Home نظم میں عورت ہوں بدلہ لوں گی

میں عورت ہوں بدلہ لوں گی

by قندیل


ابوبکرعباد
میں سیتا میں مریم ہوں
درگا ہوں میں کالی ماں ہوں
جھانسی کی میں رانی ہوں
دیوکی ہوں یشودھا ہوں میں
حضرت محل اور لیلیٰ خالد
ذینب اورہولیکا ہوں
جتنے پیر پیمبر ہیں
سادھو سنت جیالے ہیں
رام رحیم اور عیسیٰ بھی
نانک چشتی خسرو سب
میرے ہی تو بیٹے ہیں
میں نے ان کو جنم دیا ہے
اپنے خون سے سینچا ہے
تم بھی میرے بیٹے ہو
میری بیٹی کے بھائی ہو
ہم سب کی رکھشا کرنے کی
لاکھوں قسمیں کھاتے ہو
پر شرم کرو ، ارے ڈوب مرو
مجھ کو رسوا کرنے اور
میری انا کچلنے کو
میری اور بیٹی کے میرے
یعنی اپنی ماں بہنوں کے
انگ انگ چباتے ہو
جیسے کتے مَری بھیڑ کو
جیسے گدھ مردار کو نوچیں
جیسے کہ زہریلا سانپ
اپنے ہی بچوں کو کھالے
ایسے ہی تم کرتے ہو
میرے جسم اورروح کے ساتھ
شرمندہ میں تب بھی ہوئی تھی
مجھ سے جنے کچھ بچے میرے
دولت اور جسموں کی ہوس میں
کنس بنا تھا،
راون اور شداد بنے تھے
ہٹلر اور فرعون بنے تھے
اب بھی میں شرمندہ ہوں
یوں کہ تم ان ہی کے پجاری
ان کی ہی اولاد ہوتم
جیسے کہ زہریلا سانب
جیسے کوئی مریل کتا
جیسے کوئی بوڑھا گدھ
بالکل ویسے ہی ہوتم
جب بھی میں کمزور ہوئی ہوں
بیٹی جب معصوم ہومیری
سو سو گھات لگاتے ہو
دین دھرم کے نام پہ اپنے
زندہ جسم چباتے ہو
پر یاد رکھو، یہ لکھ لو اب
نہیں بچوگے !
نہ تم نہ ہی نسل تری
چن چن کر میں بدلہ لوں گی
میں یا پھر میری کوئی بیٹی
تجھ سے یا پھر ونش سے تیرے
اپنا بدلہ ، ماں کا بدلہ
انّاؤ کی بیٹی کا
آصفہ اور نربھیا کابدلہ
مندر میں لٹنے والی کا
محلوں میں مرنے والی کا
کھیتوں میں جلنے والی کا
سب کا بدلہ
نہیں بچوگے
چاہے جتنا زور لگا لو
یوں کہ میں بھی عورت ہوں
میری بیٹی بھی عورت ہے

You may also like

Leave a Comment