نئی دہلی، 21 دسمبر(قندیل نیوز)
ٹو جی اسپیکٹرم الاٹمنٹ گھوٹالہ معاملہ میں سابق وزیر مواصلات اے راجا اور ڈی ایم کے رہنما کنی موجھی سمیت تمام ملزمان کو بری کرنے کے خصوصی عدالت کے فیصلے پر قانونی ماہرین کی جانب سے مختلف خیالات کا اظہار کیا گیا ہے ۔ ایک مخصوص زعفرانی طبقہ نے جہاں بری کیے جانے کو بدقسمتی قرار دے کر ابلہی میں یہ بھی کہا کہ اس سے سیاسی طور پر سنگین صورتحال پیدا ہوگی تو وہیں دوسرے طبقہ نے اس پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت حزب مخالف نے بلبلا بنایا تھا آج عدم شواہد کی وجہ سے پھوٹ گیا ۔ سابق اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ فیصلے کو بغیر پڑھے اچھا ہے یا برا نہیں کہہ سکتے ہیں۔ انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ یہ کوئی آخری فیصلہ نہیں ہے اور اس کے خلاف اعلی عدالتوں میں اپیل کی جا سکتی ہے۔پیشرو این ڈی اے دور میں اعلیٰ عہدے پرفائز قانونی افسر سورابجی نے کہا کہیہ صرف ایک خصوصی عدالت کا فیصلہ ہے جس کے خلاف اپیل کی جا سکتی ہے۔ سی بی آئی ہائی کورٹ میں اپیل کر سکتی ہے۔ میں نے فیصلہ پڑھا نہیں ہے اس لئے اس سلسلے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے ۔ ہائی کورٹ کے سابق جج سنہا نے جہاں فیصلے کو بدقسمتی بتایا، وہیں دیو نے کہا کہ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ معاملہ کی تفتیش درست طریقہ سے نہیں کی گئی ہے ۔ اس سلسلے میں انہوں نے دلیل دیتے ہوئے کہا کہ استغاثہ معاملے کو ثابت کرنے میں ناکام رہا اور یہ فیصلہ جانچ ایجنسیوں بالخصوص سی بی آئی جیسی اہم ایجنسی پر سنگین شک کھڑا کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی طور پر یہ ملک میں ایک سنگین صورتحال پیداہوسکتی ہے ۔ہمیں اسے د?رگھ?ال سیاسی دائرے میں دیکھنا ہوگا. ” سنہا اور دیو کے اظہار سے الگ اپنا تاثر بیان کرتے ہوئے سینئر وکیل وکاسِ سنگھ سنگھ اور ہائی کورٹ کے سابق جج آر ایس سوڈھی نے کہا کہ استغاثہ کے پاس اپنا معاملہ ثابت کرنے کے لئے کافی مواد نہیں تھا،سوڈھی نے کہا کہ ثبوت کی کمی تھی۔
ٹوجی فیصلے پر ماہرین میں اختلاف
previous post