( پنڈت برج نرائن چکبستؔ کے یومِ پیدایش کی مناسبت سے خصوصی تحریر)
محمد عباس دھالیوال
مینیجر اسلامیہ گرلز کالج ،مالیر کوٹلہ،پنجابہندوستانی گنگا جمنی تہذیب کی جب بات چلتی ہے تونظیرؔ اکبرآبادی کے بعد اس ضمن میں جونام سرفہرست ہمارے سامنے آتا ہے، وہ ہے اردو نظم میں اپنا منفرد و جداگانہ مقام رکھنے والے شاعر آنجہانی پنڈت برج نارائین چکبست ؔ کا۔ کشمیری پنڈتوں کے خاندان سے تعلق رکھنے والے چکبست 19جنوری 1882 کو فیض آباد میں پیدا ہوئے ،مگر چند سال بعد ہی لکھنؤو چلے آئے ،آپ کی بقیہ تعلیم و تربیت، اردو ادب کی نفاست کا گہوارہ اور دبستاں کہلائے جانے وا لے اسی ادبی شہر یعنی لکھنؤو کی فضاؤں میں ہوئی،آپ نے فارسی اور اردو زبان سیکھنے کے ساتھ مغربی تعلیم بھی حاصل کی۔1905ء میں کیننگ کالج سے بی، اے کی ڈگری حاصل کی اور 1908ء میں قانون کا امتحان پاس کر کے اپنی وکالت شروع کر دی ،اسی دوران آپ کی شادی ہو گئی ،لیکن قسمت کا کھیل دیکھیں کہ آپ کی بیوی کی بچے کی پیدایش کے دوران موت ہوگئی۔
چکبست نے اپنے پیشہ یعنی وکالت میں بہت ہی کم عرصے میں وہ مقام مرتبہ حاصل کیا کہ آپ کا شمار نامی وکلاء میں ہونے لگا،آپ کوشاعری کا شوق اوّل عمر سے ہی تھا،اس ضمن میں افضال احمد نے اپنی کتاب ’’چکبست: حیات اور ادبی خدمات ‘‘ میں چکبست کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ ابھی آٹھ برس کی عمر تھی کہ ایک روز اپنے کوٹھے پر کھڑے تھے،سامنے نواب وزیر حسن صاحب کبوتر اڑا رہے تھے کہ اتنے میں کسی اور کا ایک کبوتر نواب صاحب کے کبوتروں کے جھنڈ میں شامل ہوکر گھر میں آگیا،وزیر حسن صاحب نے فوراً کبوتر کو پکڑ لیاپھر اس کے پروں میں جیسے ہی گرہ لگاکراسکو چھوڑا،نہ معلوم کیسے گرہ کھل گئی اور کبوتر اڑگیانواب صاحب دیکھتے ہی رہ گئے،چکبست نے جو اس تمام واقعے کو دیکھ رہے تھے، فوراً ایک شعر کہا:
تڑپ کر توڑڈالے بند بازو کے کبوتر نے
بہت باندھا تھا کس کر ایک پر کو دوسرے پر سے
چکبست نے 1894 ء میں 12برس کی عمر میں ایک نظم ’’حب قومی ‘‘ کے نام سے لکھی تھی۔اس میں انکی پختہ خیالی کا اندازہ نظم کے اس شعر سے ہی کرسکتے ہیں کہ:
لطف یکتائی میں جو ہے وہ دوئی میں کہا ں
برخلاف اسکے جو ہو سمجھو کہ وہ دیوانہ ہے
نخل الفت جن کی کوشش سے اگا ہے قوم میں
قابل تعریف ان کی ہمتِ مردانہ ہے
عموماً نئے شاعر اپنی شاعری کا آغاز غزلیات کی صنف سے کرتے ہیں، لیکن چکبست نے اپنی شاعری کا آغاز پہلے پہل ہی نظم سے کیا ۔ آپ نے باقاعدہ کسی شاعر کو استاد نہیں بنایا،اردو شاعری میں چلی آرہی پرانی روایا ت وفرسودہ طرز کہن کو آپ نے اپنی شاعری سے پاک رکھا اور اپنی شاعری کو نئے موضوعات اور خیا لات کے اظہار کا ذریعہ بنایا، اس طرح انھوں نے اردو ادب میں نئی اساس قائم کی۔
