Home نظم  پیامِ حق کا ظہور تو ہے

 پیامِ حق کا ظہور تو ہے

by قندیل

تازہ ترین، سلسلہ 91
فضیل احمد ناصری
کبھی یہ سوچا ہے تو نے مسلم! پیامِ حق کا ظہور تو ہے
نزولِ ام الکتاب جس پر ہوا وہی کوہِ نور تو ہے
عروجِ اسلام کے لیے ہے، طریقِ ضربِ کلیم لازم
تری ادائیں بتا رہی ہیں کہ دین سے بے شعور تو ہے
یہ زندگی کوئی زندگی ہے، نبی سے رشتہ، نہ رب سے رشتہ
نماز میں بھی خیالِ لندن، حقیقتاً بے حضور تو ہے
ذرا سی آئے جو آزمائش، تو ڈگمگاتا ہے تیرا ایماں
علاج کچھ ڈھونڈ اس مَرَض کا، نہ جانے کیوں ناصبور تو ہے
ترے گلستانِ زندگی میں بہار آئے تو کیسے آئے
مزاجِ صدیق اور عمر سےہزارہا میل دور تو ہے
اگر ہوں افکار اور اطوار سب کے سب تیرے مومنانہ
نبی کی آنکھوں کا نور تو ہے، نبی کے دل کا سرور تو ہے
جہانِ فانی کی الفتوں نے تری شجاعت کو مار ڈالا
وگرنہ اس بوستانِ ہستی کی ایک آوازِ صور تو ہے
نہیں یہ ممکن خدا کی رحمت،خدا کےبندوں سے روٹھ جائے
تجلیاں تجھ پہ ہوں گی نازل، اگر کوئی کوہِ طور تو ہے
اگر تجھے چاہیے بلندی، تو تھام لے مصطفیٰؑ کا دامن
بروزِ محشر خدا بھی کہہ دے کہ اہلِ حور و قصور تو ہے

You may also like

Leave a Comment