فیصل فاروق
مہاراشٹر میں راتوں رات دیویندر فرنویس کی حلف برداری اور ڈرامائی انداز میں حکومت سازی کے خلاف داخل کی گئی عرضی پر سپریم کورٹ نے گزشتہ دنوں تاریخی فیصلہ سنایا۔ کورٹ نے مہاراشٹر میں نہ صرف اراکین اسمبلی کی خرید و فروخت کا اندیشہ ظاہر کیا بلکہ جمہوری قدروں کے تحفظ کی وکالت کی اور عام شہری کے اُس حق کو تسلیم کیا کہ اُسے اچھی اور بہتر حکومت فراہم کی جاۓ۔ سپریم کورٹ نے منگل کو جیسے ہی کہا کہ بدھ کی شام ۵/بجے تک دیویندر فرنویس کو اکثریت ثابت کرنی ہوگی، تو اُن کے پیروں تلے زمین کھسک گئی۔ فیصلے کے کچھ ہی دیر بعد پہلے نائب وزیراعلیٰ اجیت پوار نے استعفیٰ دیا۔ اُس کے بعد یہ کہتے ہوئے کہ اُن کے پاس اکثریت نہیں ہے، فرنویس کو بھی استعفیٰ دینا پڑا۔
بی جے پی نے اجیت پوار کے بھروسے ہی مہاراشٹر میں حکومت بنانے کا قدم اٹھایا تھا اور اُسے پوری اُمید تھی کہ اجیت پوار اپنے ساتھ این سی پی کے کچھ اراکین اسمبلی کو توڑ کر لائیں گے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ بی جے پی آخر تک اقتدار اور ای ڈی، سی بی آئی جیسی ایجنسیوں کی طاقت پر منحصر رہی۔ صدر جمہوریہ اور مہاراشٹر کے گورنر تک کا ’استعمال‘ کیا گیا اور راتوں رات ’غیر مماثل شادی‘ کرا دی گئی۔ اتنا ہی نہیں صبح صبح گھر کے بڑوں، وزیراعظم اور وزیر داخلہ نے ٹویٹر کے ذریعہ سے اپنا ’آشیرواد‘ بھی دے دیا تھا۔
مہاراشٹر میں شیوسینا، بی جے پی کے مابین وزیراعلیٰ کا عہدہ تنازعہ کا باعث رہا۔ اِسی تنازعہ کو لے کر مہاراشٹر میں سیاست کا ’ ہائی وولٹیج مہا ڈرامہ‘ چلا۔ واضح رہے کہ مہاراشٹر کی ۲۸۸/اسمبلی نشستوں کیلئے ۲۱/اکتوبر کو انتخابات ہوئے تھے۔ نتائج کا اعلان ۲۴/اکتوبر کو کیا گیا تھا۔ ریاست میں حکومت بنانے کیلئے کسی پارٹی یا متحدہ محاذ ’مہا وکاس اگھاڑی‘ کا دعویٰ نہ پیش کرنے کے سبب ۱۲/نومبر کو صدر راج نافذ کر دیا گیا تھا۔ شیوسینا اور بی جے پی نے ساتھ مل کر یہ الیکشن لڑا تھا لیکن جب شیوسینا نے وزیراعلیٰ کے عہدے کا مطالبہ کیا تو بی جے پی کے ساتھ شیوسینا کا ۳۰/سالہ قدیم اتحاد ختم ہو گیا اور اِس طرح مہاراشٹر میں سیاسی بحران پیدا ہوا۔
مزے کی بات یہ رہی کہ لوگوں نے صبح اخبار میں پڑھا تو اُدھو ٹھاکرے وزیراعلیٰ تھے اور جب ٹیلیویژن دیکھا تو پتہ چلا کہ کوئی اور وزیراعلیٰ بن چکا ہے۔ لوگ نیند کی آغوش میں تھے اور تختہ پلٹ دیا گیا۔ مہاراشٹر میں ایسا سیاسی ڈرامہ پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔ پہلے کبھی اِس طرح طاقت کے بنیاد پر جمہوریت کا مذاق نہیں بنایا گیا تھا۔ کانگریس کے سینئر لیڈر احمد پٹیل جنہوں نے کانگریس، این سی پی اور شیوسینا میں اتحاد کیلئے گفت و شنید میں مرکزی کردار ادا کیا تھا، نے اِس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’اُنہوں (بی جے پی) نے غیر قانونی طریقہ سے اقتدار حاصل کرنے کیلئے جس طرح ہمارے آئین اور اعلیٰ عہدوں کو نقصان پہنچایا ہے، اُس کی تلافی کیلئے دہائیاں درکار ہوں گی۔‘‘