دراصل جب چکبست نے شاعری کی دنیا میں قدم رکھا تب ملک میں جنگ آزادی کو لیکر ایک جدوجہد چل رہی تھی ۔ شاعر جس ماحول میں رہتا ہے اور جیتا ہے ان چیزوں کا اس کی زندگی کا عنصر بننا ایک قدرتی اور لازمی جز خیال کیا جاتا ہے، چکبست ایک روشن دماغ و روشن خیا ل شاعر تھے اور اپنے وطن عزیز کی آزادی کے متمنیّ تھے ،یہی وجہ ہے کہ ان کی بیشتر نظمیں جدوجہد آزادی کی مظہرہیں اوران کی حمایت کرتی دکھائی دیتی ہیں، ساتھ ہی ان کی نظمیں نوجوانوں کے خیالات وجذبات کی عکاسی و ترجمانی کرتی نظر آتی ہیں۔یوں تو چکبست نے اپنی شاعری میں اپنی راہیں خود ہی بنائی اور خود ہی ہموار کی ،لیکن کہیں کہیں وہ انیس کی شاعری کی تقلید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ہاں ان کے یہاں مرثیہ تو نہیں ،لیکن انھوں نے انیس کے مرثیہ والے انداز بیاں کو رامائن کے بیان میں صرف کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔غزلوں ، نظموں کے علاوہ انھوں نے شخصی مرثیے بھی لکھے ہیں،اپنی قابل قدر تخلیقات کی بدولت اہل ادب کی نظر میں وہ آج بھی عزّت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔
چکبست ایک نقلابی شاعر تھے انھوں نے بیوہ عورتوں کی شادی کا بیڑہ اٹھایا، حالانکہ ان کی مذہبی روایا ت میں اس فعل کو معیوب اور گنا ہ کے مترادف سمجھا جاتا تھا لیکن انھوں نے اس بات کی پرواہ کیے بغیر اپنی قوم میں پائی جانے والی طرز کہن کے خلاف آواز اٹھائی ،اسی طرح جہاں انھوں نے رامائن کے گیت لکھے ،وہیں مسلم قوم کو انکی امیر وراثت کا واسطہ دیکر بیدار کرنے کی کامیاب کوشش کی ۔اسطرح انھوں نے اپنی شخصیت کے مطابق اپنی شاعری میں بھی اپنے ملک کے عوام کو ایک سیکولر سوچ والی ذہنیت رکھنے کی تلقین کی۔شاعر ی کے ساتھ ساتھ آپ نے نثر نگاری میں بھی نمایاں کارنامے انجام دیئے،ان کے مضامین کے مجموعہ کے مطالعہ کے بعد چکبست کی شخصیت کے بہت سے مزید خوبصورت پہلو کھل کر سامنے آتے ہیں،چکبست نے 1918ء میں ’’صبح امید‘‘ کے نام سے ایک ادبی رسالہ بھی نکالا،اسکے علاوہ ’’صبح وطن‘‘ انکے دیوان کا نام ہے، دراصل یہ دونوں انکے وہ عظیم کارنامے ہیں ،جن سے ان کے حبّ الوطنی کے جذبہ کی بھرپور عکّاسی ہوتی ہے۔
آئیے اب ہم چکبست کے الگ الگ اشعار کے ذریعے ان کی شاعری کے مختلف محاسن سے روشناس و لطف اندوز ہونے کی کوشش کرتے ہیں، ایک جگہ آپ استاد کی قدر کرنے کا درس دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
ادب تعلیم کا جوہر ہے زیور ہے جوانی کا
وہی شاگرد ہیں جو خدمتِ استاد کرتے ہیں
ایک دوسرے شعر میں عمر رفتہ کے یونہی عبث گزارنے کے کا پچھتاوا کرتے ہوئے کہتے ہیں:
نہ جانی قدر تیری عمر رفتہ ہم نے کالج میں
نکل آتے ہیں آنسو جب تجھے ہم یاد کرتے ہیں
ایک اور جگہ انسان کے دردِ محبت سے آشنا ہونے کا ذکر کچھ یوں کرتے ہیں کہ:
اگر درد محبت سے نہ انساں آشنا ہوتا
نہ کچھ مرنے کا غم ہوتا نہ جینے کا مزا ہوتا
اگر دم بھر بھی مٹ جاتی خلش خار تمنّا کی
دل حسرت طلب کو اپنی ہستی سے گلا ہوتا
