Home مباحثہ مولانا سجاد نعمانی کا انٹرویو اور مولانا عبیداللہ کی تحریر کا جائزہ

مولانا سجاد نعمانی کا انٹرویو اور مولانا عبیداللہ کی تحریر کا جائزہ

by قندیل

از:سعد عالم مذکر دہلوی
چند روز سے ایک مسئلہ کافی موضوع بحث بنا ہوا ہتها اور اب مختلف شکلوں میں ظاہر ہو رہا ہے جس کے بنیادی عناصر پرسنل لاء بورڈ، مولانا سلمان صاحب ندوی اور مولاناسجاد صاحب نعمانی ہیں؛موقع کو غنیمت جانتے ہوئے وسیم رضوی نے بھی اس میدان میں چھلانگ لگا دی تھی بر ایں بنا مفتی یاسر ندیم مقیم حال امریکہ نے یکے بعد دیگرے ہر ایک کا انٹرویو لیا اور معاملے کے تعلق سے مختلف سوالات کیے جن میں مولانا سجاد نعمانی صاحب بھی تھے.ان کے انٹرویو کے بعد نوجوان صحافی شمس تبریز نے اپنے اخبار ملت ٹائمز میں ایک سخت سخت عنوان کے ساتھ کچھ باتیں سپرد قرطاس کی، پهر پروفیسر مولانا عبیداللہ صاحب کی ایک تحریر منظر عام پرآئی جس میں مولانا موصوف نے مولانا نعمانی کے انٹرویو کا خلاصہ پیش کیا اور 6 بنیادی سوالات اٹھائے، اخیر میں مولانا نعمانی کے علمی کمال کے اعتراف کے ساتھ ساتھ یہ بات لکھی کہ مولانا کے انٹرویو کا خلاصہ؛ مولانا سلمان ندوی پر تنقید، کانگریس پر تنقید اورجمیعت پر تنقید ہے. میں نے چوں کہ مولانا سجاد نعمانی کا مکمل انٹرویو سنا تھا اس لیے مولانا عبیداللہ صاحب کی باتوں سے مجھے اتفاق نہیں تھا زیر نظر تحریر میں مولانا عبیداللہ صاحب کی ذکر کردہ باتوں کا ہی جواب دینا مقصود ہے
(1) مولانا عبیداللہ صاحب کے مطابق *مولانا سلمان سے متعلق گفتگو بند کرنے کے لیے ضروری تھا کہ وسیم رضوی کے ایف آئی آر کی بنیاد سلمان صاحب کو قرار دینے سے گریز کرتے*. واقعہ یہ ہے کہ مولانا نے جو بات کی ہے وہ حق بجانب ہے کیونکہ ظاہر ہے وسیم رضوی کے ایف آئی آر کی پشت پر مولانا سلمان صاحب کے اٹھائے ہوئے مدعا ہی تو ہیں وسیم رضوی کے ایف آئی آر کا ماخذ مولانا سلمان صاحب کی تقریر کے علاوہ کچھ اور ہوتا تو یقیناً مولانا سجاد صاحب کے متعلق چوک جانے کی بات کہنا کسی حد تک قابل تسلیم تھا.
