تازہ بہ تازہ، سلسلہ 18
فضیل احمد ناصری
چاہیے اوج تو خود کو کبھی کامل نہ کہو
ذوق اونچا ہےتو منزل کو بھی منزل نہ کہو
حق کو مطلوب ہے آئینہ طبیعت ہونا
جو بھی کہنا ہے کہو، بر سرِ محفل نہ کہو
جبر کہتا ہے کہ ظالم کو دکھاؤ آنکھیں
وقت کہتا ہے کہ قاتل کو بھی قاتل نہ کہو
وہ جو مظلوم کی آہوں سے پگھلتا ہی نہیں
سل ہے پتھر کی، عزیزو اسے تم دل نہ کہو
عاشقو! عشق کی حرمت کا بھرم رکھ لینا
ذاتِ لیلیٰ نہ ہو جسمیں،اسےمحمل نہ کہو
عقل و دانش پہ قیامت ہی گزر جائے گی
ہم غلامی کے ہیں مارے، ہمیں عاقل نہ کہو
وہ جو کفار کی تقلید میں جاں دیتے ہیں
انہیں بزدل ہی پکارو! انہیں بسمل نہ کہو
سر بکف ہو تو زمانہ تمہیں عزت دےگا
شرط یہ ہے کہ کسی کام کو مشکل نہ کہو
اور ہی شے ہے سمندر کا کنارہ یارو!
ڈوب جائےجہاں انساں، اسےساحل نہ کہو