چکبست ؔ کی بصیرت کی عکاسی کرتا انکا یہ شعر دیکھیں:
اک سلسلہ ہوس کا ہے انساں کی زندگی
اس ایک مشتِ خاک کو غم دو جہاں کے ہیں
ایک ہی خیال پر جب دو بڑے شاعر طبع آزمائی کرتے ہیں تو کیا سماں باندھتے ہیں، پہلے مو من خاں مومن نے ایک شعر کہا:
ایک آنسو نے ڈبویا مجھ کو انکی بزم میں
بوند بھر پانی سے ساری آبرو جاتی رہی
اسی طرح کے خیال کو چکبست نے اپنے ایک شعرمیں کچھ اس انداز میں پیش کیا ہے:
رلایا اہل محفل کو نگاہِ یاس نے میری
قیامت تھی جو اک قطرہ ان آنکھوں سے جدا ہوتا
ایک اور خوبصورت ومرصع غزل سے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
انھیں یہ فکر ہے ہر دم نئی طرزِجفا کیا ہے
ہمیں یہ شوق ہے دیکھیں ستم کی انتہا کیا ہے
گنہگاروں میں شامل ہیں گناہوں سے نہیں واقف
سزا کو جانتے ہیں ہم خدا جانے خطا کیا ہے
نیا بسمل ہوں میں واقف نہیں رسمِ شہادت سے
بتا دے تو ہی اے ظالم تڑپنے کی ادا کیا ہے
امیدیں مل گئیں مٹی میں دور ضبط آخر ہے
صدائے غیب بتلادے ہمیں حکمِ خدا کیا ہے
چکبست اپنے پیشہ سے وابستہ یعنی وکیلوں کی حالتِ زار پر بھی مزاح کرنے سے نہیں چوکتے ،ملاحظہ فرمائیں:
مرتے دم جب ملک الموت مقابل آیا
دل ناشاد یہ سمجھا کہ مؤ کل آیا
ہم لائے مؤکل کو تقدیر اسے کہتے ہیں
وہ پھنس کے نکل بھاگا تقدیر اسے کہتے ہیں
قومی یکجہتی کی منظر کشی کرتا ایک بند ملاحظہ فرمائیں:
دیوار ودر سے اب ان کا اثر عیاں ہے
اپنی رگوں میں اب تک ان کا لہو رواں ہے
اب تک اثر میں ڈوبی ناقوس کی فغاں ہے
فردوس گوش اب تک کیفیتِ اذاں ہے
کشمیر سے عیاں ہے جنّت کا رنگ اب تک
شوکت سے بہہ رہا ہے دریائے گنگ اب تک
چکبست کی نظم رامائن کا ایک سین میں سے ایک بند ملاحظہ فرمائیں ،اس بند میں رام چندر جی جب اپنی ماں سے رخصت لینے کے لیے آتے ہیں اس سین میں والدین کی فرمانبرداری اور بیٹے کی رخصتی کا ماں کوکس قدر درداور ملال ہے اسکا منظرچکبست نے نہایت دلکش انداز میں پیش کیا ہے :
رخصت ہوا وہ باپ سے لے کر خدا کا نام
راہِ وفا کی منزلِ اوّل ہوئی تمام
منظور تھا جو ماں کی زیارت کا انتظام
دامن سے اشک پوچھ کے دل سے کیا کلام
اظہارِ بیکسی سے ستم ہوگا اور بھی
دیکھا ہمیں اداس تو غم ہوگا اور بھی
دل کو سنبھالتا ہو ا آخر وہ نو نہال
خاموش ماں کے پا س گیا صورتِ خیال
دیکھا تو ایک در میں ہے بیٹھی وہ خستہ حال
سکتہ سا ہو گیا ہے یہ ہے شدّتِ ملال
تن میں لہو کا نام نہیں زرد رنگ ہے
گویا بشر نہیں کوئی تصویرِ سنگ ہے
کیا جانے کس خیال میں گم تھی وہ بے گناہ
نورِ نظر پہ دیدۂ حسرت سے کی نگاہ
جنبش ہوئی لبوں کو بھری ایک سرد آہ
لی گوشہ ہائے چشم سے اشکوں نے رخ کی راہ
اپنی نظموں میں چکبست نے نہ صرف ہندوؤں کو مخاطب کیا ،بلکہ انھوں نے مسلمانوں کو بھی انکے قابل فخر ورثہ کا واسطہ دیکر جگانے کی پر زور کوشش کی،نظم سے ایک بند حظہ فرمائیں:
دکھادو جوہرِ اسلام اے مسلمانو!
