محمداسلم خان
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا داماد جارڈ کوشنر طاقت کے کھیل کا عالمی کھلاڑی بن کر ابھرا ہے۔اس کے پسِ پردہ ہنری کسنجر کا شاہ دماغ کار فر ما ہے۔ وہ دورِ جدید کالارنس آف عریبیا ہے جو ایران کے مقابل عرب قوم پرستی کے جذبات کو ہوا دے کر مشرقی وسطیٰ کو ہولناک بحران میں دھکیل رہا ہے، اس شاطر کا کمال یہ ہے کہ اس نے سعودی عرب کے خادمِ حرمین شریفین اور ان کے خاندان کو فلسطینیوں اور حماس کے مدمقابل تل ابیب کے صہیونیوں کے ساتھ کھڑاکردیا ہے، جبکہ بعض شہزادے تو فائیو اسٹار جیل خانے میں تفتیش بھگت رہے ہیں۔
برطانوی فوج کے معروف جاسوس لیفٹیننٹ کرنل تھامس ایڈورڈ لارنس المعروف ’’لارنس آف عریبیا‘‘ نے پہلی جنگ عظیم کے دوران سلطنت عثمانیہ کے زیر نگیں عرب علاقوں میں عرب قوم پرستی کے جذبات بھڑکا کر بغاوت کروا کے عالمی شہرت پائی۔ اس بغاوت کے نتیجے میں جنگ عظیم کے بعد عرب علاقے سلطنتِ عثمانیہ کی دسترس سے نکل گئے۔ اسلامی خلافت کے خاتمے کے لیے عربوں میں قوم پرستی کے جذبات جگا کر انہیں ترکوں کے خلاف متحد کرنے کے باعث انہیں لارنس آف عریبیا بھی کہا جاتا ہے۔ یہ خطاب ۱۹۶۲ء میں لارنس آف عریبیا کے نام سے بننے والی فلم سے عالمی شہرت اختیار کر گیا۔
داماد پاکستانی ہو یا امریکی، ہمیشہ بڑا طاقتور ہوتا ہے، لیکن ٹرمپ کے داماد کی تو شان و شوکت ہی نرالی ہے۔ جو قوت اسے حاصل ہے، وہ ماضی میں کسی امریکی کوحاصل نہیں رہی۔ امریکی ریاست و سیاست میں خاندانی حوالے اور رشتے داریاں کبھی بھی اہم نہیں رہی ہیں، لیکن روایت شکن ٹرمپ کے کیا کہنے، انہوں نے اپنے جواں سال اور ناتجربہ کار داماد کو اپنا سینئر مشیر مقرر کرکے روایت سے انحراف کیا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ وائٹ ہاؤس میں طاقت کا جاہ و جلال دکھانے والے جارڈ کوشنر ٹرمپ کے لیے مستقبل میں کس درجہ مشکلات پیدا کریں گے۔
اقتدار میں آنے کے بعد ہر موقع پر آپ کو ٹرمپ کے گرد منڈلاتے چہروں میں کہیں نہ کہیں جارڈ کوشنر ضرور نظرآئے گا۔ اسے عامل اور معمول کی روایتی تشبیہ قراردیاجارہا ہے۔ یہ یہودی نوجوان جو اس وقت مسیحیوں کی قیادت کرنے والے صدر کا بغل بچہ بنا شہرت کی روشنیوں کے سیلاب میں گھرا ہے۔ ٹرمپ کی بیٹی ایوانیکا کا شوہر ہونا جارڈ کوشنر کے نصیب میں آیا۔ ارب پتی سسر امریکی صدر بن کر اس کے لیے سونے پہ سہاگے کا باعث بن گیا‘ اس کا امریکی صدر کا داماد ہونا‘ سیاست پر گہری نظر رکھنا اور تجزیاتی صلاحیت کے ذریعے درست نتائج اخذ کرنا اس کی بنیاد ہے۔ جارڈ کی صورت امریکی صدر کو اقرباپروری کے طعنے کا سامنا ہے لیکن اس کی شناخت کی بنیادی وجہ اس دلیل کو بنایا جاتا ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ میں طاقتور لوگ اسے اس مقام پر برقرار دیکھنا چاہتے ہیں۔