(2) *اویسی پر تنقید بے موقع تھی ممکن ہے اویسی کی بات صحیح ہو مولانا کو یہ تنقید پبلک فورم پر نہیں کرنی چاہیے تھی*.اگر غور کیا جائے تو اویسی پر تنقید بر محل تھی کیونکہ اویسی صاحب کا یہ کہنا کہ اس مسئلہ(بابری مسجد کے قضیہ) کو 2019 تک مؤخر کردیا جائے ان کے اندرونی انتشار اور غیر اطمینانی کو واضح کرتا ہے چند روز قبل ہی انہوں نے بڑے شدومد کے ساتھ کہا تھا کہ بابری مسجد کا قضیہ جلد ہی حل ہو کر رہے گا اور اب اس کو 2019 تک ڈالنے کی رائے دے رہے ہیں مولانا نعمانی صاحب نے تو یہ بات صاف صاف کہی تھی کہ ممکن ہے لوگوں کو اویسی صاحب کی رائے سے اتفاق ہو لیکن چوں کہ بحیثیت ترجمان مجھ سے میری رائے طلب کی جا رہی ہے تو میری نظر میں اس وقت (جب کہ معاملہ آخری مراحل طے کر رہا ہے اور فریق مخالف کو اس کا مکمل احساس ہے کہ فیصلہ ان کے حق میں ہونے کے آثار نظر نہیں آ رہے ہیں) ان کا اس طرح کا بیان دینا درست نہیں ہے جہاں تک سوال اس بات کا ہے کہ *مولانا نعمانی صاحب کو یہ بات پبلک فورم میں نہیں کہنی چاہیے اس سے بورڈ کے اندرونی خلفشار کا اندازہ ہوتا ہے* تو سوال یہ ہے کہ *کیا اویسی صاحب کو وہ بات پبلک فورم میں کہنی چاہیے تھی* یہ عجیب نہیں ہوگا کہ اگر اویسی صاحب کسی بات کو مجمع عام میں کہیں تو درست ہو اور مولانا نعمانی صاحب کا اس پر پبلک فورم نقد کرنا غیر مناسب ہو، نیز مولانا نعمانی کی اس وضاحت سے لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہونے والی الجھن دور ہوگی کہ آیا بابری مسجد والے قضیے کو 2019 تک مؤخر کرنے کی بات اویسی صاحب کی ذاتی رائے ہے یا پھر بورڈکا اتفاقی فیصلہ؟ ترجمان کی حیثیت سے مولانا نعمانی کا بیان اپنی جگہ صد فیصد درست ہے ہاں اویسی صاحب اگر یہ بات کسی نجی مجلس میں کہتے اور مولانا نعمانی اسکا افشا کردیتے تو اس پر بحث کے دروازے کھولے جاسکتے تھے.
(3) پروفیسر عبیداللہ صاحب نے تیسرے پیراگراف میں چند پہلوؤں کو واشگاف کیا ہے {1} *مولانا نعمانی کا صرف گاندھی، نہرو اور اس کے متعلقات پر پانچ سالوں میں تقریبا ایک لاکھ صفحات کا مطالعہ خالص مبالغے پر محمول ہیں*،{2} *مولانا نعمانی کا اس بات کو ایسے نازک حالات میں کہنا ہی نہیں تھا*،{3} *اس سے کانگریس بورڈ کی مخالف ہو جائےگی*،{4} *ملک کی عوام کانگریس سے بدظن ہو جائے گی جس سے بی جے پی کو تقویت ملے گی*.
اب ہم ذیل میں مختصراً ان باتوں کا بالترتيب جائزہ لیتے ہیں
{1}بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جن پر انسان اسی وقت یقین کر پاتا ہے جب اس پر وہ بیت جاتی ہیں یا ان کا تجربہ ہو جاتا ہے؛ ایک لاکھ صفحات کا مطالعہ بھی اسی قبیل سے ہے، اصول حدیث کی اصطلاح میں حاکم اور حجت کا لقب اسی شخص کو دیا جاتا ہے جسے تین لاکھ اور پانچ لاکھ احادیث سندا و متنا جرحاً وتعدیلا ازبر ہوں کیا آج اس کا کوئی تصور کرسکتا ہے؟ امام بخاری کا وہ مشہور واقعہ جس میں مختلف لوگوں نے مختلف احادیث سند ومتن کی تبدیلی کے ساتھ سنایا جس کا جواب دیتے ہوئے امام بخاری نے اولا بالترتيب ان کی پیش کردہ احادیث ذکر کیں پھر صحیح سند و متن کے ساتھ انہیں بیان کیا یقیناً اس دور میں یہ بات اچنبھی معلوم ہوتی ہے، امام ابو حنیفہ نے قرآن و سنت کو ماخذ بناتے ہوئے تقریبا 12 لاکھ سے زائد مسائل کا استنباط کیا جب کہ ان کے یہاں ایک مسئلہ کے استنباط میں کئی مراحل سے گزرنا ایک لازمی امر تھا کیا یہ بعید از عقل نہیں ہے؟ اگر یہ باتیں ہماری سرحد ادراک سے پرے ہے تو کیا ہم اسے سرے سے ہی نکار دیں گے؟ میرے دارالعلوم دیوبند کے استاد محترم نے ایک شب میں 500 سے زائد صفحات پر مشتمل کتاب کا مطالعہ کیا تھا،علامہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق لکھا ہے کے روزانہ *نئے سیکڑوں* صفحات کا مطالعہ ان کی غذا تھی تو کیا وہ اسفار نہیں کرتے تھے؟ کیا ان کی دیگر مشغولیات نہیں تھیں؟ دوسری بات یہ کہ کیا کثرت اسفار اور کثرت اذکار نیز طبیعت کی علالت مطالعے میں مخل ہوسکتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ایسا شخص جو مطالعے کا رسیا اور کتابوں کا شوقین ہو اس کے لئے پچاس ساٹھ صفحات کا یومیہ مطالعہ کوئی چونکا دینے والی بات نہیں ہے پھر یہ کے تخمینے کی حیثیت محض تخمینہ کی ہوتی ہے اس کو باضابطہ حجت بنا کر مخالفت میں پیش کرنا انصاف کی بات نہیں ہے. {2}مولانا نعمانی نے اس بات کو سائل کے سوال کرنے پر دہرایا ہے کیونکہ یہ بات مولانا بہت پہلے سے کہتے چلے آرہے ہیں ہاں اگر وہ پہلی بار اس کا ذکر اس موقعے سے کرتے تو معترض کو اعتراض کا حق تها،{3}کانگریس بورڈ کی موافق ہی کب تهی کبھی کبھار اپنی روٹی سیکنے کے لئے اور عوام کی نظر میں اپنی حیثیت قائم رکھنے کے لئے مجمل اور ادھورے اتفاق کا اظہار کیا ہو تو وہ الگ بات ہے تاریخ کے طالب علم پر یہ بات مخفی نہیں ہے کے شاہ بانو کیس، اس کے ری ایکشن پر بابری مسجد کے تالے کهولنے کی اجازت پھر اس کی شہادت اور پرسنل لا کے پر سوالات اٹھانے کے واقعات کانگریس ہی کے دور اقتدار میں پیش آئے ہیں اگر کانگریس بورڈ (مسلمانوں کے مسائل کو باضابطہ حل کرنے سے) اتفاق رکھتی تو اولا ایسے واقعات ہی پیش نہ آتے اور اگر آتے بھی تو کب کے حل ہوچکے ہوتے دراصل یہ مار آستین ہے اس لئے ہم کو اس کا اندازہ نہیں ہوتا ہے
{4}کانگریس اور بی جے پی کی مضبوطی کی بنیاد ملکی عوام نہیں بلکہ اعلیٰ اقتدار ہیں ملکی عوام تو ایک جمہوری رسم کی تکمیل ہے واضح ہو کہ دور حاضر میں یہ ساری چیزیں طے شدہ ہوتی ہیں کہ حکومت کی باگ ڈور کس کے ہاتھ میں ہوگی اور کس کی نہیں، الیکشن میں پی EVM کے نتائج ہمارے لئے بختہ ثبوت پیش کرتے ہیں ممکن ہے قاری کو اس سے اتفاق نہ ہو تاہم بی جے پی آئی ٹی سیل کے ممبران کے بیانات قاری کے قلبی اطمنان کا باعث بن سکتے ہیں. یہ بھی حقیقت ہے کہ آر ایس ایس کے علاوہ جتنی بھی تنظیمیں ہیں خواہ وہ بی جے پی ہی کیوں نہ ہو؛وہ سب کانگریس ہی کی شاخسانہ ہیں،90 کی دہائی کے بعد ان کا وجود ہوا ہے جن کی بنیاد تو ایک ہے البتہ جزوی عناصر مختلف ہیں.