وقارِ قوم گیا قوم کے نگہبانو
ستونِ ملک کے ہو قدر فوقیت جانو
جفا وطن پہ ہے فرضِ وفا کو پہچانو
نبیِ خلق ومروت کے ورثہ دار ہو تم
عرب کی شانِ حمیت کی یادگار ہو تم
اردونظم کے یہ عظیم شاعر 12 فروری 1926ء کو ایک مقدمہ کی پیروی کے سلسلے میں رائے بریلی تشریف لے گئے ،دوران پیشی عدالت میں بحث کی اور سہ پہر کو لکھنؤ کے لیے واپسی کی خاطر اسٹیشن آئے اور ریل میں سوار ہو کر اپنی سیٹ پر بیٹھے ہی تھے کہ دماغ پر فالج کا اٹیک ہوا ۔ جس کی وجہ سے مسافروں نے اسٹیشن پر ہی اتار لیا اور ویٹنگ روم میں لٹا دیا گیا ۔جہاں قریب شام 7بجے آپ اس دنیائے فانی سے قریب 44سال کی قلیل عمر میں ہمیشہ ہمیش کے لیے رخصت ہوگئے، اس کے بعد محشر ؔ لکھنوی نے آپ ہی کے مصرع سے تاریخ نکالی:
انھیں کے مصرع سے تاریخ ہے ہمراہِ عزا
موت کیا ہے انہی اجزا کا پریشاں ہونا
Phone.9855259650
[email protected]
مینیجر اسلامیہ گرلز کالج ،مالیر کوٹلہ،پنجابہندوستانی گنگا جمنی تہذیب کی جب بات چلتی ہے تونظیرؔ اکبرآبادی کے بعد اس ضمن میں جونام سرفہرست ہمارے سامنے آتا ہے، وہ ہے اردو نظم میں اپنا منفرد و جداگانہ مقام رکھنے والے شاعر آنجہانی پنڈت برج نارائین چکبست ؔ کا۔ کشمیری پنڈتوں کے خاندان سے تعلق رکھنے والے چکبست 19جنوری 1882 کو فیض آباد میں پیدا ہوئے ،مگر چند سال بعد ہی لکھنؤو چلے آئے ،آپ کی بقیہ تعلیم و تربیت، اردو ادب کی نفاست کا گہوارہ اور دبستاں کہلائے جانے وا لے اسی ادبی شہر یعنی لکھنؤو کی فضاؤں میں ہوئی،آپ نے فارسی اور اردو زبان سیکھنے کے ساتھ مغربی تعلیم بھی حاصل کی۔1905ء میں کیننگ کالج سے بی، اے کی ڈگری حاصل کی اور 1908ء میں قانون کا امتحان پاس کر کے اپنی وکالت شروع کر دی ،اسی دوران آپ کی شادی ہو گئی ،لیکن قسمت کا کھیل دیکھیں کہ آپ کی بیوی کی بچے کی پیدایش کے دوران موت ہوگئی۔
چکبست نے اپنے پیشہ یعنی وکالت میں بہت ہی کم عرصے میں وہ مقام مرتبہ حاصل کیا کہ آپ کا شمار نامی وکلاء میں ہونے لگا،آپ کوشاعری کا شوق اوّل عمر سے ہی تھا،اس ضمن میں افضال احمد نے اپنی کتاب ’’چکبست: حیات اور ادبی خدمات ‘‘ میں چکبست کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ ابھی آٹھ برس کی عمر تھی کہ ایک روز اپنے کوٹھے پر کھڑے تھے،سامنے نواب وزیر حسن صاحب کبوتر اڑا رہے تھے کہ اتنے میں کسی اور کا ایک کبوتر نواب صاحب کے کبوتروں کے جھنڈ میں شامل ہوکر گھر میں آگیا،وزیر حسن صاحب نے فوراً کبوتر کو پکڑ لیاپھر اس کے پروں میں جیسے ہی گرہ لگاکراسکو چھوڑا،نہ معلوم کیسے گرہ کھل گئی اور کبوتر اڑگیانواب صاحب دیکھتے ہی رہ گئے،چکبست نے جو اس تمام واقعے کو دیکھ رہے تھے، فوراً ایک شعر کہا:
