Home تجزیہ نفرت کا گجرات ماڈل

نفرت کا گجرات ماڈل

by قندیل

عبدالعزیز
مسٹر پرنب بردھان جو کیلیفورنیا کے شعبۂ معاشیات کے پروفیسر ہیں اور سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے دیرینہ دوست ہیں، ان کی خصوصیت یہ رہی ہے کہ منموہن سنگھ کے وزیر اعظم ہونے کے زمانے میں بھی ہندستان میں معاشی صورت حال پر کھل کر نکتہ چینی کرتے تھے کہ کیا خامیاں ہیں۔ دوستی کا ذرا بھی خیال نہیں کرتے تھے۔ موصوف نے 22جنوری 2018ء کو مشہور انگریزی روزنامہ ’دی ٹیلیگراف‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے آج کے ہندستان کی معاشی صورت حال کو ابتر اور زوال پذیر بتاتے ہوئے کہاہے کہ معاشی ترقی کے لحاظ سے نام نہاد گجرات ماڈل کا جوبڑا چرچا تھا نریندر مودی کے ہندستان کے وزیر اعظم ہونے کے بعد اس نے تو ملک کے کسی حصہ میں کام نہیں کیا اور نہ اس کا کوئی ملک کے کسی کونے میں اثر پڑا لیکن گجرات ماڈل کے تحت ہندو اور مسلمانوں کے مابین جو نفرت اور کدورت کا پرچار ہورہا تھا جس کے نتیجہ میں گجرات میں ایک خاص اقلیت مظلومیت کا شکار ہوگئی وہ گجرات ماڈل عدم تحمل اور نفرت کا پورے ملک کے کونے کونے میں آج دکھائی دے رہا ہے۔
مسٹر پردھان نے کہاکہ یہ کام سنگھ پریوار اور ان کے چٹے بٹوں کے ذریعہ ہوا جسے پولس اور فیتہ شاہی (بیورو کریٹس) نے دل کھول کر تعاون دیا اور مدد پہنچائی۔ ساتھ ہی ملک کے وزیر اعظم کی مخصوص معاملات میں خاموشی (Selective Silence) نے اسے مزید بڑھاوا دیا۔ سنگھ پریوار کے شریر اور فسادی عناصر اس خاموشی کا مطلب اچھی طرح جانتے ہیں اور اسے عملی جامہ پہنانے سے کسی موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ دلتوں اور مسلم اقلیت کو نظر میں رکھ کر سنگھ پرچارک نریندر مودی ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ کا نعرہ بلندہ کرتے ہیں۔ سنگھ پریوار کے سپاہی اس کا بھی مطلب خوب سمجھتے ہیں اور سب کو ٹکڑے ٹکڑے میں بانٹ دینے پر عمل کرتے ہیں۔ انتخابات کے موقع پر جب معاملہ نازک ہوتا ہے تو وزیر اعظم نفرت اور کدورت کا پرچار کرتے ہیں۔ جیسے اتر پردیش اور گجرات میں کیا۔ مسٹر بردھان نے ملک کی معاشی صورت حال پر بھی بہت کچھ کہا جس سے نریندرمودی کی ناکامی کی تصویر کشی ہوتی ہے۔اس سے دنیا کومعلوم ہوتا ہے کہ مودی نفرت کے پرچارک ہیں اور دنیا بھر میں اپنی ہٹلر شاہی شخصیت کا لوہا منوانے کیلئے معاشی یا اقتصادی ترقی کی بات کرتے ہیں۔ ملک کے باہر جاکربھی اپنے میاں مٹھو بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ دنیا کو باورکرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ جب سے موصوف آئے ہندستان کا مقام و مرتبہ دنیا میں بڑھا ہے؛ حالانکہ انسانی حقوق کی دنیا بھر میں جو تنظیمیں کام کر رہی ہیں حقوقِ انسانی کے لحاظ سے سب نے کہا ہے کہ ہندستان میں انسانی حقوق کی پامالی مودی راج میں بہت بڑھی ہے۔
نفرت کا جواب: آج نفرت اور زہر پھیلانے والوں کا کوئی جواب ہوسکتا ہے تو مسلمانوں کی طرف سے محبت کا جواب دیا جائے اور سنگھ پریوار نے جو نفرت کی دیوار ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کھڑی کی ہے وہ محبت، اخوت اور بھائی چارہ کے مضبوط ہتھوڑے سے منہدم کرنے کی کوشش کی جائے۔غیر سرکاری تنظیموں کے ذریعہ جہاں بھی خاص طور سے فساد زدہ علاقوں میں کاروانِ محبت یا امن و انسانیت کا جلوس نکالا جاتا ہے اس کا اچھا خاصہ اثر ہوتا ہے۔ہر مندر اور جون دیال جیسے حقوق انسانی کے کارکنوں پر مشتمل مغربی بنگال میں کاروانِ محبت نکالا گیا جس سے مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان اچھا اثر پڑا۔ اس طرح کا کام ملک کے ہر حصہ میں ہو۔ خاص طور سے جہاں فرقہ وارانہ فسادات برپا ہوئے ہیں وہاں ضروری ہیں کہ کاروان محبت نکالا جائے اور ایسی امن و انسانیت کی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جس میں دونوں فرقوں کے لوگ ہوں ۔ کمیٹیوں کے ذریعہ پولس انتظامیہ کے ساتھ بھی وقتاً فوقتاً میٹنگیں ہوں تاکہ پولس انتظامیہ سے رابطہ رہے اور فسادی فساد کی آگ لگانے میں کامیاب نہ ہوں۔ اگر کہیں فرقہ وارانہ جھڑپ ہوجائے تو پولس کی مدد سے اسے فوراً روکنے کی کوشش کی جائے تاکہ فرقہ پرستی کے شعلے مزید بھڑکنے نہ پائیں۔ کوشش یہ بھی کی جائے کہ جو فرقہ پرستی کی آگ عملاً یا قولاً لگانے کی کوشش میں رات دن مصروف ہیں ان پر امن پسندوں کی نظر ہو۔ ان سے مل کر بات چیت ہو جب وہ اپنی عادت و حرکت سے باز نہ آئیں تو قانونی چارہ جوئی بہت ضروری ہے۔
مغربی بنگال میں ایک صاحب تپن گھوش ہیں جو پچیس سال تک آر ایس ایس کے ہمہ وقتی پرچارک رہے۔ ان کے بیان کے مطابق آر ایس ایس کو جب انھوں نے دیکھا کہ بہت زیادہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہے تو وہ آر ایس ایس سے نکل آئے اور ایک عدد تنظیم ’’ہندو سمہتی‘‘ کے نام سے قائم کی۔ ہندو سمہتی ان علاقوں میں سرگرم عمل ہے جہاں یوپی اور بہار کے لوگ بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ تپن گھوش ہندی بیلٹ کے کئی علاقوں میں فساد کرانے میں کامیاب ہوئے۔ ایسا اندازہ ہوتا ہے کہ پولس میں بھی ان کے لوگ ہیں جو ان کے خرافاتی مقاصد کو بروئے کار لانے میں مدد کرتے ہیں۔ ملی اتحاد پریشد مغربی بنگال کے جنرل سکریٹری نے تپن گھوش سے رابطہ قائم کیا اور ان کے ساتھ ایک بیٹھک کی۔ ان کو ان کی سرگرمیوں کے انجام بد سے آگاہ کیا، ساتھ ہی پولس فورس کے افسروں سے ملاقات کی گئی جس کا اچھا نتیجہ برآمد ہوا۔
فسادیوں پر پولس کو نظر رکھنا چاہئے مگر پولس میں بھی فرقہ پرست عناصر ہیں جو فسادیوں کے کام آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے جو فسادیوں کی کامیابی میں ہاتھ بٹاتا ہے۔ ان پر قانونی کارروائی نہیں ہوتی اور نہ حکومت ان کا مواخذہ کرتی ہے جس کی وجہ سے یہ فسادیوں یا بلوائیوں کے بھائی بنے رہتے ہیں۔ بہت سے ایسے ہیں جو فسادی تنظیموں سے معاوضہ لیتے ہیں۔ ان سب پر اگر امن پسند عوام و خواص کی نظر ہو تو فسادیوں کو اپنے مقصد میں بہت زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔ ان سماجی کاموں کے علاوہ عوام و خواص میں جو لوگ بے لوث کام کرتے ہیں انھیں سیاسی میدان کو چھوڑنا نہیں چاہئے۔ اگر وہ انتخابی سیاست نہ کریں پھر بھی سیاسی میدان میں فتنہ و فساد پھیلانے والوں کی سرکوبی کیلئے سرگرم عمل رہیں اس لئے کہ سیاست کے ذریعہ جس قدر ذہنوں کو بگاڑا جاتا ہے کسی اور شعبہ کے ذریعہ نہیں بگاڑا جاسکتاہے۔
اگر نریندر مودی یا ان کی پارٹی برسر اقتدار نہیں ہوتی تو آج جو پورے ملک میں طوفان برپا ہے اور یوگی جیسے لوگ راج کر رہے ہیں جن کے خلاف کئی کئی کریمنل مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں ملک میں ایسی صورت حال نہ ہوتی۔ سیاسی اور مذہبی شرپسندوں کی موجودگی میں خاموش رہنا یا ان کی سرکوبی کیلئے حرکت میں نہ آنا نہ صرف دوسروں پر ظلم ہے بلکہ اپنے آپ پر، ملک پر اور انسانیت پر بھی ظلم و جبر ہے، جسے تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔
: 9831439068 [email protected]

You may also like

Leave a Comment