اکرم شمس
غالب اکیڈمی میں چارمارچ کو اردو کے مشہور ناقد جناب شمس الرحمن فاروقی نے اردو اخباروں کے خلاف جس طرح سے زہر اگلا وہ کوئی بھی محب اردو برداشت نہیں کرسکتا ۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا تھاکہ مجھے اردو اخباروں کو دیکھ کر متلی آتی ہے۔ میں نہ خود اردو اخبار پڑھتا ہوں اور نہ کسی کو پڑھنے کی تلقین کرتا ہوں۔ ان کے اس بیان پر غالب اکیڈمی میں موجود سامعین حیران تھے۔ اپنی دانشوری کے زعم میں انہوں نے اردو اخبارات کوردی کا ڈھیر قرار دے دیا ۔
مجھے فاروقی اور نارنگ کے تنازعہ سے کوئی مطلب نہیں۔ میں صرف اردو اخبارات کے خلاف ان کی جارحانہ گفتگو سے ایک صحافی ہونے کی وجہ سے صدمے میں ہوں۔ موصوف کو معلوم نہیں کہ آج کے اس نامساعد دور میں اردو اخبارات کس طرح نکل رہے ہیں۔ حکومت نے اشتہار سے اپنے ہاتھ کھینچ لیے۔ یہ اردو اخبار کے مالکان اور ایڈیٹر صاحبان ہیں جو اردو کی شمع جلائے ہوئے ہیں۔ ایسی بات نہیں کہ اردو اخبارات نے جدید ٹکنالوجی کا فائدہ نہیں اٹھایا۔ آج اردو کے سبھی اخبارات رنگین صفحات میں شائع ہورہے ہیں۔ خبروں کے معیار میں بھی بہتری آئی ہے۔ جدید ٹکنالوجی سے جڑنے کی وجہ سے اب اردو اخبارات میں انگریزی اور دیگر زبانوں کے شانہ بشانہ تازہ ترین خبریں ہر صبح قارئین تک پہنچا دیتے ہیں۔ اکثر اخبارات انٹرنیٹ پر بھی شائع ہوتے ہیں۔ یاد کریں وہ زمانہ جب اردو روزنامہ کے نام پر صرف قومی آواز اور ملاپ جیسے اخبارات ہی تھے۔ ہاتھ کی کتابت پر شائع ہونے والے ان اخبارات میں عموما ایک دن کی پرانی خبریں ہوا کرتی تھیں۔ ان پر مستزاد کالا اور بھداپن جو دوسری زبانوں کے مقابلے میں اردو والوں کو احساس کمتری میں مبتلا کرنے کے لیے کافی تھا۔
فاروقی صاحب کی اس بات میں صداقت ہوسکتی ہے کہ اخباروں کی زبان کی سطح وہ نہیں رہی جو پہلے ہوا کرتی تھی تو جناب کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ معاملہ اردو ہی کے ساتھ نہیں ہے ہندی والے بھی اس کا رونا روتے ہیں۔ عربی زبان ایک ترقی یافتہ زبان ہے لیکن حافظ ابراہیم بک بیسویں صدی کے اوائل میں وہاں کے اخبارات کی زبان کو ادبی زبان سے فروتر بتا رہے ہیں۔ تو کیا ہندی اور دوسری زبان والوں نے اخبارات خریدنا بند کردیا؟ اور کیا اردو اخبار میں لکھنے والے ہر شخص سے یہ امید کرنا بجا ہے کہ وہ مولوی محمدباقراورمولانا آزاد جیسی اردو لکھے؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ہم اخبار ادبی سہ پارہ سمجھ کر پڑھتے ہیں یا حالات سے آگاہی کے لئے پڑھتے ہیں۔ جس کو ادبی زبان کی چاشنی چاہئے وہ کوئی ادبی رسالہ خرید کر پڑھے۔ بلکہ فاروقی صاحب کو اردو اخبارات کا احسان مند ہونا چاہئے کہ انہوں نے اردو اخبارات کے کچھ صفحات ادب کے لیے بھی مخصوص کردیادیئے ہیں۔ اخبارات کا مطالعہ حالات حاضرہ سے آگاہی کے لیے ہوتا ہے۔شمس الرحمان فاروقی صاحب جیسے لوگوں کو اپنی انگریزی دانی پر چونکہ ناز ہے وہ شاید یہ بتانے میں بھی شرم محسوس کریں کہ وہ حالات حاضرہ سے آگاہی کے لیے اردو اخبارات کا سہارا لیتے ہیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اردویامسلم قوم اور اقلیتوں سے متعلق خبروں کو قومی میڈیا کبھی اہمیت نہیں دیتا۔ فاروقی صاحب لاکھ اچھی باتیں سمیناروں میں بیان کریں لیکن ان کی اچھی یابری خبرکو بھی کوئی انگریزی اخبارشائع نہیں کرے گا۔ لے دے کر اردو اخبارات ہیں جو اردو اور اقلیتوں سے متعلق خبروں کو شائع کرتے ہیں۔ ملک میں کیا ہورہا ہے۔ عالم اسلام میں کیا ہورہا ہے یہ ہمیں اردو اخبارات بتاتے ہیں۔ اردو اخبارات سے کٹ کر ہم اپنی قوم اور کمیونٹی سے کٹ جائیں گے۔ فاروقی صاحب لاکھ بزرگ سہی لیکن اردو اخبارات کا ذکر جسمضحکہ خیز انداز میں انہوں نے کیا اس سے اردو صحافت سے وابستگی رکھنے والوں کو شدید صدمہ پہنچا ہے۔ ایسے وقت
میں جب اردواخبار ات کو خرید کر پڑھنے کی تحریک چلائی جارہی ہو تاکہ اخبارات حکومتی سرپرستی سے محروم ہونے کے بعد بھی زندہ رہ سکیں فاروقی صاحب جیسے دانشوری دکھانے والوں کی وجہ سے اس تحریک کو شدید صدمہ پہنچے گا۔ شمس الرحمن فاروقی صاحب سے پوچھنا چاہئے کہ وہ بھی تو ایک ماہنامہ نکال رہے تھے۔ کیوں بند کردیا؟ اردو صحافت میں ایک مثال قائم کرنے کے لئے اسی کو روزنامہ میں تبدیل کرکے ہم صحافیوں کو آئینہ دکھا دیا ہوتا۔
اردو زبان کی ترقی کے لیے اردو اخبارات کی اشاعت بہت ضروری ہے۔ اخبارات کے بغیر اردو کی بقا کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ ہندی اور انگریزی میڈیا مسلمانوں کی پہنچ سے بہت دور ہے۔ لے دے کر یہی اخبارات ہیں جو مسلمانوں کو اپنے ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔ ان کی باتوں کو حکومت کے ایوانوں تک پہچاتے ہیں اور مسلمانوں میں رائے عامہ بیدار کرنے کا مستحسن کام کرتے ہیں۔ ان کی ریڈر شپ بڑھانے کے لیے باقاعدہ کوشش کی جانی چاہئے۔ اس لیے کہ اگر ہماری عدم توجہی کی وجہ سے اگر یہ بند ہوگئے تو ہندوستان میں آپ کی زبان بھی خطرے میں ہوگی اور آپ کا وجود بھی ۔
فاروقی صاحب کو اردو اخبار نہیں پڑھنا ہے نہ پڑھیں لیکن دوسروں کو اردو اخبار خریدنے اور پڑھنے سے نہ روکیں۔ چلتے چلتے شمس الرحمن فاروقی صاحب سے ایک سوال یہ کہ اگر آپ کا لڑکا بدصورت ہوتو کیا آپ اس کو یہ کہہ کر ذلیل کریں گے کہ تم کو دیکھ کر مجھے متلی آتی ہے؟ حضور!اردو اخبارات بھی آپ کے اپنے ہیں۔ آپ ان کے سرپرست ہیں۔ آپ کی مادری زبان کی حفاظت کررہے ہیں،آپ کوتواردو کے مدیران کی حوصلہ افزائی کرناچا ہیے نہ کہ ان کی دل شکنی۔ میری شمس الرحمن فاروقی صاحب اوران جیسے خیالات رکھنے والے ادیبوں سے استدعا ہے کہ اردو اخبارات کے خلاف اس کے بیانات سے گریز کریں اور اردو اخبارات کو تقویت دینے میں ان کا تعاون کریں۔آپ کے بیان کی اہمیت ہے،لوگ آپ کی باتوں کوسنجیدگی سے لیتے ہیں،خداراانھیں گمراہ نہ کیجیے۔
4 comments
یہ کس اکرم شمس کی تحریر ہے، ان.کا تعلق کہاں سے ہے.
واضح کیا جائے
[email protected] Akram Shams
Zakir Nagar
New Delhi.
اتنی تفصیلات ہیں ہمارے پاس آپ ایمیل سے مضمون نگار سے رابطہ کر سکتے ہیں مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا اتفاق ضروری نہیں
110025
ای میل ایڈریس میں شمسی ہے
کیا تحریر کے ساتھ درج نام میں شمسی تو نہیں،
اس نام کے ایک میرے دوست ہیں جو ممبئی میں رہتے ہیں ان کا مضمون نہیں ہے….
سليقه يه كه بات سليقه سي كهي جاي