تڑپ کر توڑڈالے بند بازو کے کبوتر نے
بہت باندھا تھا کس کر ایک پر کو دوسرے پر سے
چکبست نے 1894 ء میں 12برس کی عمر میں ایک نظم ’’حب قومی ‘‘ کے نام سے لکھی تھی۔اس میں انکی پختہ خیالی کا اندازہ نظم کے اس شعر سے ہی کرسکتے ہیں کہ:
لطف یکتائی میں جو ہے وہ دوئی میں کہا ں
برخلاف اسکے جو ہو سمجھو کہ وہ دیوانہ ہے
نخل الفت جن کی کوشش سے اگا ہے قوم میں
قابل تعریف ان کی ہمتِ مردانہ ہے
عموماً نئے شاعر اپنی شاعری کا آغاز غزلیات کی صنف سے کرتے ہیں، لیکن چکبست نے اپنی شاعری کا آغاز پہلے پہل ہی نظم سے کیا ۔ آپ نے باقاعدہ کسی شاعر کو استاد نہیں بنایا،اردو شاعری میں چلی آرہی پرانی روایا ت وفرسودہ طرز کہن کو آپ نے اپنی شاعری سے پاک رکھا اور اپنی شاعری کو نئے موضوعات اور خیا لات کے اظہار کا ذریعہ بنایا، اس طرح انھوں نے اردو ادب میں نئی اساس قائم کی۔
دراصل جب چکبست نے شاعری کی دنیا میں قدم رکھا تب ملک میں جنگ آزادی کو لیکر ایک جدوجہد چل رہی تھی ۔ شاعر جس ماحول میں رہتا ہے اور جیتا ہے ان چیزوں کا اس کی زندگی کا عنصر بننا ایک قدرتی اور لازمی جز خیال کیا جاتا ہے، چکبست ایک روشن دماغ و روشن خیا ل شاعر تھے اور اپنے وطن عزیز کی آزادی کے متمنیّ تھے ،یہی وجہ ہے کہ ان کی بیشتر نظمیں جدوجہد آزادی کی مظہرہیں اوران کی حمایت کرتی دکھائی دیتی ہیں، ساتھ ہی ان کی نظمیں نوجوانوں کے خیالات وجذبات کی عکاسی و ترجمانی کرتی نظر آتی ہیں۔یوں تو چکبست نے اپنی شاعری میں اپنی راہیں خود ہی بنائی اور خود ہی ہموار کی ،لیکن کہیں کہیں وہ انیس کی شاعری کی تقلید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ہاں ان کے یہاں مرثیہ تو نہیں ،لیکن انھوں نے انیس کے مرثیہ والے انداز بیاں کو رامائن کے بیان میں صرف کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔غزلوں ، نظموں کے علاوہ انھوں نے شخصی مرثیے بھی لکھے ہیں،اپنی قابل قدر تخلیقات کی بدولت اہل ادب کی نظر میں وہ آج بھی عزّت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔
چکبست ایک نقلابی شاعر تھے انھوں نے بیوہ عورتوں کی شادی کا بیڑہ اٹھایا، حالانکہ ان کی مذہبی روایا ت میں اس فعل کو معیوب اور گنا ہ کے مترادف سمجھا جاتا تھا لیکن انھوں نے اس بات کی پرواہ کیے بغیر اپنی قوم میں پائی جانے والی طرز کہن کے خلاف آواز اٹھائی ،اسی طرح جہاں انھوں نے رامائن کے گیت لکھے ،وہیں مسلم قوم کو انکی امیر وراثت کا واسطہ دیکر بیدار کرنے کی کامیاب کوشش کی ۔