(4)پروفیسر عبید اللہ صاحب نے اپنی ناقدانہ تحریر میں ایک لفظ بار بار استعمال کیا ہے وہ ہے *پبلک فورم* ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پروفیسر عبیداللہ صاحب کے نزدیک اظہارِ حق کے لیے ضروری ہے کہ وہ مجمع عام میں نہ کیا جائے تبھی تو وہ بار بار اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ یہ سب باتیں پبلک فورم میں نہیں کہنی چاہیے. حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان *قولوا لا اله الا الله تفلحو* کے بعد کونسا ایسا زمانہ گزرا ہے جس میں مسلمانوں کے لیے حالات سازگار رہے ہوں؟ تو کیا انسان کچھ بولے ہی نہیں؟ اور اگر ہر ایک اپنی زبان پر تالا ہی لگا لے گا تو امت کی بےچینی کیسے دور ہوگی اس کو یہ کیسے احساس ہوگا کہ ہمارے غم کا کوئی مداوا بهی ہے مولاناسجاد علیہ الرحمۃ کا مکالمہ گائے کے تعلق سے اگر مولانا نعمانی نے پیش ہی کر دیا تو کون سی آفت آن پڑی کہ مولانا عبیداللہ صاحب کو اس کی وضاحت کی ضرورت محسوس ہوئی؟ ایک عقل سے لگتی گفتگو تھی اگر اس کو بیان ہی کر دیا تو اس میں کیا قباحت ہے؟ بھلا اس میں کون سی ایسی بات تھی جو پبلک فورم کے اصول و ضوابط اور آئین خاص کے مخالف تھے
(5)ابو المحاسن رحمتہ اللہ علیہ کی ذات اور جمیعت علماء ہند کا ان کو دانستہ یا نا دانستہ ذکر نہ کرنا جس طرح یہ بات پبلک فورم میں کہنے کی نہیں تھی اسی طرح اس کو موضوع بحث بنانا بهی ضروری نہیں تھا نیز مولانا نعمانی نے یہ بات ضمناً کہی تھی اور اس پر زور نہیں دیا تھا یقین اس سلسلے میں ان کا جمیت سے رجوع ذاتی فریضہ ہے لیکن اگر انہوں نے اس بات کو پبلک فورم میں بیان ہی کر دیا تو یہ اتنی بڑی بات نہیں ہے جس سے عوام کا اعتماد علماء سے اٹھ جائے گا
(6)یہودیوں کی سلسلے میں مولانا نعمانی نے اتنی بات کہی ہے کہ پہلے وہ غلام تھے اور ایک آیت پڑھی ہے اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ ان کے اعزاز اور موقر ہونے کے قائل ہیں اسی طرح اللہ رب العزت کا ارشاد "یہود و نصاریٰ پر دائمی ذلت مسلط کر دی گئی ہے” اس سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ ان پر یہ ذلت ہمیشہ سے ہے بلکہ جب یہ انبیاءکے پیروکار تھے اس وقت ان پر ذلت نہیں تھی.
یہ وہ چند باتیں تهیں جن کو پروفیسر عبید اللہ صاحب نے اپنی تحریر میں بنیاد بناتے ہوئے مولانا نعمانی کے انٹرویو کو بے حیثیت قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ مولانا نعمانی کی انٹر ویو محض تنقید سے پر تها میری نظر میں مولانا عبیداللہ کی باتیں حتمی نہیں ہیں البتہ میں اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہوں کہ مولانا نعمانی بعض اوقات اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے قسمیں تک کها لیتے ہیں ظاہر ہے ہم ان کے اس عمل کو مستدل بناتے ہوئے ان کی کسی بات کو اس لیے پیش نہیں کر سکتے کہ انہوں نے اس بات پر قسم کھائی تھی کیونکہ بعض باتیں غیر شعوری طور پر انسان کی تقریر و تحریر کا جزولاینفک بن جاتی ہیں، اسی طرح مولانا نعمانی اپنی بات کو پرزور انداز میں منواتے بھی ہیں اب اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ان کی ہر بات کو اس لئے نظر انداز کر دیا جائے کہ وہ مبالغے سے کام لیتے ہیں
اخیر میں یہ لکھتا چلوں کہ پروفیسر عبیداللہ صاحب نے اپنی تحریر میں جو پبلک فورم کی بات پر زور دیا ہے کہ مولانا کو یہ باتیں اس طرح کھلے عام نہیں کہنا چاہیے تھا تو بہتر یہ تها کہ آپ یہ بات مفتی یاسر ندیم سے کہتے کیوں کہ وہ مختلف سوالات پر مولانا نعمانی کی رائے جاننا چاہتے تھے لہذا اگر پبلک فورم پر مولانا نعمانی کے جوابات دینا درست نہیں تھا تو اس سے قبل مفتی یاسر ندیم کا پبلک فورم پر سوالات کرنا بھی درست نہیں تھا
میری اس تحریر کا مقصد صرف اور صرف ان شبہات کا ازالہ تھا جو پروفیسر عبیداللہ صاحب کی تحریر سے نادانستہ طور پر پیدا ہوگئے تھے اگر کسی صاحب کو میری باتوں سے اتفاق نہیں ہے تو وہ آزادانہ طور پر اپنی رائے کا اظہار کر سکتے ہیں اور اگر ان کی تحریر مجھ تک پہنچ جائے تو میں ان کا احسان مند ہوں گا.

You may also like

Leave a Comment