Home تراجم میرے احساس پہ گزری ہے قیامت کیاکیا!!

میرے احساس پہ گزری ہے قیامت کیاکیا!!

by قندیل

تحریر: سائرہ مجتبی
ترجمانی: نایاب حسن
زندگی میں کئی مواقع ایسےآتےہیں،جب انسان اپنے جذبات کے اظہارکےلیے مناسب الفاظ نہیں پاتا،وہ خودکو عاجزاوربے زبان محسوس کرنے لگتاہے،اناؤاورکٹھواکی دولڑکیوں کی آبروریزی کے حادثے سے بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح میری بھی بالکل یہی ہی کیفیت ہے،بالکل سُن، حواس باختہ اور شدیدگھبراہٹ سے دوچارہوں ـ حالاں کہ ٹی وی سکرینزپران متاثرہ لڑکیوں کے نام مسلسل دکھائے جارہے ہیں؛ لیکن میں ان کےنام نہیں لے سکتی، البتہ یہ بتاناضروری ہے کہ وہ بچی ایک اقلیتی طبقے سے تعلق رکھتی تھی اورموجودہ وقت میں ہماری روزمرہ کی زندگی میں جس نفرت اور خباثت کو پھیلایاجارہاہے اور”دوسروں ” سے نفرت کرنے کازہرجس شدت کے ساتھ ہماری زندگیوں میں گھولاجارہا (جس میں الیکٹرانک میڈیاکے پرائم ٹائم پرچلنے والی فرقہ وارانہ سٹوریزکابھی اہم رول ہے) اس کااُس معصوم بچی کے اس لرزہ خیزانجام میں راست کردارتھاـ
اس چھوٹی سی بچی کابکروال نامی بدوی قبیلے سے تعلق تھا، جوسب کاسب مسلمانوں پرمشتمل ہے اوراب بھی بنیادی طورپربکریاں اوردیگرجانور چراکر اپنی گزربسرکاانتظام کرتاہے ـ
ماضی میں کئی باران لوگوں نے ہندوستانی فوج کو سرحد پر گھس پیٹھ کی خبریں بھی فراہم کی ہیں، مگراس کے باوجودان انسان نما جانوروں نے صرف اس وجہ سے اس معصوم بچی کے ساتھ حددرجہ وحشیانہ حرکت کی کہ وہ ایک اقلیتی فرقے سے تعلق رکھتی تھی،آٹھ سال کی معصوم بچی کو نشہ آوردوائیاں دی گئیں، اسے بری طرح ٹارچرکیاگیا اوراس کی اجتماعی آبروریزی کی گئی، بعض رپورٹس کے مطابق اس کے ساتھ یہ سب ایک مندرمیں، مورتی کے سامنے کیاگیا، یہ حقیقت میرے لیے نہایت ہی تشویش ناک ہے؛ کیوں کہ اس عمل کے پیچھے کیاسوچ کارفرماتھی، اس کی نشان دہی ہوتی ہے،ہرقسم کے ظلم وزیادتی اورتحقیروتذلیل کے مستحق "دوسرے "کو”بھگوان "کے سامنے شکاربنانا ان بے شرموں کے لیے گویا کوئی "پونیہ "کاکام تھا، جس سے ان کے معبودوں کوخوشی ہوئی ہوگی ـ اب تک تومیں عصمت دری کرنے والوں اورمتاثرہ خواتین کے تعلق سے یہ سوچتی تھی کہ اس میں مذہب کاکوئی کردارنہیں ہوتا، مگرخاص اِس کیس میں میں یہ ماننے؛ بلکہ یقین کرنے پرمجبورہوں کہ اُس معصوم بچی کے ساتھ جس درندگی کامظاہرہ کیاگیا، وہ اس کے مذہب کی وجہ سے ہی تھاـ
اِس وقت ملک بھرمیں اس واقعے کے خلاف احتجاجات کی گونج سنائی دے رہی ہے، ہر طبقے کے شہری اس بچی کے لیے انصاف کامطالبہ کررہے ہیں، اگرچہ لوگوں میں مجرموں کے خلاف سخت ہیجان پایاجارہاہے؛ لیکن بہرحال ہرشخص ملکی دستورکے مطابق ہی انصاف کامطالبہ کرسکتاہے، ان مجرموں کوپتھرمارمارکر سنگسارکیے جانے یاسرِ عام پھانسی دیے جانے کے بھی مطالبے ہورہے ہیں، مگرہمارے ملک میں اس کی کوئی گنجایش نہیں ہے، ہاں، البتہ ہم میں سے ہرایک کوچاہیے کہ وہ ان مجرموں کے لیے سزاے موت کامطالبہ کرے، حالاں کہ جس طرح اُس معصوم بچی کی اجتماعی آبروریزی کی گئی، پھرپتھرسے اس کے سر کو کچلاگیا، اس کے پیشِ نظرتوکوئی بھی یہی مطالبہ کرے گاکہ ان مجرموں کوبھی سرِ عام پھانسی پرلٹکایاجائے، مگرہمیں ساتھ ہی یہ بھی ذہن نشیں رکھناہوگا کہ مشکل مواقع پر عام حالات سے زیادہ ذمے داری، سنجیدگی اورحساسیت کی ضرورت ہوتی ہے اوراگرہرشخص اپنے غصے کواپنی خواہش کے مطابق عملی جامہ پہنانے لگے، توپھرساری روئے زمین انسانی خون سے لالہ زارہوجائے گی ـ

You may also like

Leave a Comment