محمدساجداعظمی
ایک طرف جہاں پورے ملک کا مسلمان "تین طلاق” کے مسئلے پر ذہنی تناؤ کا شکار ہے وہیں دوسری طرف مسلمانوں کو مزید پریشان کرنے، علماء سے اعتماد ختم کرنے، لوگوں کے دلوں میں علماء کی عداوت پیدا کرنے کے لئے روزآنہ میڈیا پر کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑا جا رہا ہے مثلا کبھی چست برقعہ کے فتوی کو اچھال کر کبھی غیر اسلامی لباس کے فتوی کو چھیڑ کر اور کبھی بینک میں کام کرنے کے سے متعلق فتوی کو ہوا دے کر مسلمانوں کے دلوں میں اضطراب و بے چینی کی کیفیت پیدا کی جا رہی ہے اب اسے میڈیائی دہشت گردی نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے، کیونکہ اگر میڈیا اپنے اس عمل میں مخلص ہوتی تو وہ اس پر تبصرہ کرنے یا ڈبیٹ کروانے سے قبل اسلامی اسکالرس سے معلومات حاصل کرتی کہ آخر کیا وجہ ہے کہ آپ لوگ چست اور ٹائٹ برقعہ اور کپڑا پہننے سے منع کرتے ہیں؟ کیا وجہ ہیکہ ہندوانہ کپڑے پہننے سے منع کرتے ہیں چاہے وہ یوپی کی 15 سالہ بچی عالیہ ہو یا کوئی اور؟ اور کیا وجہ ہیکہ آپ لوگ بینک کی نوکری کو غیر اسلامی بتاتے ہیں؟
لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا سوائے اس کے کہ ایک عالم کو چند جہلاء کے مابین بیٹھا کر ڈبیٹ کروایا، اور ٹی وی کا ڈبیٹ اللہ کی پناہ کوئی کسی کی بات سننے کے لئے تیار ہی نہیں یہاں تک کہ خود نیوز اینکر بھی پہلے ہی سے اپنے دماغ میں منفی خیالات لے کر بیٹھتا ہے اب اسے میڈیائی دہشت گردی نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے..
اور یہ بات بھی معلوم ہونا چاہئے کہ یہ مسائل آج نہیں بنائے گئے ہیں یہ مسائل پہلے ہی سے کتابوں میں موجود ہیں. لیکن آج سے پہلے ان مسائل کو کبھی نہیں چھیڑا گیا موجودہ صورت حال میں ان مسائل کو ٹارگیٹ بنانے کا کیا مقصد ہو سکتا ہے؟؟؟
میڈیا کا مقصد صرف یہ ہیکہ مسلمان عورتوں کو علماء کے تئیں بد ظن بنایا جائے اور یہ باور کرایا جائے کہ تمہارے علماء اور اکابر تمہارے خیر خواہ نہیں بلکہ بی جے پی گورنمنٹ تمہاری خیر خواہ ہے جو تمہارے حقوق کی لڑائی تن تنہا لڑ رہی ہے جبکہ ایک باشعور مسلمان بی جے پی کے عزائم سے بخوبی واقف ہے اب اسے میڈیائی دہشت گردی نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے.
اور میڈیا ان مسائل کو لوگوں کے سامنے اس انداز میں پیش کررہا ہے جیسے دارالعلوم دیوبند نے آج ہی ان مسئل کی تخریج کی ہے. جبکہ معاملہ اس کے برعکس ہے.
اور بے چاری سیدھی سادی عوام یہ سمجھتی ہیکہ مدارس خود سے لوگوں پر فتوے صادر کرتے ہیں جسکی وجہ سے لوگ علماء کو برا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ آخر ان کو کیا ضرورت تھی کسی کے خلاف فتوی دینے کی؟ لہذا یہ بتانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ دارالعلوم دیوبند اور اس جیسے ہمارے دیگر ادارے خود سے کسی پر فتوی صادر نہیں کرتے تا آنکہ اس در پیش مسئلہ کو بطور استفتاء دارالافتا میں نہ بھیجا جائے، ہمارے ادارے تو محض بھیجے گئے سوالات کے تحریری شکل (Witten form) میں جوابات دیتے ہیں قطع نظر کہ کس شخصیت سے متعلق سوال پوچھا گیا ہے اور ہمارے اداروں کا کام مسئلہ بتانا ہے نہ کہ زبردستی اس پر عمل کروانہ، اب جسکا جی چاہے اس پر عمل کرے جسکا جی چاہے نہ کرے اسکا حساب اللہ کے یہاں ہوگاـ
لکم دینکم و لی دین
میڈیائی دہشت گردی
previous post