Home نظم پروین شاکر

پروین شاکر

by قندیل

تیری خوشبو کا پتا کرتی ہے
مجھ پہ احسان ہوا کرتی ہے

چوم کر پھول کو آہستہ سے
معجزہ باد صبا کرتی ہے

کھول کر بند قبا گل کے ہوا
آج خوشبو کو رہا کرتی ہے

ابر برستے تو عنایت اس کی
شاخ تو صرف دعا کرتی ہے

زندگی پھر سے فضا میں روشن
مشعل برگ حنا کرتی ہے

ہم نے دیکھی ہے وہ اجلی ساعت
رات جب شعر کہا کرتی ہے

شب کی تنہائی میں اب تو اکثر
گفتگو تجھ سے رہا کرتی ہے

دل کو اس راہ پہ چلنا ہی نہیں
جو مجھے تجھ سے جدا کرتی ہے

زندگی میری تھی لیکن اب تو
تیرے کہنے میں رہا کرتی ہے

اس نے دیکھا ہی نہیں ورنہ یہ آنکھ
دل کا احوال کہا کرتی ہے

مصحف دل پہ عجب رنگوں میں
ایک تصویر بنا کرتی ہے

بے نیاز کف دریا انگشت
ریت پر نام لکھا کرتی ہے

دیکھ تو آن کے چہرہ میرا
اک نظر بھی تری کیا کرتی ہے

زندگی بھر کی یہ تاخیر اپنی
رنج ملنے کا سوا کرتی ہے

شام پڑتے ہی کسی شخص کی یاد
کوچۂ جاں میں صدا کرتی ہے

مسئلہ جب بھی چراغوں کا اٹھا
فیصلہ صرف ہوا کرتی ہے
مجھ سے بھی اس کا ہے ویسا ہی سلوک
حال جو تیرا انا کرتی ہے
دکھ ہوا کرتا ہے کچھ اور بیاں
بات کچھ اور ہوا کرتی ہے

You may also like

Leave a Comment