کی اجازت سے فائدہ اُٹھاکر دوسرا نکاح کرتے ہیں اور دوسری طرف قرآن ہی کی لگائی ہوئی عدل و انصاف کی شرط کو پس پشت ڈال دیتے ہیں ، تعدد ازدواج ایک سنجیدہ فیصلہ ہے نہ کہ پہلی بیوی سے انتقام کا طریقہ، عوام تو عوام ، خواص اور اہل علم بھی جب دوسرا نکاح کرتے ہیں تو کھلے ہوئے ظلم و جور سے اپنا دامن آلودہ کر لیتے ہیں اور زیادہ تر پہلی بیوی کو اور بعض واقعات میں دوسری بیوی کو ’’ معلقہ ‘‘ بنا کر رکھ دیتے ہیں، یہ صریحاً ظلم اور گناہ ِ عظیم ہے اور اللہ کی شریعت سے کھلواڑ کرنے کے مترادف ہے ، جو شخص عدل پر قادر نہ ہو (جیسا کہ مذکور ہو) اس کے لئے ایک ہی بیوی پر قناعت کرنا واجب ہے ، ایک سے زیادہ بیویاں رکھنا درست نہیں ؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اگر تمہیں اندیشہ ہوکہ ایک سے زیادہ بیویوں کے درمیان عدل نہیں کر سکوگے تو تمہیں ایک ہی بیوی پر اکتفا کرنا چاہئے : ’’ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً ‘‘ ۔ ( النساء : ۳)
اس لئے حقیت یہ ہے کہ تعداد ازدواج کی اجازت ایک سماجی و عمرانی ضرورت اورعفت و پاک دامنی کی حفاظت کا ذریعہ ہے اور اپنے نتائج و اثرات کے اعتبار سے خود عورتوں کے لئے بعض حالات میں باعث ِرحمت ہے ؛ البتہ یہ بات ضروری ہے کہ تعدد ازدواج کے لئے شریعت نے جو حدود و قیود مقرر کی ہیں ، ان کا لحاظ رکھا جائے ورنہ یہ قانون حکمِ شریعت کا استعمال نہیں ؛ بلکہ ’’ استحصال ‘‘ہوگا ۔
چند زوجگی –ایک سماجی ضرورت
previous post