اسطرح انھوں نے اپنی شخصیت کے مطابق اپنی شاعری میں بھی اپنے ملک کے عوام کو ایک سیکولر سوچ والی ذہنیت رکھنے کی تلقین کی۔شاعر ی کے ساتھ ساتھ آپ نے نثر نگاری میں بھی نمایاں کارنامے انجام دیئے،ان کے مضامین کے مجموعہ کے مطالعہ کے بعد چکبست کی شخصیت کے بہت سے مزید خوبصورت پہلو کھل کر سامنے آتے ہیں،چکبست نے 1918ء میں ’’صبح امید‘‘ کے نام سے ایک ادبی رسالہ بھی نکالا،اسکے علاوہ ’’صبح وطن‘‘ انکے دیوان کا نام ہے، دراصل یہ دونوں انکے وہ عظیم کارنامے ہیں ،جن سے ان کے حبّ الوطنی کے جذبہ کی بھرپور عکّاسی ہوتی ہے۔
آئیے اب ہم چکبست کے الگ الگ اشعار کے ذریعے ان کی شاعری کے مختلف محاسن سے روشناس و لطف اندوز ہونے کی کوشش کرتے ہیں، ایک جگہ آپ استاد کی قدر کرنے کا درس دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
ادب تعلیم کا جوہر ہے زیور ہے جوانی کا
وہی شاگرد ہیں جو خدمتِ استاد کرتے ہیں
ایک دوسرے شعر میں عمر رفتہ کے یونہی عبث گزارنے کے کا پچھتاوا کرتے ہوئے کہتے ہیں:
نہ جانی قدر تیری عمر رفتہ ہم نے کالج میں
نکل آتے ہیں آنسو جب تجھے ہم یاد کرتے ہیں
ایک اور جگہ انسان کے دردِ محبت سے آشنا ہونے کا ذکر کچھ یوں کرتے ہیں کہ:
اگر درد محبت سے نہ انساں آشنا ہوتا
نہ کچھ مرنے کا غم ہوتا نہ جینے کا مزا ہوتا
اگر دم بھر بھی مٹ جاتی خلش خار تمنّا کی
دل حسرت طلب کو اپنی ہستی سے گلا ہوتا
چکبست ؔ کی بصیرت کی عکاسی کرتا انکا یہ شعر دیکھیں:
اک سلسلہ ہوس کا ہے انساں کی زندگی
اس ایک مشتِ خاک کو غم دو جہاں کے ہیں
ایک ہی خیال پر جب دو بڑے شاعر طبع آزمائی کرتے ہیں تو کیا سماں باندھتے ہیں، پہلے مو من خاں مومن نے ایک شعر کہا:
ایک آنسو نے ڈبویا مجھ کو انکی بزم میں
بوند بھر پانی سے ساری آبرو جاتی رہی
اسی طرح کے خیال کو چکبست نے اپنے ایک شعرمیں کچھ اس انداز میں پیش کیا ہے:
رلایا اہل محفل کو نگاہِ یاس نے میری
قیامت تھی جو اک قطرہ ان آنکھوں سے جدا ہوتا
ایک اور خوبصورت ومرصع غزل سے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
انھیں یہ فکر ہے ہر دم نئی طرزِجفا کیا ہے
ہمیں یہ شوق ہے دیکھیں ستم کی انتہا کیا ہے
گنہگاروں میں شامل ہیں گناہوں سے نہیں واقف
سزا کو جانتے ہیں ہم خدا جانے خطا کیا ہے
نیا بسمل ہوں میں واقف نہیں رسمِ شہادت سے
بتا دے تو ہی اے ظالم تڑپنے کی ادا کیا ہے
امیدیں مل گئیں مٹی میں دور ضبط آخر ہے
صدائے غیب بتلادے ہمیں حکمِ خدا کیا ہے
چکبست اپنے پیشہ سے وابستہ یعنی وکیلوں کی حالتِ زار پر بھی مزاح کرنے سے نہیں چوکتے ،ملاحظہ فرمائیں:
مرتے دم جب ملک الموت مقابل آیا