ہر شہری کو آئین کی پاسداری کرنی چاہئے خاص طور پر آئینی عہدوں پر فائز افراد کو۔ میڈیا نے بھلے ہی گورنر بھگت سنگھ کوشیاری کی غیر آئینی اور غیر جمہوری حرکت کو ’کوشیاری کی ہوشیاری‘ کہا ہو لیکن حقیقت میں یہ گورنر موصوف کی ’ذہانت‘ کا کمال نہیں تھا بلکہ اُس ’ذہنیت‘ کا نتیجہ تھا جو اُنہیں ’شاکھا‘ سے حاصل ہوئی ہے۔ آدھی رات کو آئین کی روح کے منافی فیصلہ کرتے ہوئے موصوف کو یہ بھی یاد نہیں رہا کہ اِس وقت وہ ’پرچارک‘ یا ’شاکھا پَرمُکھ‘ نہیں ہیں بلکہ ملک کی ایک اہم ریاست کے پُروقار عہدے پر فائز ہیں۔ اپنی غلطی مان کر کوشیاری جی کو کچھ اخلاقیات کا مظاہرہ کرتے ہوئے استعفیٰ دے دینا چاہئے۔
مہاراشٹر میں حکومت بنانے کیلئے تمام تر حربوں کا سہارا لینے کے بعد بھی بی جے پی کو منہ کی کھانی پڑی۔ اِس سے پہلے ہریانہ میں بی جے پی زور شور سے ریاست کی ٩٠/میں سے ۷۵/سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے کا دعویٰ کر رہی تھی لیکن اُسے ۴٠/سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا اور نئی نئی وجود میں آئی دشینت چوٹالہ کی جَن نایک جنتا پارٹی کے ساتھ اتحاد کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ کانگریس سے پاک ہندوستان کا نعرہ بلند کرنے والی بی جے پی خود ہندوستان کے نقشہ سے اپنے خاتمے کی جانب بڑھ رہی ہے۔ اگرچہ بی جے پی کی حکومت ابھی بھی ۱۷/ریاستوں میں ہے مگر رقبہ کے لحاظ سے بڑی اور خصوصی ریاستیں ہاتھ سے نکل چکی ہیں۔
امیت شاہ کی قیادت میں بی جے پی کے سامنے یہ پہلا موقع ہے جب وہ اتنی نشستیں جیتنے کے بعد بھی اقتدار سے باہر ہوگئی۔ امیت شاہ اب اِس خوش فہمی سے باہر نکلیں کہ اُنہیں کوئی ہرا نہیں سکتا، وہ ناقابلِ شکست ہیں۔ مہاراشٹر سے قبل بی جے پی گوا اور ہریانہ جیسی ریاستوں میں اکثریت سے دور ہونے کے باوجود حکومت بنانے میں کامیاب رہی تھی۔ کرناٹک میں بی جے پی نے حکومت بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی لیکن مہاراشٹر میں شرد پوار کی سیاسی پختگی نے اُس کی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا۔ مہاراشٹر میں شہ اور مات کے کھیل میں شرد پوار نے ثابت کر دیا کہ وہ مہاراشٹر کی سیاست کے مردِ آہن ہیں۔
بہرحال، مہاراشٹر میں جو کچھ بھی ہوا اُس سے بی جے پی کی شبیہ کو نقصان ہوا ہے بلکہ اُس کی وجہ سے پارٹی کے وقار اور وزیراعظم کی شبیہ کو بھی زبردست دھکا لگا ہے۔ اِس سیاسی اُٹھا پٹخ میں شیوسینا سب سے زیادہ فائدے میں رہی اور بی جے پی نقصان میں۔ کل تک شیوسینا کو نائب وزیراعلیٰ کا عہدہ نہیں مل رہا تھا لیکن اب وزارت اعلیٰ کی کرسی مل گئی جبکہ اُس کے ارکان اسمبلی کی تعداد این سی پی کے ارکان اسمبلی سے کچھ ہی زیادہ ہے۔ مہاراشٹر میں بی جے پی کی اِس ذلت آمیز شکست سے دیویندر فرنویس پر مرزا صادق شرر دہلوی کا یہ شعر صادق آتا ہے:
نہ خدا ہی مِلا نہ وصالِ صَنم
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے!
previous post