Home قومی خبریں ’’مولانا حمید الدین فراہی :علمی وفکری میراث ‘‘پر بین الاقوامی سیمینارشروع

’’مولانا حمید الدین فراہی :علمی وفکری میراث ‘‘پر بین الاقوامی سیمینارشروع

by قندیل


ڈاکٹراورنگ زیب اعظمی کے زیر ادارت شائع ہونے والے عربی رسالہ’’مجلۃ الہند‘‘کے خاص نمبرکا اجرا
اعظم گڑھ: (قندیل نیوز )
آج بتاریخ 24 مارچ 2018 بروزہفتہ شبلی نیشنل کالج اعظم گڑھ کے کانفرنس ہال میں دی مسلم ایجوکیشن سوسائٹی کے اولین سکریٹری مولانا حمید الدین فراہی کی حیات خدمات خصوصاً آپ کی تفسیری اورعربی ادب پرمربوط مجموعی خدمات کو نسل نو تک پہنچانے اورمرحوم کی علمی جلالت شان سے آگاہی فراہم کرنے کے مقصد سے دوروزہ بین الاقوامی سیمیناربعنوان الامام حمید الدین فراہی: علمی و فکری میراث "کا افتتاح ہوا۔ افتتاحی تقریب کی صدارت پروفیسر الطاف احمد اعظمی نے کی، مہمان خصوصی ڈاکٹر محمد اقبال فرحات پروفیسر شریعہ کالج قطر یونیورسٹی، مہمان اعزازی ڈاکٹر حسن یشو پروفیسر شریعہ کالج قطر یونیورسٹی، اور مولانا شکیل احمد اعظمی، چیئرمین ابن ہیثم اسلامک اسکول بحرین رہے۔ پروگرام کا آغاززیاد احمدکی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔خطبہ استقبالیہ سمینار کے کنوینر ڈاکٹر محی الدین آزاد اصلاحی نے پیش کیا۔شبلی اکیڈمی کے ڈائریکٹر پروفیسر اشتیاق احمد ظلی نے اپنے خطاب میں کہا کہ علامہ حمید الدین فراہیؒ ایسے عظیم کمالات کے حامل تھے کہ ان کا احاطہ کرنے میں الفاظ بھی ہماراساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ مولانا شکیل احمد اعظمی نے اپنے پرمغزخطاب میں کہا کہ مولانا فراہیؒ نے اگر کسی فن یا موضوع پرایک صفحہ بھی لکھ دیا ہوتو اس پر ایک مکمل کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ ڈاکٹر حسن یشو قطر یونیورسٹی نے کہا کہ مولانا فراہی علم کا ایک ایسا سمندر ہے جس کی کوئی انتہاء نہیں ہے۔آپ کے کارناموں پرعالم عرب بھی آج محوحیرت ہے۔مہمان خصوصی ڈاکٹر محمد اقبال فرحات پروفیسراصول فقہ شریعہ کالج قطر یونیورسٹی نے کہا کہ مولانا فراہیؒ آج بھی تحقیق و تدقیق کے پہلے مقام پرفائزہیں۔حضرت الامام فراہیؒ نے جو علمی میراث چھوڑی ہے اسے ہم سبھی کوخاص کر اعظم گڑھ کے لوگوں کو آگے بڑھاناچاہیے۔اپنے صدارتی خطاب میں پروفیسر الطاف احمد اعظمی نے کہا کہ مولانا فراہیؒ نے اپنی تحقیق و جستجوکا موضوع اللہ کی کتاب قرآن کوبنایا، مولانا حمید الدین فراہیؒ قرآن کے ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ قدیم اور جدید علوم میں یکساں ماہرتھے اور متبحر عالم تھے۔مرحوم کے وسعت علم کااندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ مولانا فراہی نے ارسطو کی بہت سی غلطیوں پر گرفت کی ،جبکہ بڑے بڑے سورما ارسطوکے فلسفہ اور منطق کے آگے مرعوب نظر آتے ہیں۔آپ نے ارسطو کی منطق کو غلط ثابت کرتے ہوئے اپنے موقف کو قرآن کریم کی روشنی مدلل بھی کیا ۔ انہوں نے یونانی فلسفہ کوبھی اپنی توجہات کا مرکز بنایا اورانتہائی دقیق تنقیدی مطالعہ بھی کیا ۔مولانا فراہیؒ کا خیال تھا کہ جو شخص منطق نہیں جانتا وہ اپنے علم سے کماحقہ مستفید نہیں ہو سکتا، انہوں نے مولانا فراہیؒ کا تقابل یونان کے مشہور فلسفی ارسطو سے کیا اور بہت سے پوشیدہ پہلوؤں کو بھی اجاگر کیا۔ مولانا فراہیؒ علوم دینیہ میں منصب کمال پر فائز تھے ساتھ ہی آپ علوم متداولہ اور عصری علوم سے بھی آراستہ تھے۔پروفیسر الطاف احمد اعظمی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم لوگ فراہیؒ تو نہیں بن سکتے لیکن ہم لوگوں کو فراہی اسلوب کے مطابق فکر وتدبر کی راہ ضرور اختیار کرنی چاہئے۔عالمی سیمینار کے افتتاحی سیشن میں ڈاکٹر اورنگ زیب اصلاحی ،شعبہ عربی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر ادارت شائع ہونے والے علمی وتحقیقی رسالہ ’’مجلہ الہند‘‘ کے فراہی نمبر کا اجراء بھی عمل میں آیا۔یہ مجلہ عربی زبان میں ایک بیش قیمت اور ضخیم کتاب ہے جو امام فراہی کی علمی وفکری خدمات کے تمام گوشوں کا احاطہ کرتاہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل شبلی صدی کے موقع پربھی اس رسالے کاخصوصی نمبرشائع ہواتھا جسے عالمی سطح پرمقبولیت حاصل ہوئی تھی ـ یہ رسالہ اپنے معیاری اندازپیش کش کی وجہ سے عالمی سطح پرمقبولیت اورپذیرائی حاصل کرچکاہے ـ  آخرمیں کلمات تشکر پیش کرتے ہوئے کالج کے پرنسپل ڈاکٹر غیاث اسد خاں نے کہا کہ اس کالج کی بنیاد میں علامہ فراہی کی تمام کوششیں شامل ہیں،یہ فرض تھا کہ مرحوم پر اس قسم کے تاریخی اور منفرد سیمینار بار بار کئے جاتے ،مگر دیر سے ہی سہی کالج کو یہ سعادت ملی کہ اس نے اپنے محسن کی قربانیوں کو داد تحسین پیش کرنے کا موقع حاصل کرلیا۔ اس موقع پر سمینار کے میڈیا انچارج ڈاکٹر شفیع ا لزماں اور ڈاکٹر شباب الدین، ڈاکٹر وصی الدین ایڈوکیٹ، محمد نعمان چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ، محمد اسلم، فیروز طلعت، ڈاکٹر شوکت علی، ڈاکٹرقمر اقبال، ڈاکٹر جاوید علی عبدالمعبود، مولانا طاہر مدنی، ڈاکٹر گیان پرکاش دوبے، ڈاکٹر محمد ارشد، ڈاکٹر بابر اشفاق، ڈاکٹر مکرم علی، محمد رافع، ہرمندر پانڈے، ڈاکٹر انیس احمد خاں، ڈاکٹرالحنان، مرزا وسیم باری بیگ، ڈاکٹر محمد طاہر، ڈاکٹر اورنگزیب، توقیر شیروانی، مرزا اسد بیگ (منا) وغیرہ اور شہر کی معزز شخصیات موجود رہیں۔ افتتاحی سیشن کی نظامت شعبہ تاریخ کے صدر ڈاکٹر علاء الدین خاں نے کی۔ اس موقع پر سمینار کے شریک کنوینر ڈاکٹر نازش احتشام اعظمی کی شراکت بھی قابل ذکرہے۔بعد ازاں سہ پہر تین بجے سیمینار میں مقالہ نگاروں نے اپنی تخلیقات پیش کیں ، اس سیشن کی صدارت مولانا طاہر مدنی نے کی ،جبکہ مقالہ نگاروں میں ڈاکٹر اقبال فرحات،ڈاکٹر حسن یشو،شفاء الرحمن ،ریسرچ اسکالر جامعہ ملیہ اسلامیہ اور بشیرالدین شرقی وغیرہ کے نام خاص طورپرقابل ذکرہیں ـ

You may also like

Leave a Comment