ٹرمپ کے بنیادی اتحادی مائک فلن، سٹیو بینن اور رینس پریبس(ان سب کو اسٹیبلشمنٹ ناپسند کرتی ہے)، ان میں ایک جارڈ کوشنر ہی باقی بچتا ہے جو براہ راست صدر سے وابستگی رکھتا ہے۔ اس کا اسٹیبلشمنٹ میں کردار بھی بے داغ رہا ہے۔ بارک اوباما کو کوئی امن معاہدہ کرانا نصیب نہ ہوا لیکن امن کا نوبل انعام اسے دے دیاگیا، کچھ ایسا ہی معاملہ جارڈ کوشنر کے ساتھ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ ایک عالمی جریدے نے حال ہی میں اسے دنیا کے سو بااثر ترین افراد میں شامل کیا ہے۔ اس کی شان بڑھانے والا کوئی اور نہیں بلکہ ۹۴سالہ ہنری کسنجر ہے، جس نے امریکی سیاست اور عالمی منظر نامہ پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔
کسنجر بتاتا ہے کہ وہ جارڈ کوشنر سے کوئی اٹھارہ ماہ قبل ملاتھا۔ خارجہ پالیسی سے متعلق لیکچر کے اختتام پر جو نوجوان مجھ سے ملنے آیا وہ جارڈ کوشنر ہی تھا۔ اس وقت ہمارے درمیان تبادلہ خیال ہوا، تجزیہ نگار کسنجر کے ان الفاظ کی تشریح کرتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ پالیسی کے پیچھے دراصل کسنجر کے الفاظ اور خیالات کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ہنری کسنجر نے جارڈ کشنر سے کیابات چیت کی ہوگی؟ کسنجر کی جانب سے جارڈ کشنر کی بے ترتیب اور متعدد ملاقاتوں کی کیا وجہ ہے؟ اس پر کسی کے دماغ میں خطرے کی گھنٹی نہیں بجی؟ کیا ٹرمپ ان ملاقاتوں اور ان میں ہونے والی گفتگو سے آگاہ ہے؟ہنری کسنجر کے شاطرانہ ماضی سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔ صدر نکسن کو کمبوڈیا اورلاؤس پر بم گرانے پر قائل کسنجر نے کیا۔ چلی کی منتخب حکومت کو گھر بھجواکر انتہائی ظالم فوجی آمر کو مسلط کرایا۔ اسی پس منظر میں یہ قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ کچھ ہونے والا ہے جس میں جارڈ کشنر ملوث ہے اور ہنری کسنجر بھی براہ راست یا بالواسطہ طورپر اس کا حصہ ہے۔ صدر ٹرمپ نے اب تک دو انتہائی اہم فیصلے کیے ہیں۔ تمام ممتاز تجزیہ نگاروں کے نزدیک ہر منطق اور فہم سے بالاتر ان فیصلوں میں سے پہلا مائیکل فلن کا قومی سلامتی مشیر کے عہدے سے تقرری کے محض چند ماہ بعد ہی برطرف ہونا ہے۔ وجہ اس کی وہ گفتگو قرار دی گئی جو ٹرمپ کے باضابطہ صدر کا منصب سنبھالنے سے ایک ماہ قبل سابق روسی سفیر سرگئی کسلیاک سے ہوئی۔ فلن کے بارے میں یہ کہاجارہا ہے کہ اس کا گناہ سابق اوباما انتظامیہ کے دور میں روا رکھے جانے والے نامناسب رویے سے روسی طیش کو کم کرنے کی کوشش تھی۔سابق ڈائریکٹر جنرل جیمز کومی کی برطرفی کی وجہ بھی ٹرمپ کے داماد اور سینئر مشیر جارڈ کوشنر بتائے جاتے ہیں۔ہیلری کلنٹن کی شکست کے بعد براک اباما کے لہجے میں اچانک تبدیلی آئی۔شروع میں انہوں نے انتخابی نتائج کو شفاف تسلیم کیا، لیکن بعد میں روس مخالف شدید لہر کے دوران کسی طرف سے کان میں پڑنے والی آواز پر ۲۹دسمبر کو اوباما نے ۳۵روسی سفارتکاروں کو امریکا سے نکال باہر کیا۔
روس کے خلاف اس مخالفانہ ماحول میں فلن نے روسی سفیر کسلیاک سے فون پر متعدد مرتبہ بات کی تھی۔فلن کو سزادے دی گئی لیکن یہ کسی کو یاد نہ رہا کہ روسی سفیر کسلیاک سے ٹرمپ ٹاور میں ہونے والی اولین ملاقات میں جارڈ کوشنر بھی موجود تھا۔ وائٹ ہاؤس نے نیویارک ٹائمز کو اس بارے میں بتایا تھا کہ یہ ملاقات ٹرمپ انتظامیہ کے کریملن کے ساتھ تعلقات میں رابطہ کی استواری کے مقصد کے حصول کے لیے تھی۔
