محمد اللہ قیصر
بات چاہے بے سلیقہ ہو کلیم
بات کرنے کا سلیقہ چاہئے
اگر بات کرنے والاسلیقہ مند ہو، تو بے سلیقہ بات بھی پر اثر ہو جاتی ہے،اس کے برعکس اچھی سے اچھی بات بھی اگر بے ڈھنگے طریقے اور مہذب گفتگو کے دائرے سے نکل کر کی جائے تووہ اپنا اثر کھو دیتی ہے،
مولانا مودودی رحمۃاللہ علیہ کے تعلق سے ہمارے اکثر فضلا اپنا آپا کھو دیتے ہیں، ان کو مطلق گمراہ سمجھ کر ایسے گفتگو کی جاتی ہے ،جیسے وہ دائرۂ اسلام سے یکسر خارج ہو چکے ہوں، وہ یہ سمجھ کر گفتگو کرتے ہیں کہ ایک مسلمان اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک وہ مولانا مودودی رحمہ اللہ پر گمراہی کا فتویٰ نہ لگادے یا کم ازکم گستاخی بھرے سخیف الفاظ کا استعمال نہ کرے،اگر کوئی ایسا نہیں کر تا،تو جماعت کا گمراہ ایجینٹ قرار دیکر اس کی گمراہی کا اعلان کرنے میں لمحہ بھر صبر نہیں کرتےـ افسوس یہ ہے کہ مولانا مودودی رحمہ اللہ سے اختلاف کی نوعیت عمومی طور پر علمی اختلاف کی ہے، علمی اختلاف کے جواب کا طرز بھی علمی ہونا چاہئے، ہم ہر چیز میں اپنے اکابر کا نام لیتے نہیں تھکتے؛ لیکن ان امور میں ان حضرات کا کیا طریقہ تھا اس پر غور کرنے کی شدید ضرورت ہے،
حضرت مولانا منظور نعمانی،مولانا علی میاں ندوی اورحضرت شیخ الحدیث رحمہم اللہ کی تحریر پڑھئے اور بار بار پڑھئے، اپنے ہزار اختلاف کے باوجود ان حضرات نے جن کے متعلق ہم دعویٰ کرتے نہیں تھکتے کہ یہ ہمارے قدوہ ہیں، اپنی پوری تحریر میں کہیں بھی ایک بھی گستاخی کا لفظ استعمال نہیں کیا،ہر جگہ مولانا مودودی رحمہ اللہ کے علمی مقام کا پورا خیال رکھا،سب سے پہلے حضرت شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ سے فرمایا کہ مولانا مودودی کی کتابوں کا مطالعہ کر کے ان کی علمی گرفت کریں، حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ نے جہاں ان کی گرفت کی وہیں مولانا مودودی رحمہ اللہ کی تحریروں سے ہونے والے فائدے کا بھی ذکر فرمایا ،اسے کہتے ہیں علمی دیانت داری، مولانا تقی عثمانی صاحب نے بھی ان کی علمی لغزشوں پر گرفت کی اور ایسی گرفت کی کہ پوری جماعت اسلامی پر اس کا جواب اب تک قرض ہے ، لیکن انداز ایسا کہ دشمن بھی بسمل ہو جائے، تقریبا تمام حضرات نے یہ تسلیم کیا ہے کہ نئے موضوعات کو نئے انداز میں پیش کرنے میں مولانا کا قد اتنا بلند ہے کہ شاید و باید ہی کوئی اس بلندی تک پہنچ پایا ہے، دوسری بات جو ان کا امتیاز سمجھی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ مولانا اسلامی افکار کو اتنے پر اعتماد طریقے سے پیش کرتے ہیں کہ قاری کی اپنی ذاتی فکر متزلزل ہونے کے ساتھ اس کے دل میں متعلقہ اسلامی فکر تقریبا گھر کر لیتی ہے، اسی طرح ان کی ہر تحریر اسلامی غیرت کی غماز ہوتی ہے وہ اسلام کا کوئی حکم بیان کرتے وقت ذرا بھی لچک دکھانے کے قائل نہیں،
مولانا نے ڈارونزم، کمیونزم ، استشراق ، انکار حدیث ، قادیانیت ، نیچریت ، الحاد کی ایک ساتھ خبر لیتے ہوئےاسلام کو معاشی ، سیاسی ، دفاعی ، اقدامی ، عقیدہ اخروی ،روحانی اور سماجی طور پر ایک مکمل نظام حیات ثابت کرتے ہوئے مغرب زدہ ذہنوں، ملحدین ، مستشرقین کی دھجیاں اس انداز میں اڑائیں کہ آج تک بھی ان کی ایسی تحریریں مفیدونتیجہ خیزہیں، جہاد جیسے موضوع کو جب دنیا میں قابل نفرت بنانے کی تحریک شروع ہوئی، تو الجہاد فی الاسلام لکھ کر کرارا جواب دیا نظریہ اباحیت کے تحت جب عورتوں کو بازاروں اور دوکانوں میں گھسیٹنے کی تحریک شروع ہوئی تو اہل مغرب کو "پردہ” کا آئینہ دکھا ، سرمایا دارانہ ،اور مارکس کے اقتصادی نظام میں بنیادی عنصر کی حیثیت رکھنے والے "سود” پر کاری ضرب لگائی، مولانا نے جو کام کیاتھا، آج اس کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے لیکن افسوس کہ ان موضوعات کو اس مؤثر انداز میں پیش کرنے والا کوئ دوسرا "مودودی” نہ پیدا ہو سکا،مولانا وحید الدین خان صاحب آئے؛لیکن وہ مرعوبیت کے اس قدر شکار تھے کہ ہمارے نمائندہ سے زیادہ غیروں کے ترجمان بن گئےـ مولانا مودودی کی یہی خصوصیات تھیں جن کی بنا پر عصری اداروں سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان دینی رجحان پیدا کرنے میں مولانا کی تحریر نے بے نظیر رول ادا کیاـ
ہاں ان سے غلطیاں بھی ہوئی ہیں، اس میں کوئی شک نہیں، دین کی تعبیر و تشریح اور اس کی تفہیم میں نئی تعبیر اختیار کرتے کرتے وہ شاید دین کی اصل روح سے کچھ آگے نکل گئے، اور یہی وجہ ہے کہ مولانا منظور نعمانی اور مولانا علی میاں ندوی رحمہما اللہ ان کی دینی تحریک "جماعت اسلامی” کے رکن اساسی ہونے کے باوجود ان سے الگ ہو گئے اور کھلے طور پر ان حضرات نے مولانا کی لغزشوں کی نشاندہی کی،اس پر مولانا مودودی رحمہ اللہ نے ناراض ہونے کے بجائے کھلے دل سے مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ کو خط لکھ کر شکریہ ادا کرتے ہوئے تحریر فرما یا کہ” میں آپ کا شکر گذار ہوں کہ میری جس چیز کو آپ نے خدشات کا موجب سمجھا اس پر تنقید فرمائی،مزید میری جن چیزوں کو آپ دین اور اہل دین کیلئے مضرت رساں یا موجب خطر سمجھتے ہوں ان پر بھی آپ بلا تکلف تنقید فرمائیں،میں نے کبھی اپنے آپ کو تنقید سے بالاتر نہیں سمجھا ، نہ میں اس پر برا مانتا ہوں ، البتہ یہ ضروری نہیں کہ میں ہر تنقید کو بر حق مان لوں،اور ناقدین کے بیان کردہ خدشات اور اندیشوں کو صحیح تسلیم کر لوں” (پرانے چراغ2 صفحہ 280) ایسا تھا ان کا اختلاف ـ
آخری بات:
جس طرح مولانا مودودی رحمہ اللہ کا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اختلاف کی تحقیق وتنقیح اور اس پر بیجا تنقید بے وقت کی شہنائی تھی اور ان کی اس تحریر پر امت کا کوئی ناقابل حل مسئلہ اٹکا نہیں تھا، اسی طرح دور حاضر میں مولانا کے افکار پر تنقید و تبصرہ، امت اسلامیہ کو درپیش مسائل اور ان کی زبوں حالی کا حل نہیں ہے، ایسا نہیں کہ آپ یہ تبصرے نہ کریں تو امت مزید تخلف کا شکار ہو جائے گی، اگر مولانا نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان میں گستاخی کی تو ضروری نہیں کہ آج جن لوگوں کا تعلق جماعت سے ہے وہ بھی گستاخ ہی ہوں اور شیعہ کی طرح عمدا صحابہ کی شان میں گستاخی کو ایمان کا جزو سمجھتے ہوں گے، آپ جماعت اسلامی کا ایک بھی ایسا ممبر دکھا دیجئے،جو صحابہ سے بغض و عناد رکھتا ہو اور ان کو معیار حق تسلیم نہ کرتا ہو، بھائی ہمیں تو حسن ظن رکھنا چاہئے کہ ہم جس طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے عقیدت و محبت رکھتے ہیں اور ان کی تعظیم و تکریم کرتے ہیں،وہ بھی کرتے ہونگے، ایسا مان لینا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے صرف ہمیں عقیدت و محبت ہے ،انتہائی غلط اور جوڑنے کی بجائے توڑنے والی فکر ہےـ
مولانا مودودی رحمہ اللہ اور ہمارا رویہ
previous post