دل ناشاد یہ سمجھا کہ مؤ کل آیا
ہم لائے مؤکل کو تقدیر اسے کہتے ہیں
وہ پھنس کے نکل بھاگا تقدیر اسے کہتے ہیں
قومی یکجہتی کی منظر کشی کرتا ایک بند ملاحظہ فرمائیں:
دیوار ودر سے اب ان کا اثر عیاں ہے
اپنی رگوں میں اب تک ان کا لہو رواں ہے
اب تک اثر میں ڈوبی ناقوس کی فغاں ہے
فردوس گوش اب تک کیفیتِ اذاں ہے
کشمیر سے عیاں ہے جنّت کا رنگ اب تک
شوکت سے بہہ رہا ہے دریائے گنگ اب تک
چکبست کی نظم رامائن کا ایک سین میں سے ایک بند ملاحظہ فرمائیں ،اس بند میں رام چندر جی جب اپنی ماں سے رخصت لینے کے لیے آتے ہیں اس سین میں والدین کی فرمانبرداری اور بیٹے کی رخصتی کا ماں کوکس قدر درداور ملال ہے اسکا منظرچکبست نے نہایت دلکش انداز میں پیش کیا ہے :
رخصت ہوا وہ باپ سے لے کر خدا کا نام
راہِ وفا کی منزلِ اوّل ہوئی تمام
منظور تھا جو ماں کی زیارت کا انتظام
دامن سے اشک پوچھ کے دل سے کیا کلام
اظہارِ بیکسی سے ستم ہوگا اور بھی
دیکھا ہمیں اداس تو غم ہوگا اور بھی
دل کو سنبھالتا ہو ا آخر وہ نو نہال
خاموش ماں کے پا س گیا صورتِ خیال
دیکھا تو ایک در میں ہے بیٹھی وہ خستہ حال
سکتہ سا ہو گیا ہے یہ ہے شدّتِ ملال
تن میں لہو کا نام نہیں زرد رنگ ہے
گویا بشر نہیں کوئی تصویرِ سنگ ہے
کیا جانے کس خیال میں گم تھی وہ بے گناہ
نورِ نظر پہ دیدۂ حسرت سے کی نگاہ
جنبش ہوئی لبوں کو بھری ایک سرد آہ
لی گوشہ ہائے چشم سے اشکوں نے رخ کی راہ
اپنی نظموں میں چکبست نے نہ صرف ہندوؤں کو مخاطب کیا ،بلکہ انھوں نے مسلمانوں کو بھی انکے قابل فخر ورثہ کا واسطہ دیکر جگانے کی پر زور کوشش کی،نظم سے ایک بند حظہ فرمائیں:
دکھادو جوہرِ اسلام اے مسلمانو!
وقارِ قوم گیا قوم کے نگہبانو
ستونِ ملک کے ہو قدر فوقیت جانو
جفا وطن پہ ہے فرضِ وفا کو پہچانو
نبیِ خلق ومروت کے ورثہ دار ہو تم
عرب کی شانِ حمیت کی یادگار ہو تم
اردونظم کے یہ عظیم شاعر 12 فروری 1926ء کو ایک مقدمہ کی پیروی کے سلسلے میں رائے بریلی تشریف لے گئے ،دوران پیشی عدالت میں بحث کی اور سہ پہر کو لکھنؤ کے لیے واپسی کی خاطر اسٹیشن آئے اور ریل میں سوار ہو کر اپنی سیٹ پر بیٹھے ہی تھے کہ دماغ پر فالج کا اٹیک ہوا ۔ جس کی وجہ سے مسافروں نے اسٹیشن پر ہی اتار لیا اور ویٹنگ روم میں لٹا دیا گیا ۔جہاں قریب شام 7بجے آپ اس دنیائے فانی سے قریب 44سال کی قلیل عمر میں ہمیشہ ہمیش کے لیے رخصت ہوگئے، اس کے بعد محشر ؔ لکھنوی نے آپ ہی کے مصرع سے تاریخ نکالی:
انھیں کے مصرع سے تاریخ ہے ہمراہِ عزا
موت کیا ہے انہی اجزا کا پریشاں ہونا
Phone.9855259650
[email protected]