ڈیمو کریٹک پارٹی میں چھپے بھیڑیے جب غرانے لگے تو ٹرمپ نے انہیں مطمئن کرنے کے لیے فلن کی قربانی دے دی، جس کی حیثیت ایک مہرہ سے زیادہ نہیں تھی۔ ٹرمپ کو اندازہ تھا کہ یہ بھیڑیے روس امریکا تعلقات کے درپے ہیں۔ کہاجاتا ہے کہ ٹرمپ اب فلن کو نکالنے پر پچھتارہا ہے۔ فلن کو ایف بی آئی سے جھوٹ بولنے کا مجرم قراردیاگیا ہے کہ اس کی روسی سفیر سرگئی کسلیاک سے گفتگونہیں ہوئی۔ جب اوباما انتظامیہ ہر وہ کوشش کررہی تھی کہ جس سے ٹرمپ کے آنے پر روس امریکا تعلقات بحال نہ رہ سکیں، ویسے بھی ٹرمپ اس وقت منتخب ہوچکے تھے، ایسے میں یہ وجہ اب تک راز ہے کہ آخر فلن کو کس حیثیت میں اور کس بنیادپر سوالات کے کٹہرے میں لاکھڑا کیاگیا۔ یہ جھوٹی خبر بھی نشر کر وائی گئی کہ ڈونلڈٹرمپ نے انتخابات کے دوران فلن کو روسیوں سے رابطوں کی ہدایت کی۔
جیمز کومی کو عہدہ سے برخاست کرنا دوسری پراسرار غلطی تھی۔ یہ کام اس وقت کیاگیا جب کومی روس سے رابطوں کے بارے میں معاملے کی تفتیش کررہا تھا۔ اس کا سیاسی طور پر کیا فائدہ تھا۔ اس بارے میں کسی کے پاس کوئی جواب نہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے وفادار سٹیو بینن نے چارلی روز کو انٹرویو میں جیمز کومی کو عہدہ سے فارغ کرنے کے ٹرمپ کے فیصلے کو جدید سیاسی تاریخ کی سب سے بڑی غلطی قرار دیا۔ اس بارے میں بھی انگلی جارڈ کوشنر کی طرف اٹھائی جارہی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ٹرمپ نے فلن اورکومی کی فراغت کے فیصلوں میں جارڈ کوشنر کے کردار کو مانا ہے۔ انہی فیصلوں کی وجہ سے رابرٹ ملر کے لیے راہ ہموار ہوئی جو اس وقت ۲۰۱۶ء میں امریکی انتخابات میں روسی مداخلت کے معاملے کی تحقیقات کی سربراہی کررہے ہیں۔ رابرٹ ملر جے ایدگر ہوور کے بعد سب سے طویل مدت تک ایف بی آئی کے سربراہ کے طورپر بھی جانے جاتے ہیں۔ جارج ڈبلیو بش نے دس سال کے لیے انہیں مقرر کیا جبکہ براک اباما نے انہیں مزید دو سال کی اس عہدہ پر توسیع دی۔
کوشنر کے بارے میں یہ تبصرہ بینن اور ٹرمپ کے درمیان مبینہ طورپر ہوا ہے۔ ایک اور گفتگو میں سیاسی تجزیہ کار راجرسٹون نے کوشنر کی جانب سے غلط سیاسی مشورے دینے کے بارے میں بتایا، جس سے ٹرمپ نے اتفاق کیا۔ ٹرمپ کی مہم میں شامل سیم بینن برگ نے بتایا کہ جدید تاریخ میں وائٹ ہاؤس میں سب سے بُرے سیاسی مشورے دینے والے کا نام جارڈ کوشنر ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی نمائندگی کرنے والے ہنری کسنجر جیسے لوگ اس سے ایسا کروا رہے ہیں۔ کئی دہائیاں قبل ہنری کسنجر صدر نکسن کے قومی سلامتی کے مشیر، پھر وزیر خارجہ رہے۔ انہوں نے ’شب ہفتہ قتل عام‘ کے نام سے مشہور واقعہ میں بڑا کردار ادا کیا تھا۔ صدر نکسن نے مشہور زمانہ واٹر گیٹ اسکینڈل کی تحقیقات پر مامور خصوصی پراسیکیوٹر آرچی بالڈ کوکس کو نکال باہر کیاتھا۔ یہ شخص واٹرگیٹ سکینڈل سے متعلق ٹیلی فون ریکارڈنگ حاصل کرنے کی کوشش کررہا تھا، اس غلط فیصلے کا نتیجہ یہ نکلا کہ نکسن کو استعفیٰ دے کر گھر جانا پڑا۔ سیاسی تجزیہ نگار یہی انجام ٹرمپ کا بھی قرار دے رہے ہیں کہ اگر روسی مداخلت کا معاملہ اور زیادہ اچھلا تو ٹرمپ بھی بچ نہ پائے گا۔ ہنری کسنجر کے دورہ وائٹ ہاؤس پر اے بی سی نیوز نے تبصرہ کیا کہ اعلیٰ تحقیقاتی افسر کو عہدہ سے ہٹانے کی سیاسی حماقت ہنری کسنجر کے اچانک دورہ وائٹ ہاؤس سے جڑی ہوئی ہے۔ ٹرمپ نے کہاکہ کسنجر سے ملاقات میں روس، شام اور بعض دیگر معاملات زیرغور آئے۔ اس نے کسنجر کو پرانا دوست قرار دیا۔ کسنجر سابق صدر نکسن کا قابل اعتماد آدمی تھا، جو ’شب ہفتہ قتل عام‘ کے واقعہ کے بعد بھی اس سے ملتارہا۔
سعودی عرب میں شہزادوں کی گرفتاریوں اور دیگر سرگرمیوں کے حوالے سے بھی جارڈ کوشنر کا نام آرہا ہے اور کہاجارہا ہے کہ وہ ہنری کسنجر کے جیوپولیٹیکل منصوبہ پر اولین اقدامات کررہا ہے۔ ۳؍دسمبر کو سعودی عرب سے لبنان کے وزیراعظم سعد الحریری کو فون گیا، مطالبہ کیاگیا کہ وہ ریاض کا دورہ کرے۔ وہ بلاتاخیر اپنے معمول کے عملے کو ساتھ لیے بغیر روانہ ہوگیا۔ اگلے روز اس نے انتہائی غیرمعمولی اقدام کرتے ہوئے سعودی دارالحکومت سے ٹیلی ویژن کے ذریعے اپنے استعفیٰ کا اعلان کردیا۔ مغربی میڈیا نے اس حقیقت کو چھپایا کہ حریری نے استعفیٰ غیر ملکی سرزمین سے دیا ہے۔ اس نے ایران پر الزامات لگائے اور اپنی جان خطرے میں ہونے کا بھی خدشہ ظاہرکیا۔ اسی شام سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے گیارہ شہزادوں، چارحکومتی شخصیات اور درجنوں کاروباری شخصیات کو گرفتارکرلیا۔ حوثیوں کا یمن سے چلایا جانے والا بیلسٹک میزائل سعودی عرب نے مارگرانے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔ ایرانی وزیرخارجہ نے جواب دیا کہ یہ چال لبنان اور خطے میں کشیدگی پھیلانے کے لیے چلی گئی ہے۔ ایرانی سپریم لیڈر کے مشیر حسین شیخ الاسلام کے مطابق صدر ٹرمپ اور ولی عہد محمد بن سلمان نے مل کر حریری کے استعفے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے اصل کردار جارڈ کوشنرکو بتایا۔
اکتوبر میں جارڈکوشنر نے سعودی عرب کا دورہ کیا۔ چار دن کے دورے کے دوران وہ اسرائیل، اردن اور مصر میں بھی رکا۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق صبح چار بجے تک جارڈ کوشنر اور شہزادہ محمد بن سلمان منصوبہ بندی میں مصروف رہے۔ دونوں شہزادوں نے کئی راتیں اس مقصد کو دی ہیں۔ سعودی عرب اور اسرائیل میں قدر مشترک ہونہیں سکتی، لیکن ایران کے معاملے پر دونوں متفق ہیں۔ جارڈ کوشنر کے بارے میں کہاگیا کہ اس نے سیاسی کوریج کی وجہ سے ٹائم وارنر کے ایگزیکٹو سے کہاکہ سی این این کے پانچ میں سے ایک ملازم کو نوکری سے فارغ کردیں۔جارڈ کوشنر اصل میں کس کے لیے کام کررہا ہے۔ وہ اپنے سسر کے لیے خدما ت انجام دے رہا ہے، لیکن دوسری جانب مستقبل کے ہنری کسنجر کے طورپر اس کی تربیت جاری ہے۔ کسنجر نے نکسن کی روانگی کے بعد جیرالڈ فورڈ کے لیے کام کیا تھا۔ یا پھر یہ کہا جائے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا داماد اور اعلیٰ مشیر کا آقا کوئی اور ہے، جس کے لیے وہ خدمات انجام دے رہا ہے۔
(بہ شکریہ معارف فیچر)
ٹرمپ کاداماد: نیالارنس آف عریبیا
previous post